[آج کا دن] دنیائے کرکٹ پر پاکستان کی حکمرانی کا آغاز

3 1,131

پاکستان کرکٹ کی معراج، آج کے روز ملبورن کے تاریخی میدان میں پاکستان نے انگلستان کو 22 رنز سے ہرا کر پہلی و آخری بار عالمی اعزاز اپنے نام کیا اور عمران خان کا کیریئر اک خواب کی تعبیر کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں کھیلے گئے اس فائنل مقابلے میں ’دیوار سے لگے شیروں‘ نے ایسا مقابلہ کیا کہ دنیا کی کوئی ٹیم ان کے سامنے نہ ٹھیر پاتی۔

ابتدائی مقابلوں میں ناقص کارکردگی اور پے در پے شکستوں کے باعث پاکستان کے کھلاڑیوں کی واپسی کا سامان تیار ہو چکا تھا اور وہ اہم ترین مقابلے میں انگلستان کے خلاف 72 رنز پر ڈھیر بھی ہوئے لیکن باران رحمت پاکستان کے لیے بہت بڑی نعمت بن کر نازل ہوئی اور اس مقابلے میں نہ صرف پاکستان شکست سے بچ گیا بلکہ ایک قیمتی پوائنٹ مل گیا۔ اس زمانے میں ڈک ورتھ/لوئس طریق کار نہیں ہوا کرتا تھا۔ بعد ازاں لیگ مقابلوں کے آخری دن پاکستان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اب تک ناقابل شکست نیوزی لینڈ کو ہرائے اور دوسری جانب انتظار کرے کہ آسٹریلیا ویسٹ انڈیز کو شکست دے گا۔ اور ایسا ہی ہوا اور پاکستان سیمی فائنل تک پہنچ گیا جہاں ایک سنسنی خیز معرکے کے بعد وہ فتح یاب ٹھیرا اور پہلی بار عالمی کپ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔

1992ء کا عالمی کپ اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد ترین ٹورنامنٹ تھا، رنگین لباس اور سفید گیند کے ساتھ دن/رات میں کھیلے گئے ان مقابلوں نے عالمی کپ کو پہلی مرتبہ چکاچوند بخشی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خوبصورت میدانوں میں کھیلے گئے اس عالمی کپ نے آغاز ہی سے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ راؤنڈ رابن طرز پر ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں تمام ہی ٹیموں نے ایک دوسرے کا سامنا کیا یہاں تک کہ سرفہرست چار ٹیمیں سیمی فائنل کے لیے منتخب قرار پائیں۔

دوسری جانب انگلستان جنوبی افریقہ کے خلاف مقابلے کے اختتامی لمحات پر بارش کی وجہ سے انتہائی متنازع صورت میں فتح یاب قرار پایا اور یوں ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں 25 مارچ 1992ء کو پاک-انگلستان فائنل کا آغاز ہوا۔ آسٹریلیا کی کرکٹ تاریخ میں سب سے زیادہ تماشائیوں نے یہ میچ دیکھا جن کی تعداد 87 ہزار سے زائد تھی۔

پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور اوپنرز کی مکمل ناکامی کے بعد مڈل آرڈر میں جاوید میانداد، عمران خان، انضمام الحق اور آخر میں وسیم اکرم کی برق رفتار اننگز کی بدولت 249 رنز کا ایک اچھا مجموعہ اکٹھا کیا۔ پاکستان کی مضبوط باؤلنگ لائن اپ اس ہدف کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ عمران خان 72 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے جبکہ میانداد نے 58، انضمام نے 42 اور وسیم اکرم نے 33 رنز بنائے۔ یہ انضمام کی ایک اور تیز اننگز تھی جو 35 گیندوں پر 4 چوکوں کی مدد سے بنائی گئی جبکہ وسیم اکرم نے صرف 18 گیندوں کا سامنا کیا۔ انضمام اور وسیم کی برق رفتاری کے باعث پاکستان نے آخری 6 اوورز میں 52 رنز سمیٹے جبکہ پاکستان نے درمیان کی سست رفتار بلے بازی کی تلافی آخری 20 اوورز میں 153 رنز بنا کر کر دی۔

جواب میں پاکستان نے پہلے عاقب جاوید اور وسیم اکرم اور پھر مشتاق احمد کے دہری ضرب کی بدولت 69 رنز پر ہی انگلش ٹاپ آرڈر کو ٹھکانے لگا دیا۔ وسیم اکرم نے این بوتھم کو اٹھتی اور باہر کو جاتی ہوئی ایک خوبصورت گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ کرایا، جسے آؤٹ دینے پر بوتھم خاصے برہم دکھائی دیے لیکن انہیں بادل نخواستہ میدان بدر ہونا پڑا۔ دوسرے اینڈ سے عاقب جاوید نے ایلک اسٹیورٹ کو ٹھکانے لگا کر انگلستان پر دوسری کڑی ضرب لگائی۔ 21 رنز پر دو وکٹیں گر جانے کے بعد مشتاق احمد نے ایک خطرہ بنتی ہوئی شراکت داری کا خاتمہ کیا اور پہلے کو ایک خوبصورت گگلی پر وکٹوں کے سامنے جا لیا اور بعد ازاں کپتان گراہم گوچ ایک سویپ پر کیچ دے بیٹھے۔ عاقب جاوید نے آگے کی جانب جست لگاتے ہوئے ان کا زبردست کیچ لیا اور یوں میچ پر پاکستان کی گرفت مضبوط تر ہو گئی۔ انگلستان کو فتح کے لیے 29 اوورز میں 181 رنز کا مشکل ہدف درکار تھا اور اس موقع پر ایلن لیمب اور نیل فیئر برادر نے ایک عمدہ شراکت داری قائم کی۔

دونوں نے پانچویں وکٹ پر محض 14 اوورز میں 72 رنز کا اضافہ کیا۔ بلند و بالا شاٹس کھیلنے کےبجائے ان کی توجہ اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے پر زیادہ رہی اور اس کانتیجہ یہ نکلا کہ مقابلہ تقریباً برابری کی بنیاد پر آ گیا۔ 34 اوورز کی تکمیل پر انگلستان کا اسکور 141 رنز4 کھلاڑی آؤٹ تھا۔ اتنے بڑے اعزاز کےحصول کے لیے انگلستان اتنی آسانی سے ہتھیار ڈالنے والا نہیں تھا۔

صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے وسیم اکرم کو ایک مرتبہ پھر باؤلنگ کا حکم دیا اور انہوں نے اپنے کیریئر کی دو خوبصورت ترین گیندیں پھینک کر پاکستان کی فتح پر مہر ثبت کر دی۔ ایلن لیمب جنہوں نے مقابلے میں پہلی بار وسیم اکرم کا سامنا کیا ایک تیز گیند کو کھیلنے کے لیے اگلے قدم پر آئے لیکن گیند ٹپّا پڑ کر بجائے اندر آنے کے سیدھی ہو گئی اور ان کی آف اسٹمپ کو چومتی ہوئی پاکستان کو ایک اہم وکٹ دلا گئی۔

اگلی گیند پر انگلش آل راؤنڈر کرس لوئس میدان میں آئے، جن میں صلاحیت تھی کہ وہ فیئر برادر کا کافی دیر تک ساتھ دے سکتے تھے۔ لیکن اُس روز وسیم اکرم کا سامنا کرنا 'جوئے شیر لانے' کے مترادف تھا جنہوں نے ایک ناقابل یقین گیند پر کرس لوئس کو بولڈ کر کے انگلش تابوت میں کیل ٹھونک دی۔ یہ گیند ٹپّا پڑنے کے بعد حیران کن طور پر بہت زیادہ اندر داخل ہوئی اور لوئس تمام تر کوشش کے باوجود اسے روکنے میں ناکام رہے اور گیند ان کے بلے اور پیڈ کے درمیان سے ہوتی ہوئی ایک مرتبہ پھر آف اسٹمپ کو اڑا گئی۔

ان دونوں گیندوں کو بلاشبہ ’عالمی کپ کی تاریخ کی بہترین و فیصلہ کن گیندیں‘ شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ انہی دونوں گیندوں نے عالمی کپ 92ء کے چیمپئن کا فیصلہ کیا۔ بہرحال، اس صورتحال سے نکل پانا انگلش بلے بازوں کے بس کی بات نہ تھی، کیونکہ درکار رن اوسط مستقل بڑھ رہا تھا اور باقاعدہ بلے بازوں کی عدم موجودگی کے باعث اسے حاصل کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کہ آخری اوور آ گیا، جس میں عمران خان کی دوسری گیند پر رے النگورتھ کا ایک اٹھتا ہواشاٹ پاکستان کی عالمی چیمپئن بننے کا اعلان ثابت ہوا اور عمران کا کیریئر ایسے یادگار انداز میں ختم ہوا جو دنیا کے ہر کپتان کی دلی خواہش ہے یعنی عالمی کپ جیتنا۔

وسیم اکرم کو 3 وکٹیں حاصل کرنے اور آخری لمحات میں 33 قیمتی رنز بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

پاکستان بمقابلہ انگلستان

عالمی کپ 1992ء فائنل

25 مارچ 1992ء

بمقام: ملبورن کرکٹ گراؤنڈ، ملبورن، آسٹریلیا

نتیجہ: پاکستان 22 رنز سے فتح یاب

میچ کے بہترین کھلاڑی: وسیم اکرم

سیریز کے بہترین کھلاڑی: مارٹن کرو

پاکستان رنز گیندیں چوکے چھکے
عامر سہیل ک اسٹیورٹ ب پرنگل 4 19 0 0
رمیز راجہ ایل بی ڈبلیو ب پرنگل 8 26 1 0
عمران خان ک النگورتھ ب بوتھم 72 110 5 1
جاوید میانداد ک بوتھم ب النگورتھ 58 98 4 0
انضمام الحق ب پرنگل 42 35 4 0
وسیم اکرم رن آؤٹ 33 18 4 0
سلیم ملک ناٹ آؤٹ 0 1 0 0
فاضل رنز ل ب 19، و 6، ن ب 7 32
مجموعہ 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 249

 

انگلستان (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
ڈیرک پرنگل 10 2 22 3
کرس لوئس 10 2 52 0
این بوتھم 7 0 42 1
فل ڈیفریٹس 10 1 42 0
رے النگورتھ 10 0 50 1
ڈرمٹ ریو 3 0 22 0

 

انگلستانہدف: 313 رنز رنز گیندیں چوکے چھکے
گراہم گوچ ک عاقب ب مشتاق 29 66 1 0
این بوتھم ک معین ب وسیم 0 6 0 0
ایلک اسٹیورٹ ک معین ب عاقب 7 16 1 0
گریم ہک ایل بی ڈبلیو ب مشتاق 17 36 1 0
نیل فیئربرادر ک معین ب عاقب 62 70 3 0
ایلن لیمب ب وسیم 31 41 2 0
کرس لوئس ب وسیم 0 1 0 0
ڈرمٹ ریو ک رمیز ب مشتاق 15 32 0 0
ڈیرک پرنگل ناٹ آؤٹ 18 16 1 0
فل ڈیفریٹس رن آؤٹ 10 8 0 0
رے النگورتھ ک رمیز ب عمران 14 10 2 0
فاضل رنز ل ب 5، و 13، ن ب 6 24
مجموعہ 49.2 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 227

 

پاکستان (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
وسیم اکرم 10 0 49 3
عاقب جاوید 10 2 27 2
مشتاق احمد 10 1 41 3
اعجاز احمد 3 0 13 0
عمران خان 6.2 0 43 1
عامر سہیل 10 0 49 0