اُلٹی گنگا سلیکشن کی!

پاکستانی ٹیم تینوں میچز میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز مکمل کرچکی ہے اور اب اگلا امتحان کینگروز کیخلاف پانچ ون ڈے انٹرنیشنلز کی سیریز ہے جس میں گرین شرٹس کی قیادت اظہر علی کے ہاتھوں میں ہے۔ڈومیسٹک سیزن میں ڈیپارٹمنٹس کے ون ڈے ٹورنامنٹ میں احمد شہزاد نے پاکستان میں کھیلے گئے کسی بھی ون ڈے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ قائم کیا،اپنی کپتانی میں حبیب بینک کو ٹائٹل جتوایا۔تجربہ کار وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل ون ڈے میں اچھی کارکردگی دکھانے کیساتھ ساتھ قائد اعظم ٹرافی میں ہزار سے زائد رنز کرتا ہے لیکن سلیکشن کمیٹی ان دونوں کھلاڑیوں کو آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز کیلئے منتخب نہیں کرتی بلکہ آخری وقت میں محمد حفیظ کو اضافی کھلاڑی کے طور پر ون ڈے ٹیم کا حصہ بنالیا جاتا ہے اور اس کا ”ٹھوس جواز“ یہ دیا جاتا ہے کہ کپتان اظہر علی نے ”درخواست“ کی ہے کہ محمد حفیظ کو ون ڈے ٹیم میں شامل کیا جائے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ٹیم مینجمنٹ کی ضرورت کے برعکس محمد حفیظ کو ون ڈے ٹیم میں شامل کیا ہے!
انضمام الحق نے جب افغانستان کی کوچنگ چھوڑ کر پاکستان کرکٹ بورڈ میں چیف سلیکٹر کا عہدہ تین سال کی مدت کیلئے حاصل کیا تھا تو اُس وقت بھی یہ عرض کی تھی کہ 2007ء میں انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہنے والے سابق سپر اسٹار نے اپنے کیرئیر کے آخری برسوں میں زیادہ ڈومیسٹک کرکٹ نہیں کھیلی اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستانی کرکٹ کے قریب نہیں رہے۔ اس لیے انضمام الحق کو سلیکشن کمیٹی کی سربراہی دینا کچھ زیادہ دانشمندانہ فیصلہ نہیں لگ رہا تھا اگر انضمام الحق کو قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ یا نیشنل اکیڈمی کیلئے یہ کردار دیا جاتا تو پاکستان کرکٹ کیلئے زیادہ سود مند ثابت ہوتا مگر پی سی بی نے بڑے ٹورنامنٹس میں ملنے والی ناکامیوں کا ازالہ کرنے کیلئے سلیکشن کمیٹی کی سربراہی ایک بڑے نام کے سپرد کردی لیکن یہ تجربہ مکمل طور پر فلاپ ہوچکا ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں کوچنگ کرنے والے توصیف احمد، وسیم حیدر اور وجاہت اللہ واسطی کی شمولیت بھی سلیکشن کمیٹی کو جاندار نہیں بنا سکی کیونکہ انضی کا فیصلہ حتمی ہے۔
اگر انضمام الحق کی منتخب کردہ ٹیمیں فتوحات کے انبار تو کجا کسی حد تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہوتی تو شاید یہ اعتراضات نہ اُٹھائے جاتے لیکن انضمام الحق کا چیف سلیکٹر بن جانا بھی نتائج میں تبدیلی نہیں لاسکا بلکہ حالیہ عرصے میں پاکستانی ٹیم کو زیادہ شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں مسلسل چھ ٹیسٹ میچز کی شکست بھی شامل ہے جو مسلسل ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی شکستوں کا نیا ”ریکارڈ“ ہے۔ دوسری طرف ون ڈے انٹرنیشنلز میں بھی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ایسی نہیں ہے جس پر ناز کیا جاسکے بلکہ مجموعی طور پر تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی کارکردگی زوال پذیر ہے اور یہی وہ سوال ہے جس پر ماضی کے سپر اسٹار اور موجودہ چیف سلیکٹر جواب دہ ہیں۔
یہ ضروری نہیں ہے اور ممکن بھی نہیں ہے کہ صرف سلیکشن کمیٹی کی وجہ کوئی ٹیم کامیابی حاصل کرے یا ناکامی سے دوچار ہوجائے بلکہ کسی بھی ٹیم کی کامیابی یا ناکامی میں بہت سے عناصر شامل ہوتے ہیں جس میں کھلاڑیوں کی پرفارمنس سب سے اہم ہے اور کھلاڑیوں کی خراب کارکردگی پر سلیکشن کمیٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن کھلاڑیوں کے غلط انتخاب کی تمام تر ذمہ داری سلیکشن کمیٹی پر ہی عائد ہوتی ہے اور بدقسمتی سے انضمام الحق کی سلیکشن کمیٹی اپنے فرائض درست طریقے سے انجام نہیں دے پارہی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔جو کھلاڑی جس فارمیٹ سے مطابقت رکھتا ہے اسے وہاں منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ کسی دوسرے فارمیٹ میں منتخب کرکے اس کی صلاحیتوں کیساتھ کھیلا جارہا ہے۔ محمد نواز اور شرجیل خان ایسی دو مثالیں ہیں جنہوں نے خود کو ٹی20فارمیٹ میں منوایا لیکن سلیکشن کمیٹی نے ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ کھلاڑیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ٹیسٹ کیپ عطا کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محمد نواز ٹیم سے باہر ہوچکا ہے اور شرجیل خان کی تکنیک پہلی ہی اننگز میں واضح ہوگئی ہے۔
سلیکشن کمیٹی کا کام کھلاڑیوں کا پول تیار کرناہے تاکہ مختلف فارمیٹس کیلئے عمدہ صلاحیتوں کے کھلاڑی میسر ہوں جن کی تربیت اور نشونما کرنا نیشنل اکیڈمی اور قومی ٹیم کے کوچز کا کام ہے لیکن کوچز اُس وقت تک اپنا کام نہیں کرسکیں گے جب تک انہیں ڈومیسٹک کرکٹ سے اچھے کھلاڑی تلاش کرکے نہ دیے جائیں۔ بدقسمتی سے انضمام الحق ڈومیسٹک کرکٹ سے کھلاڑی تلاش کرنا تو کجا ایسے کھلاڑیوں کو بھی منتخب نہیں کررہے جو تسلسل کیساتھ پرفارمنس دے رہے ہیں احمد شہزاد اور کامران اکمل اس کی واضح مثالیں ہیں۔جو کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں انہیں اگلے مرحلے تک لانا ہوگا۔اگر انضی اینڈ کمپنی ایسا کرنے میں ناکام رہی تو پھر چاہے انضمام الحق تین سال تک چیف سلیکٹر رہیں یا تیس سال تک...قومی ٹیم میں بہتری نہیں آئے گی!