[ریکارڈز] بیئرسٹو اور اوورٹن کی کمال شراکت داری

ایک کے بعد دوسرا میچ اور پے در پے سیریز ہارنے کے بعد انگلینڈ کے لیے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز بہت اہمیت رکھتی تھی۔ حالات یہ تھے کہ جو روٹ کی کپتانی تک چلی گئی۔ اِن حالات میں نئے کپتان اور نئے کوچ کے ساتھ انگلینڈ میدان میں اترا اور پھر کمال کر دیا۔ سیریز کے ابتدائی دونوں ٹیسٹ میچز ناقابلِ یقین انداز میں جیتے اور کلین سویپ کے عزم کے ساتھ لِیڈز پہنچا۔
لیکن جب نیوزی لینڈ کے 329 رنز کے جواب میں خود بیٹنگ کرنے اترا تو حال سے بے حال ہو گیا۔ صرف 55 رنز پر چھ وکٹیں گر گئیں اور لگ رہا تھا کہ سیریز میں پہلی ناکامی ملی ہی ملی۔
یہاں ہمیں جونی بیئرسٹو کا جادو دوبارہ دیکھنے کو ملا۔ ٹرینٹ برج میں انگلینڈ کی جیت کے ہیرو بیئرسٹو نے اپنے کھیل کا سلسلہ بالکل وہیں سے جوڑا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ انہوں نے ساتویں وکٹ پر جیمی اوورٹن کے ساتھ 241 رنز کی ایسی شراکت داری کی، جو ہو سکتا ہے فاتحانہ ثابت ہو۔
بیئرسٹو نے اس دوران صرف 157 گیندوں پر 162 رنز کی شاندار اننگز کھیلی، وہ بھی 24 چوکوں کے ساتھ۔ البتہ اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے اوورٹن بد قسمتی سے سنچری نہ بنا پائے اور 97 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔
بہرحال، ان دونوں کھلاڑیوں نے تاریخ میں پہلی بار ساتویں وکٹ پر انگلینڈ کے لیے کوئی ڈبل سنچری پارٹنرشپ ضرور بنائی۔
اس سے پہلے ساتویں وکٹ پر انگلینڈ کے لیے سب سے بڑی شراکت داری کا ریکارڈ 197 رنز کا تھا، جو جم پارکس اور مائیک اسمتھ نے 1960ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اوول کے میدان پر بنایا تھا۔ یعنی یہ ریکارڈ پچھلے 62 سالوں سے قائم تھا اور اب کہیں جا کر ٹوٹا ہے۔
انگلینڈ کے لیے ساتویں وکٹ پر سب سے طویل شراکت داری
بلے باز | رنز | آغاز | اختتام | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ |
---|---|---|---|---|---|---|
![]() | 241 | 6-55 | 7-296 | ![]() | لیڈز | جون 2022ء |
![]() | 197 | 6-148 | 7-345 | ![]() | پورٹ آف اسپین | مارچ 1960ء |
![]() | 174 | 6-192 | 7-366 | ![]() | لارڈز | جون 1957ء |
![]() | 169 | 6-165 | 7-334 | ![]() | چیسٹر-لی-اسٹریٹ | جون 2007ء |
![]() | 167 | 6-361 | 7-528 | ![]() | فیصل آباد | مارچ 1984ء |
ساتویں وکٹ پر سب سے بڑی شراکت داری کے عالمی ریکارڈ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ویسٹ انڈیز کے ڈینس ایٹکنسن اور سائرل ڈیپیازا کا نام دکھائی دیتا ہے۔ 1955ء میں آسٹریلیا کے خلاف برج ٹاؤن ٹیسٹ میں ان دونوں بلے بازوں نے تب میدان سنبھالا جب 147 رنز پر 6 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے 347 رنز کی ایسی شراکت داری کی، جو آج بھی ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال یعنی 1955ء میں پاکستان کے امتیاز احمد اور وقار حسن نے بھی ساتویں وکٹ پر 300 پلس پارٹنرشپ کی۔ یہ نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور ٹیسٹ تھا جس میں انہوں نے 308 رنز کی شراکت داری کی۔
پوری کرکٹ تاریخ میں صرف دو مواقع ہی ایسے ہیں، جن میں بلے بازوں نے ساتویں وکٹ پر 300 سے زیادہ رنز جوڑ دیے ہوں۔
ساتویں وکٹ پر طویل ترین پارٹنرشپ کا عالمی ریکارڈ
بلے باز | رنز | آغاز | اختتام | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ |
---|---|---|---|---|---|---|
![]() | 347 | 6-147 | 7-494 | ![]() | جون 2022ء | |
![]() | 308 | 6-111 | 7-419 | ![]() | مارچ 1960ء | |
![]() | 295* | 6-120 | 6-415 | ![]() | جون 1957ء | |
![]() | 280 | 6-156 | 7-436 | ![]() | جون 2007ء | |
![]() | 261 | 6-316 | 7-577 | ![]() | مارچ 1984ء |
لیکن، ذرا ٹھیریے، جونی بیئرسٹو اور جیمی اوورٹن کو جو بات سب سے جدا کرتی ہے، وہ یہ کہ ساتویں، بلکہ آخری چاروں وکٹوں پر، کوئی پارٹنرشپ ایسی نہیں جس میں چھ وکٹیں 100 رنز سے پہلے ہی گر گئی ہوں۔
اگر 200 رنز سے زیادہ کی شراکت داریوں کو معیار بنایا جائے تو سب سے کم اسکور 102 رنز نظر آتا ہے، جس پر 7 وکٹیں گر گئیں تھیں لیکن پھر بھی ایک جوڑی 332 رنز کا اضافہ کر گئی۔ یہ پاکستان اور انگلینڈ کا بدنامِ زمانہ لارڈز ٹیسٹ تھا، وہی مقابلہ جس میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ بہرحال، اس میچ کی پہلی اننگز میں جوناتھن ٹراٹ نے اسٹورٹ براڈ کے ساتھ مل کر 332 رنز کی شراکت داری قائم کی اور انگلینڈ کو 102 رنز سے 434 رنز تک پہنچا دیا۔
جونی بیئرسٹو اور جیمی اوورٹن کی بدولت لیڈز میں انگلینڈ چھ وکٹیں گرنے کے باوجود آخری چار وکٹوں پر 305 رنز کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہا۔ یہ انگلینڈ کی تاریخ میں آخری چار وکٹوں کا تیسرا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ 1966ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اوول ٹیسٹ میں 377 اور پھر 2010ء میں پاکستان کے خلاف لارڈز میں آخری چار وکٹوں نے 344 رنز کا اضافہ کیا۔
آخری چار وکٹوں پر انگلینڈ کے لیے سب سے زیادہ رنز
رنز | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ | |
---|---|---|---|---|
![]() | 377 | ![]() | اوول | اگست 1966ء |
![]() | 344 | ![]() | لارڈز | اگست 2010ء |
![]() | 305 | ![]() | لیڈز | جون 2022ء |
![]() | 294 | ![]() | ناٹنگھم | جولائی 2014ء |
![]() | 267 | ![]() | لارڈز | جون 1982ء |
اگر آخری چار وکٹوں کے سب سے زيادہ رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ پاکستان کے پاس ہے۔ جی ہاں! وہی 1955ء کا لاہور ٹیسٹ، جس میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف آخری چار وکٹوں پر 450 رنز کا اضافہ کر ڈالا تھا۔ یہ ریکارڈ آج 67 سال گزر جانے کے باوجود قائم ہے بلکہ کوئی دوسرا ملک 400 رنز کا ہندسہ بھی پار نہیں کر سکا۔
آخری چار وکٹوں پر سب سے زیادہ رنز کا عالمی ریکارڈ
رنز | بمقابلہ | بمقام | بتاریخ | |
---|---|---|---|---|
![]() | 450 | ![]() | لاہور | اکتوبر 1955ء |
![]() | 377 | ![]() | اوول | اگست 1966ء |
![]() | 370 | ![]() | ایڈیلیڈ | جنوری 1925ء |
![]() | 370 | ![]() | شیخوپورہ | اکتوبر 1996ء |
![]() | 363 | ![]() | برج ٹاؤن | مئی 1955ء |