اسپاٹ فکسنگ مقدمہ: سلمان اور آصف مجرم قرار، عامر کا اقبالی بیان بھی ظاہر

پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف اسپاٹ فکسنگ کا مقدمہ سننے والی برطانوی عدالت نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے دو سابق کھلاڑیوں سلمان بٹ اور محمد آصف کو دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے مقدمے میں مجرم قرار دے دیا ہے۔ جبکہ دونوں کھلاڑیوں کے خلاف سزاؤں کا فیصلہ کل (بدھ کو) یا پرسوں (جمعرات کو) کیا جائے گا۔
لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ کی جیوری کے 12 اراکین نے شواہد پر تقریباً 17 گھنٹے کے غور و خوض کے بعد سلمان بٹ کو پہلے الزام یعنی دھوکہ دہی پر بالاتفاق رائے قصور وار ٹھیرایا جبکہ دوسرے الزام یعنی بدعنوانی کے ذریعے رقوم حاصل اور وصول کرنے کے الزام پر انہیں کثرت رائے (2 کے مقابلے میں 10) کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔ محمد آصف پر رقوم حاصل کرنے کے الزام پر جیوری کے اراکین پہلے متفق نہیں ہو سکے تھے اور اس لیے عدالت نے انہیں مزید غور کے لیے وقت دیا گیا جس کے بعد وہ اس حتمی فیصلے تک پہنچے کہ محمد آصف نے بھی بدعنوانی کے ذریعے رقم حاصل کی البتہ سابق تیز گیند باز کو پہلے صرف دھوکہ دہی کا قصور وار ٹھیرایا گیا تھا۔

دونوں کھلاڑیوں پر گزشتہ سال اگست میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران جان بوجھ کر نو بالز پھینکنے اور اس کے بدلے میں مبینہ سٹے باز مظہر مجید سے بھاری رقوم وصول کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس کی سماعت گزشتہ ماہ شروع ہوئی اور 20 ویں روز اس کا فیصلہ کر دیا گیا۔
ان دونوں کے علاوہ تیسرے کھلاڑی نوجوان تیز گیند باز محمد عامر، جو مقدمے کی باضابطہ سماعت کے آغاز سے قبل ہی اپنے جرم کا اعتراف کر چکے تھے، کو بھی انہی دونوں جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اب وہ اپنی سزا کے مقدار کے تعین کے لیے عدالت میں پیش ہوں گے۔ سلمان بٹ اور محمد آصف کی سزاؤں کا تعین بدھ یا جمعرات کے روز عدالت کے جسٹس کک کریں گے جب تک ان کھلاڑیوں کو لندن نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مذکورہ بالا تینوں کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کم از کم 5، 5 سال کی پابندی بھگت رہے ہیں۔ برطانوی قانون کے تحت سلمان بٹ اور محمد آصف کو بدعنوانی کی رقوم وصول کرنے کے الزام میں زیادہ سے زیادہ 7 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ دھوکہ دہی کے مقدمے پر زیادہ سے زیادہ سزا 2 سال قید ہوسکتی ہے۔
تینوں کھلاڑیوں کے اس قضیے میں ملوث ہونے کا معاملہ گزشتہ سال ماہ اگست میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے دوران انگلستان کا ایک اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' سامنے لے کر آیا تھا، جس نے ایک صحافی مظہر محمود کے ذریعے ایک خفیہ آپریشن کرتے ہوئے سٹے باز مظہر مجید کے ذریعے پاکستانی کھلاڑیوں سے معاملات طے کیے اور بعد ازاں اس کی تصاویر اخبار میں شایع کر دیں اور انٹرنیٹ پر وڈیوز بھی جاری کر دیں۔
کھلاڑیوں کے خلاف یہ فیصلہ 4 اکتوبر کو مقدمے کی سماعت کے آغاز کے بعد تقریباً 4 ہفتوں میں سامنے آیا ہے۔ جب فیصلے کا اعلان کیا گیا تو سلمان بٹ اور محمد آصف جذبات سے عاری اور سپاٹ چہروں کے ساتھ فیصلہ سنتے رہے۔ انہوں نے اس موقع پر نہ کوئی منہ سے لفظ ادا کیا اور نہ ہی کسی اور طرح جذبات کا اظہار کیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ فیصلے سے ایک گھنٹہ قبل سلمان بٹ کی اہلیہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ یہ سلمان بٹ کے دوسرے صاحبزادے ہیں۔

مقدمے کے فیصلے کے بعد حکومت برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس کے میٹ ہارن نے عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کھلاڑیوں نے کرکٹ کی عزت پر داغ لگایا اور ان تمام لوگوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے جو ان کے مقابلے دیکھنے میدانوں کا رخ کرتے تھے اور ان بچوں کا بھی جو انہیں اپنا ہیرو سمجھتے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر تفتیشی صحافت کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنی نظریں اس امر پر مرکوز رکھنی چاہئیں کہ کھیل اپنی اصل روح کے مطابق کھیلا جائے۔
دوسری جانب فیصلہ آنے کے بعد اب محمد عامر کے سماعت سے قبل پیش کردہ تحریری بیان پر عائد پابندی بھی ختم ہو گئی ہے جس میں عامر نے کہا تھا کہ انہیں گزشتہ سال لارڈز ٹیسٹ کے دوران نو بال کرنے کے لیے زبردست دباؤ کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ یہ تک کہا گیا کہ اگر ایسا نہ کیا تو ٹیم میں سے نکال دیا جائے گا۔
عامر نے 16 ستمبر کو اپنے وکیل کے ذریعے قبل از سماعت اقبالی بیان ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں پیش کیا تھا۔ عامر کے وکیل بین ایمرسن نے کہا تھا کہ میرے مؤکل عامر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کو دو نو بالز پھینکنے کے اپنے اقدامات کی مکمل ذمہ داری لینا چآہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 18 سالہ یہ نوجوان زبردست دباؤ کا شکار تھا۔ وہ پاکستان کرکٹ کو پہنچنے والے نقصانات کو سمجھتے ہیں اور خواہشمند ہیں کہ وہ اس کو بہتر بنانے کے لیے اپنی بساط کے مطابق کچھ کریں گے۔
استغاثہ کے پیش کردہ شواہد انہیں معصوم کے بجائے اس سازش کا اہم شریک قرار دے رہے ہیں جس کے مطابق انہوں نے مبینہ سٹے باز مظہر مجید، ان کے بھائی اظہر مجید اور پاکستان کے ایک نامعلوم نمبر پر مختلف موبائل پیغامات بھیجے تھے۔ جنہیں بعد ازاں پولیس نے بازیافت کرایا۔
عامر کے اقبالی بیان کے مطابق انہوں نے صرف ایک مرتبہ اس طرح کی حرکت کی اور اس سے پہلے کبھی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث نہیں رہے۔ موبائل شواہد کے مطابق انہوں نے معاملہ طشت از بام ہونے کے بعد اظہر مجید کے نمبر سے پاکستان میں ایک نمبر پر یہ پیغام بھی بھیجا تھا کہ میرے بھیجے گئے تمام موبائل پیغامات حذف کر دو اور مجھے کال مت کرنا کیونکہ آئی سی سی پولیس نے میرا فون قبضے میں لے لیا ہے۔
اب عدالت کا اجلاس کل (بدھ کی) صبح ہوگا جس میں دونوں کھلاڑیوں کی سزا کا تعین کیا جائے گا۔