آئی پی ایل: کرکٹ یا تماشہ - پہلی قسط

5 1,063

’شرفاء کا کھیل‘ کرکٹ اس کرۂ ارض پر 100 سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے۔ ویسے تو برازیل کے مایہ ناز فٹبالر پیلے نے فٹ بال کو ایک خوبصورت کھیل کا نام دیا تھا لیکن جو کرکٹ کو واقعی سمجھتا ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو آپ کو ہر ہر لمحے محظوظ کرے گا۔ایک بلے باز کا میدان میں بلا گھماتے ہوئے داخل ہونا، پھر گارڈ لینے اور کھیلنے کے لیے تیار کھڑے ہونے کا اپنا انوکھا انداز، جو بلے بازی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اس پورے عمل کا ایک ایک لمحہ لذت آمیز ہے۔ اس کے بعد جب کھیل کا آغاز ہوتا ہے اور بلے باز اپنی تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، چاہے دفاعی انداز میں کلائی کا استعمال ہو یا جارحانہ انداز سے بلا گھمانا، ہر انداز ایک ناقابل بیان لذت کا احساس دیتا ہے۔دوسری طرف گیند بازی اپنے اندر ایک الگ قسم کی خوبصورتی سموئے ہوئے ہے۔ تیز گیند باز ہو، یا بلے باز کو اپنی انگلیوں کے ذریعے نچانے والا اسپن گیندباز، گیند لے کر ان کا دوڑنے اور گیند پھینکنے کا مرحلہ تو ہیجان خیز ہے ہی لیکن ٹپہ پڑنے کے بعد گیند کس طرح بلے باز کو دھوکا دیتی ہے، یہ سب بھی شائقین کرکٹ کے لیے لذت بے شمار ساماں لیے ہوئے ہیں۔

پاکستانی کھلاڑی اب تک صرف آئی پی ایل کا پہلا سیزن کھیل پائے ہیں
پاکستانی کھلاڑی اب تک صرف آئی پی ایل کا پہلا سیزن کھیل پائے ہیں

ان تمام تر رعنائیوں کے کے باوجود کرکٹ ایک عام کھیل نہیں ہے، بلکہ صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ایک خاص کھیل ہی ہے،اور اب تک صرف 10 ممالک تک ہی محدود ہے، جہاں کرکٹ قابل ذکر حد تک کھیلی جاتی ہے۔ اس محدودیت کی اور بھی کئی وجوہات ہوں گی لیکن سب سےاہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس کا حقیقی لطف اٹھانے کے لیے لازم ہے کہ آپ تکنیکی طور پر کھیل کی باریکیوں کو سمجھتے ہوں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ نےکبھی نہ کبھی خود کرکٹ کھیلی ہو۔ یہاں میرا کرکٹ کھیلنے سے مطلب ہے پیشہ ورانہ کرکٹ یا ایسی کرکٹ جس میں آپ ایک ٹیم کا حصہ ہوں اور وہ ہار جیت کو سنجیدگی سے لے اور کھیل اس کے لیے اہم ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کرکٹ کی باریکیوں اور تکنیکی پہلوؤں کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے، اور ایسے شائقین کرکٹ کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے رنگوں اور سنسنی خیزی کا بھرپور لطف نہیں اٹھا پاتے اور یوں کوفت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

غالباً محدودیت کے اسی جمود کو توڑنے کے لیے انگلستان نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا آغاز کیا، جو کرکٹ کو ہر عام وخاص کا کھیل بنانے کی کوششوں میں ایک انتہائی اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ گو کہ 16 اور 20 اوورز فی اننگز کی کرکٹ پاکستان میں عرصہ دراز سے کھیلی جاتی ہے تاہم اسے قومی سطح تک لانے کا اعزاز انگلستان کے پاس ہی ہے جس نے کاؤنٹی سیزن میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ متعارف کروائی۔ بہرحال ٹی ٹوئنٹی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرگیا، شائقین کرکٹ نے محدود ترین طرز کی اس کرکٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہاں تک کہ کرکٹ کے روایت پسند حلقوں کی جانب ٹی ٹوئنٹی کے باعث کرکٹ پر پڑنے والے مضر اثرات سے خبردار بھی کیا گیا کیونکہ ان کے خیال میں اس سے ٹیسٹ کرکٹ کے معیار میں گراوٹ آنے کا خطرہ تھا۔ اس بات کے حق میں موجود دلائل سے اتفاق لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں اس کے نتیجے میں جو تیزی پیدا ہوئی وہ ٹیسٹ مقابلوں کے نتیجہ خیز کی شرح میں اضافے کی صورت میں نظر آنے لگی۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث پہلی بار ایسا محسوس ہونے لگا کہ کرکٹ کے شائقین کا دائرہ اب محض ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کو عالمی سطح تک لے جانے میں یہ کرکٹ اہم کردار ادا کرے گی۔

ٹیسٹ کرکٹ شاید دنیا کا واحد کھیل ہوگا جس میں اس قدر طوالت کے باوجود نتیجہ خیز ہونا یقینی نہیں ہے، جبکہ ایک روزہ کرکٹ بھی پورے دن پر محیط ہوتی۔ جبکہ ٹی ٹوئنٹی نے تو دورانیے کا مسئلہ ہی ختم کر دیا اور ہر عام و خاص کرکٹ کی تکنیکی باریکیوں کو سمجھے بغیر محض تین گھنٹوں میں چوکوں اور چھکوں کی بارش سے محظوظ ہوسکتا تھا۔ٹی ٹوئنٹی کی انہی خوبیوں کی وجہ سے کرکٹ دیکھنے والوں میں زبردست اضافہ ہوا اور اس کی بدولت کرکٹ کی مارکیٹنگ ویلیو بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔

اس صورتحال میں بھارت، جو ایک ارب سے زائد آبادی رکھنے والا ایسا ملک ہے جہاں کرکٹ کو مذہب کی طرح پوجا جاتا ہے، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لیے ایک بہت بڑی منڈی بن کرابھرا۔ بھارت میں بھی پاکستان کی طرح پہلے سے ہی چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ برسوں سے کھیلا جارہا تھا۔ جب بورڈ آف کرکٹ کنٹرول اِن انڈیا (بی سی سی آئی) اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی چھتری تلے بھارت میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ وارد ہوئی تو بھارتی شائقین کرکٹ نے راہ میں پلکیں بچھا دیں اور اس کی مقبولیت کی آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء کے فائنل میں روایتی حریف پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی فتح نے سرزمینِ ہند پر اس کھیل کی مقبولیت میں سونے پر سہاگہ کا کام کر ڈالا۔

بھارتی بورڈ نے آئی سی سی کی آشیرباد سے اس مقبولیت کو کیش کرانے کا منصوبہ بنایا اور اس طرح بھرپور چکاچوند میں انڈین پریمیئر لیگ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔مجھے جب اس منصوبے، خاص کراس کی تفصیلات کا علم ہوا تو بے حد خوشی ہوئی کہ بالآخرکرکٹ بھی اب بہت جلد فٹ بال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بین الاقوامی شہرت حاصل کرے گا۔

پاکستان مایہ ناز کرکٹ لیجنڈ عمران خان ہمیشہ یہ بات کرتے ہیں کہ اگر کرکٹ کو ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک سے باہر پھیلانا ہے تو ہر ملک کو اپنے علاقائی کرکٹ کے ڈھانچے میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔ عمران خان جس تبدیلی کا ذکرکررہے تھے وہ ڈھانچہ انگلستان میں بہت پہلے سے موجود ہیں یعنی ہر قصبے، شہر کی اپنی ٹیم۔ نام کی حد تک نہیں بلکہ اس ٹیم کو علاقے کے لوگ واقعی اپنی ٹیم سمجھیں اور اسی جذبے کے تحت اپنی ٹیم کے ساتھ لگاؤ رکھیں جیسے کوئی اپنے علاقے سے رکھتا ہے۔ جس وقت یہ جذبہ اور محبت علاقے کے لوگوں کا اپنے ٹیم کے لیے جاگا تب وہ ٹکٹ خرید کر میچ دیکھنے آئیں گے، اپنی ٹیم کی کے نام والے کپڑے، کھیل کا سامان اور دیگر مصنوعات وغیرہ خریدیں گے۔ اس علاقے میں ٹیم کا نام ایک برانڈ ہوگا جس کی ایک قیمت ہوگی، اور علاقے اورملک کی کمپنیاں پیسے دے کر کرکٹ شائقین تک اپنی مصنوعات اس برانڈ کے ذریعے پہنچائیں گی۔ یہ برانڈ نہ صرف علاقے میں کرکٹ کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرے گا، بلکہ ساتھ ساتھ علاقے کے معاشرتی و سماجی مسائل کو حل کرنے میں بھی اس کا ایک تعمیری کردار ہوگا۔

بھارت میں آئی پی ایل کا منصوبہ، جن بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا۔ لیکن نجانے کیا ہوا کہ یکدم وہ تماشہ کرکٹ بن گئی۔ ایسا تماشہ جس سے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے وابستہ ہے۔ ناچنے گانے والوں کا تماشے کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے پیسہ اور صرف پیسہ کمانا۔ تماشہ کرنے والے ہر سال میلے لگاتے ہیں، لوگ آتے ہیں ناچ گانے اور دلچسپ تماشے دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ بوریا بستر لپیٹ کر دوسرے شہروں کو کوچ کرجاتے ہیں۔ اس پورے چکر میں تماشہ کرنے والوں کا تماش بینوں سے کسی بھی قسم کا رشتہ قائم نہیں ہوتا۔ بلکہ جو تماشہ کرنے والوں سے رشتہ بنانے کی کوشش کرتا ہے بہت مار کھاتا ہے۔ انہیں نہ اس علاقے کے لوگوں سے کوئی سروکار ہوتا ہے اور نہ تماش بینوں کا تماشہ کرنے والوں کی پرواہ ہوتی ہے۔ ایک پیسے کے لیے فن بیچ رہا ہے دوسرا پیسے دے کر فن خریدرہا ہے۔ یعنی سارا عمل دخل پیسے کا ہے۔

لیکن تماشے اور کرکٹ کھیل میں فرق ہے، اوریہ فرق انتہائی اہم ہے۔ اگر آئی سی سی اور بی سی سی آئی نے اس فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اور اس آئی پی ایل کی تماشہ حیثیت کو بند نہیں کیا تو بھارت میں کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(جاری ہے)