سنسنی خیز معرکہ آرائی؛ بھارت اور انگلستان کا مقابلہ ٹائی

مقابلہ تھا عالمی کپ کے گروپ بی کی دو ٹیموں بھارت اور انگلستان کے درمیان جو پہلے شاٹ سے آخری گیند تک جوش، جذبے، ولولے اور سنسنی سے بھرپور رہا۔ میچ سے قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دنیائے کرکٹ کی ان دو مستند ٹیموں کے درمیان مقابلے میں اتنا بڑا اسکور بننے کے باوجود میچ بے نتیجہ رہ جائے گا۔ ماسٹر بلاسٹر سچن ٹنڈولکر کی سنچری کی بدولت بنائے گئے پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں کھلاڑیوں کی انجریز سے پریشان انگلستان کا اینڈریو اسٹراس کی شاندار اننگ پر مبنی کرارے جواب نے اس میچ کو عالمی کپ کے سنسنی خیز اور ناقابل فراموش تاریخی مقابلوں میں سے ایک بنادیا ہے۔
اسٹراس اور بیل کی جوڑی نے 156 گیندوں پر 170 رنز کی شراکت قائم کرتے ہوئے مجموعی اسکور کو 281 تک پہنچایا۔ اس دوران ایک جانب اسٹراس نے ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں 4000 رنز کا سنگ میل عبور کرتے ہوئے شاندار سنچری اسکور کی دوسری طرف بیل نے بھی نصف سنچری مکمل کی۔ 42 ویں اوور کے اختتام پر اسٹراس کے فرمان پر امپائر نے ہاتھ سے دائرہ بناتے ہوئے بیٹنگ پاور پلے کا اعلان کیا تو بھارتی کپتان نے گیند ظہیر خان کے ہاتھوں میں تھمائی۔ ظہیر خان کپتان کے بھروسے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے دونوں سیٹ بلے باز بیل (59) اور پھر اسٹراس (158) کو پویلین کی راہ دکھا کر بھارت کو ایک بار پھر کھیل میں واپس لے آئے۔ اپنے اگلے ہی اوور میں ظہیر خان نے پال کالنگووڈ (1) کو بولڈ کر کے بھارتی شائقین میں روح پھونک دی۔ بعد میں آنے والے انگلستانی بلے باز انتہائی کٹھن وقت میدان میں اترے تو ان کے حریفوں میں اسٹیڈیم میں موجود بھارتی تماشائی بھی شامل ہو چکے تھے جو زور دار نعروں اور باجوں سے اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ 46 ویں اوور میں میٹ پرائیر (4) ہربھجن کی گیند پر آؤٹ ہوئے تو انگلستان کو 29 گیندوں پر 52 رنز درکار تھے۔ پاور پلے ختم ہونے کے فوری بعد پٹیل نے مائیکل یارڈی (13) کو رخصت کر کے بھارتی فتح کی امیدوں کو جلا بخشی جسے اگلے ہی اوور میں گریم سوان اور ٹم برسنین نے دو چھکے رسید کر کے پھر بجھا دیا۔ چاؤلہ کی آخری گیند پر بریسنن (14) پویلین رخصت ہوئے تو انگلستان کو 6 گیندوں پر 14 رنز درکار تھے۔ آخری اوور کی پہلی دو گیندوں پر گریم سوان نے تین رنز بنائے اور اسٹرائک نو آموز اجمل شہزاد کو تھما دی جنہوں نے اگلی گیند پر کسی بھی فیلڈر کو ہلنے کا موقع دیئے بغیر گیند کو سیدھا باؤنڈری کے باہر پہنچا دیا۔ اس چھکے نے بھارتی کھلاڑیوں کے اوسان خطا کر دیے۔ دونوں انگلستانی کھلاڑیوں بلے بازی میں عدم مہارت کے باعث باہر جاتی باقی گیندوں کو اچھے انداز میں نہ کھیل سکے تاہم ان پر چار رنز بنا کر مجموعی اسکور کو بھارتی اسکور کے برابر کردیا۔
236 کے مجموعی اسکور پر 3 کھلاڑی کھو دینے کے بعد کپتان مہندر دھونی نے خود میدان میں آنے کا فیصلہ کیا اور دھواں دھار چوکے رسید کرنے والے یوراج کے ہمراہ اسکور میں 69 رنز جوڑے۔ بھارتی اننگ کے 46 ویں اوور کی آخری گیند پر یوراج سنگ (58) پویلین لوٹے تو اسکور 305 تک پہنچ چکا تھا۔ اگلے اوور کی پہلی گیند پر دھونی (31) بھی ساتھی کھلاڑی کے پیچھے ہی پویلین لوٹ گئے۔ یکے بعد دیگرے دو مستند بلے بازوں کی رخصتی کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے جارحانہ انداز سے کھیلنے کا انتخاب کیا۔ یوسف پٹھان (14) اور ورات کوہلی (8) دو اوورز میں 22 رنز بٹورنے کے بعد بریسنن کا شکار ہوئے جس کے بعد ہربھجن (0) نے بھی برسنین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ آخری اوور میں پیوش چاؤلہ (2) اور ظہیر خان (4) کے آؤٹ ہونے پر 338 کے پہاڑ جیسے اسکور پر بھارتی اننگ کا خاتمہ ہوا۔
میچ کے اختتام پر انگلستانی بلے باز اینڈریو اسٹراس کو 145 گیندوں پر 1 چھکے اور 18 چوکوں سے مزین 158 رنز کی اننگ سجانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ بھارت کی جانب سے ظہیر خان نے ابتدائی 7 اوورز میں بغیر کوئی وکٹ حاصل کیے 51 رنز دینے کے باوجود آخری 3 اوورز میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے 13 دے کر 3 اہم کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا اور میچ کا پانسہ بڑی حد تک بھارت کے حق میں پلٹ دیا۔ انگلستان کی جانب سے ٹم بریسنن نے بہتر گیند بازی کی اور 10 اوورز کے کوٹے میں 48 رنز کے عوض پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ اسٹیورٹ براڈ کی عدم دستیابی کے باعث شامل ہونے والے اجمل شہزاد دیگر گیند بازوں کی طرح بہت مہنگے ثابت ہوئے۔
بنگالورو میں بھارت اور انگلستان کے مابین ٹائی ہونے والا یہ میچ عالمی کپ کی تاریخ میں بے نتیجہ ختم ہونے والا چوتھا مقابلہ ہے۔ اس سے قبل 1999ء کے عالمی کپ میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کا سیمی فائنل، 2003ء کے عالمی کپ میں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے درمیان ہونے والے مقابلے کے علاوہ عالمی کپ 2007ء میں آئرلینڈ اور زمبابوے کے درمیان ہونے والا میچ بھی بے نتیجہ ختم ہوا۔ ان تمام مقابلوں سب سے بڑا اسکور بھارت اور انگلستان کے میچ میں بنا۔
اس ٹائی میچ کے نتیجے میں ملنے والے ایک ایک پوائنٹ کے ساتھ گروپ بی میں بھارت اور انگلستان دونوں ٹیمیں گروپ میں سبقت حاصل کر چکی ہیں تاہم بھارت رن ریٹ کے اعتبار سے سر فہرست ہے۔ دونوں ٹیموں کی کارکردگی کا گزشتہ مقابلوں موازنہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ایک جانب بھارت نے بنگلہ دیش کے خلاف کمزور نظر آنے والی بالنگ کو بہتر بنانے کے لیے کوئی محنت نہیں کی تو دوسری جانب نیدرلینڈز کے سامنے لڑکھڑا جانے والی انگلستانی بلے بازی میں بھی وہی کمزوریاں ایک بار پھر نظر آئیں۔
عالمی کپ کے دسویں میچ میں پاکستان کے ہاتھوں سری لنکا کی شکست اور اب گیارہویں میچ کا بھارت اور انگلستان کے درمیان سخت مقابلے کے بعد ٹائی ہونے سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی ہے کہ اس عالمی کپ میں فتح کے دروازے تمام ٹیموں کے لیے اب بھی چوپٹ کھلے ہیں۔ جو بھی ٹیم مجموعی طور پر اچھا کھیل پیش کرے گی وہ فیورٹ اور بڑی ٹیموں کو شکست دے سکتی ہے۔ انگلستان کی ٹیم اپنا اگلا میچ 2 مارچ کو آئرلینڈ کے خلاف جبکہ بھارتی ٹیم بھی 6 مارچ کو آئرلینڈ ہی کے خلاف میدان میں اترے گی۔