اوول میں "یوم آزادی"، پاکستان نے سیریز برابر کردی

یونس خان کی ریکارڈ ڈبل سنچری، آخری چار وکٹوں پر 222 رنز کے حیران کن اضافے اور آخر میں یاسر شاہ کے 'جادو' کی بدولت پاکستان نے اوول کا میدان مار لیا اور سیریز کا خاتمہ برابر پر کیا ہے۔ پہلے ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد انگلستان کی مسلسل دو فتوحات نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن اوول میں پاکستان نے 10 وکٹوں کی فتح حاصل کرکے قوم کو "یوم آزادی" کا بہترین تحفہ عطا کیا ہے۔
پاکستان کا دورۂ انگلینڈ 2016ء - چوتھا ٹیسٹ
11 سے 14 اگست 2022ء
اوول، لندن، برطانیہ
پاکستان 10 وکٹوں سے میچ جیت گیا
![]() | 328 | ||||
معین علی | 108 | 152 | سہیل خان | 5-68 | 204 |
کرس ووکس | 45 | 57 | وہاب ریاض | 3-20 | 20 |
![]() | 542 | ||||
یونس خان | 218 | 308 | کرس ووکس | 3-82 | 30 |
اسد شفیق | 109 | 179 | اسٹیون فِن | 3-110 | 30 |
![]() | 253 | ||||
جونی بیئرسٹو | 81 | 127 | یاسر شاہ | 5-71 | 29 |
جو روٹ | 39 | 46 | وہاب ریاض | 2-48 | 11.2 |
![]() | 42-0 | ||||
اظہر علی | 30* | 28 | جو روٹ | 0-1 | 3 |
سمیع اسلم | 12* | 51 | کرس ووکس | 0-11 | 4 |
پاکستان کی اس تاریخی فتح کے اصل معمار یونس خان تھے کہ جنہوں نے سیریز کے ابتدائی تینوں مقابلوں کا قرضہ آخری ٹیسٹ میں ڈبل سنچری کے ذریعے اتارا۔ تیسرے روز پاکستان کو صرف 12 رنز کی برتری حاصل تھی، جس کے بعد یونس خان کی 31 چوکوں اور 4 چھکوں سے سجی ڈبل سنچری اننگز اور ساتھ ہی سرفراز احمد، وہاب ریاض اور محمد عامر کے بہترین ساتھ کی وجہ سے یہ 214 رنز تک پہنچی۔ نویں وکٹ پر محمد عامر کے ساتھ یونس خان نے 97 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ اس دوران یونس نے اپنی ریکارڈ چھٹی ڈبل سنچری بنائی اور یوں سب سے زیادہ ڈبل سنچریوں کا قومی ریکارڈ برابر کیا۔
اپنے آخری دورۂ انگلستان پر موجود 38 سالہ یونس خان کی 218 رنز کی اننگز پاکستان کو 542 رنز تک لے آئی۔ انگلستان کو پہلی اننگز میں 214 رنز کے خسارے کا سامنا تھا۔ انگلستان کی ابتدائی چار وکٹیں تیسرے روز ہی گرگئیں جبکہ مجموعہ صرف 88 رنز تک پہنچ سکا۔ یاسر شاہ نے ابتدائی تین وکٹیں ٹھکانے لگا کر انگلستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ چوتھے روز جانی بیئرسٹو کی مزاحمت بہت دیر تک جاری رہی یہاں تک کہ دوسرے کنارے پر کھلاڑی ان کا ساتھ چھوڑتے رہے۔
پاکستان نے چوتھے دن کے پہلے سیشن میں گیری بیلنس اور معین علی کی قیمتی وکٹیں حاصل کیں۔ معین علی پہلی اننگز کی طرح اس بار بھی بیئرسٹو کے ساتھ مل کر میچ کو خاصا نکال لائے تھے۔ دونوں کے چھٹی وکٹ پر 65 رنز نے پاکستانی باؤلرز اور فیلڈرز کے ہاتھ پیر پھلا دیے تھے کہ کھانے کے وقفے سے چند لمحے قبل یاسر شاہ کی ایک خوبصورت گیند نے معین کو آؤٹ کرکے پاکستان کو سکون کا سانس فراہم کیا۔
کھانے کے وقفے کے بعد پاکستان نے انگلستان کو صرف 60 رنز ہی کا اافہ کرنے دیا پوری ٹیم 253 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ یعنی بیئرسٹو کی 81 رنز کی اننگز انگلستان کو صرف اس مقام تک ہی پہنچا سکی کہ وہ اننگز کی ہزیمت سے بچ جائے۔ بیئرسٹو وہاب ریاض کی گیند پر اظہر علی کے ایک شاندار کیچ کا شکار بنے جبکہ ایک گیند پہلے ہی وہاب ریاض نے اپنی ہی گیند پر بہترین فیلڈنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرس ووکس کو رن آؤٹ کیا تھا۔ یکایک یہ دو وکٹیں گرنے کے باوجود انگلستان کی آخری تین وکٹوں سے اسکور میں 44 رنز کا اضافہ کیا لیکن پاکستان کو 40 رنز کا ہدف دے سکیں۔

پاکستان کی جانب سے یاسر شاہ نے 51 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں وہاب ریاض اور ایک، ایک سہیل خان اور افتخار احمد کو ملیں۔ پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے افتخار نے اپنی پہلی وکٹ جیمز اینڈرسن کی صورت میں حاصل کی جو انگلستان کے آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی تھے۔
پاکستان کے اوپنرز سمیع اسلم اور اظہر علی نے چودہویں اوور کی پہلی ہی گیند پر ہدف کو جا لیا جب اظہر علی نے ایک شاندار چھکا لگا کر میچ کا فیصلہ کردیا۔
کامیابی کے بعد پاکستانی ٹیم نے قومی پرچم کے ساتھ میدان کا چکر لگایا اور تماشائیوں کی داد وصول کی۔
آخر میں یونس خان کو میچ کے بہترین کا کھلاڑی اعزاز دیا گیا جبکہ سیریز کے بہترین کھلاڑی کے ایوارڈز پاکستان کے لیے مصباح الحق اور انگلستان کے لیے کرس ووکس کو دیا گیا۔
اوول میں تاریخی فتح کے باوجود پاکستان ٹیسٹ درجہ بندی میں اب تک نمبر ایک نہیں بن سکا، جس کی سادہ سی وجہ ایجبسٹن ٹیسٹ میں شکست تھی۔ اگر پاکستان اس تیسرے ٹیسٹ میں تھوڑی سی مزاحمت کر لیتا تو وہ مقابلہ ڈرا ہو سکتا تھا لیکن ایسا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے وہ اوول میں تاریخی کامیابی کے باوجود سیریز اور نمبر ون پوزیشن حاصل نہیں کر سکا۔ بہرحال، اب بھی ایسا ممکن ہے اگر آسٹریلیا سری لنکا کے خلاف جاری تیسرا ٹیسٹ نہ جیت پائے اور ویسٹ انڈیز اور بھارت کے درمیان چوتھا و آخری ٹیسٹ بھی بھارت کی کامیابی کے ساتھ مکمل نہ ہو۔
