ٹیم میں پھوٹ کا خطرہ، کلارک پر سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ

آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک اور نائب کپتان شین واٹسن کے درمیان خلیج پیدا ہونے کی خبریں منظرعام پر آتے ہی چند حلقوں کی جانب سے کلارک کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ بحیثیت سلیکٹر اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ ان کے وسیع تر اختیارات کھلاڑیوں کے درمیان اختلافات پیدا کر سکتے ہیں۔

اس وقت کیریئر کی بہترین فارم میں موجود آسٹریلوی بلے باز بحیثیت قائد چند فیصلوں کے باعث قومی کرکٹ کے پنڈتوں کی نظروں میں آ گئے ہیں، جنہوں نے کپتان و نائب کپتان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو بھانپ لیا ہے۔
دونوں کھلاڑیوں کے تعلقات میں پہلی دراڑ دو ہفتے قبل نظر آئی جب برسبین میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ سے قبل مائیکل کلارک نے یہ بیان دیا تھا کہ صحت یاب ہو جانے کے بعد بھی واٹسن دوسرے ٹیسٹ کے لیے براہ راست انتخاب نہیں ہوں گے۔ گو کہ کلارک مندرجہ بالا صورتحال کی تردید کر رہے ہیں لیکن اُن کا بیان اور پھر بلے بازی کے لیے تیار ہونے کے باوجود واٹسن کا ایڈیلیڈ کے لیے عدم انتخاب کئی پیشانیوں پر بل ڈال گیا ہے۔
گزشتہ سال ایشیز میں بدترین شکست کے بعد وجوہات کے لیے قائم کردہ آرگس کمیشن کی سفارشات کے تحت آسٹریلیا کی سلیکشن کمیٹی میں انقلابی تبدیلیاں کی گئی تھیں جس کے تحت کپتان کو بھی سلیکٹرز میں شامل کیا گیا تھا۔ کمیٹی رپورٹ کے بعد رکی پونٹنگ قیادت سے محروم ہوئے اور قرعہ فال کلارک کے نام نکلا جو ماضی میں چند کھلاڑیوں کے بہت برے تعلقات کے حامل رہے ہیں خصوصاً اوپنر سائمن کیٹچ کے ساتھ 2009ء میں ہونے والی ہاتھا پائی اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائمن گزشتہ سال واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ جب تک کلارک موجود ہے انہیں قومی ٹیم میں واپسی کی کوئی امید نہیں۔ اس تنازع سے بھی پہلے 2008ء میں کلارک کے اینڈریو سائمنڈز سے تعلقات اس وقت خراب ہوئے تھے جب ٹیم کے تربیتی کیمپ کے بجائے مچھلی پکڑنے کا شوق پورا کرنے کرنے بطور سزا سائمنڈز کو گھر بھیج دیا گیا تھا اور یہ سزا دینے والے گروہ میں خود کلارک شامل تھے شاید یہی وجہ ہے کہ دورۂ ویسٹ انڈیز میں سائمنڈز نے غصے میں کلارک کی جانب گلاس بھی پھینکا تھا۔
اس پس منظر کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ٹیم کے چند اراکین کے ساتھ کلارک کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی مسئلہ رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ واٹسن اب کلارک کا تیسرا نشانہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ چند سابق کھلاڑی اس معاملے کو یہیں پر حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ ماضی والی صورتحال پیدا نہ ہو اور آسٹریلیا شین واٹسن جیسے شاندار کھلاڑی سے ہمیشہ کے لیے محروم نہ ہو جائے۔