ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے کچھ "کڑی" پیشن گوئیاں

ٹھیک دو سال بعد ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کے ممالک ٹی ٹوئنٹی کی عالمی چیمپئن شپ کھیلنے کے لیے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ پچھلی بار ٹھکانہ بنگلہ دیش تھا تو اِس مرتبہ بھارت کو پہلی بار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی میزبانی ملی ہے۔ چھٹے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے مرکزی مرحلے میں صفِ اول کی آٹھ ٹیمیں تو براہ راست کھیلیں گی جبکہ باقی دو ٹیموں کے انتخاب کے لیے ایک سخت اور دلچسپ کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلا گیا جن میں سے افغانستان کڑا مرحلہ عبور کرچکا ہے۔
اب منگل سے شروع ہوگا اہم ترین مرحلہ جسے "سپر 10" کا نام دیا گیا ہے۔ اس راؤنڈ کے لیے "جتنے منہ، اتنی باتیں" ہیں۔ تو ہم بھی چند ایسی ہی باتیں کر ڈالتے ہیں، جو ممکن ہے کہ حقیقت کا روپ بھی دھار جائیں لیکن فی الوقت یہ بات کہنا کئی لوگوں کو ہضم نہیں ہوگا۔
سری لنکا صرف ایک کامیابی حاصل کرے گا
دفاعی چیمپئن سری لنکا کے بارے میں ایسی پیشن گوئی کرتے ہوئے افسوس تو ہمیں بھی ہو رہا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ کئی شائقین کے لیے یہ حیران کن بلکہ پریشان کن ہو اور کئی اسے مذاق بھی سمجھیں لیکن یاد رکھیں کہ 2014ء میں عالمی اعزاز جیتنے والے دستے کے مقابلے میں اس بار ٹیم زیادہ تر نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ اصل طاقت مہیلا جے وردھنے اور کمار سنگاکارا تھے جو کرکٹ سے رخصت ہو چکے، اہم گیندباز لاستھ مالنگا زخمی ہیں۔ ایسی صورتحال میں سری لنکا صرف ایک ہی مقابلہ جیتتا دکھائی دیتا ہے، وہ ہے کوالیفائنگ راؤنڈ سے آنے والے افغانستان کے خلاف۔ پھر سری لنکا کی حالیہ ٹی ٹوئنٹی کارکردگی بھی مایوس کن ہے۔ گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے اب تک اس نے 6 مقابلے کھیلے ہیں اور صرف ایک میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز تک میں شکست کھائی۔ ایشیا کپ میں بھی اپنے اعزاز کے دفاع میں بری طرح ناکام دکھائی دیا۔ بلے بازوں سے رنز نہيں بن رہے، گیندبازوں سے وکٹیں نہیں لی جا رہی تو اس صورت میں اعزاز کا دفاع کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتے ہیں۔
تیز گیندباز کامیاب
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بھارت کی وکٹوں پر ہمیشہ اسپنرز ہی کامیاب رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ہماری پیشن گوئی ہے کہ اسپنرز سے زیادہ تیز گیندباز حریف بلے بازوں کے لیے مشکلات کھڑی کریں گے۔ کپتانوں کی کوشش ہوگی کہ وکٹوں کے حصول کے لیے تیز باؤلرز پر ہی انحصار کریں۔ پھر یہ بات بھی لکھ لیں کہ ایونٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا تیز باؤلر ہی ہوگا بلکہ تیز گیندبازوں میں سےبھی بائیں ہاتھ سے تیز باؤلنگ کرنے والا۔ پھر چاہے وہ محمد عامر ہو، محمد عرفان، وہاب ریاض یا ریس ٹوپلی، ڈیوڈ ولی یا اشیش نہرا۔
یووراج سنگھ کی واپسی
یووراج سنگھ نے گزشتہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا فائنل کھیلا تھا، جہاں 21 گیندوں پر صرف 11 رنز بنائے اور بھارت فائنل تک پہنچنے کے باوجود چیمپئن نہ بن سکا۔ یووراج عرصہ دراز کے لیے باہر ہوگئے اور اب 2016ء میں جاکر واپس آئے ہیں۔ لیکن اب تک وہ اصل رنگ و روپ میں نظر نہیں آئے، جس کے لیے وہ معروف تھے۔ ٹی ٹوئنٹی میں لگ بھگ 31 کا اوسط رکھنے والے یووراج سنگھ سے بھارت کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور اپنے میدانوں پر موجودگی کی وجہ سے ان کی واپسی کے امکانات قوی ہیں۔
200 رنز کے ہدف کا تعاقب
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اب تک 7 مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ کسی ٹیم نے 200 رنز یا اس سے زیادہ کا ہدف کامیابی سے حاصل کرلیا ہو۔ آخری مرتبہ یہ کارنامہ ابھی 6 مارچ ہی کو انجام پایا ہے جب آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کے خلاف 204 رنز کا ہدف تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا۔ کیونکہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی بھارت میں ہے، اس لیے یہاں دیکھیں تو اب تک تین مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ 200 رنز سے زیادہ کا ہدف حاصل کیا گیا۔ اس لیے یہ بات کافی حد تک یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016ء میں کم از کم ایک مقابلہ تو ایسا ہوگا جس میں 200 کا ہدف بھی عبور ہوگا اور وہ کون سا میچ ہوگا؟ تھوڑا سا ذہن آپ بھی لڑائیں، سب کچھ ہم بتائیں کیا؟
بلے بازوں کا انتخاب، آسٹریلیا پریشان
پانچ بار ایک روزہ عالمی کپ جیتنے والا آسٹریلیا ٹی ٹوئنٹی میں اب تک عالمی چیمپئن بننے سے محروم رہا ہے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی کاغذ پر آسٹریلیا بہت مضبوط دکھائی دے رہا ہے، بلکہ اتنے بلے باز ہوگئے ہیں کہ ان کے انتخاب نے ہی ٹیم انتظامیہ کو پریشان کردیا ہے۔ بگ بیش سے قبل ٹیم آرون فنچ اور ڈیوڈ وارنر کو میدان میں اتارتی تھی لیکن اب عثمان خواجہ کو ان کی شاندار بلے بازی کی وجہ سے شامل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ یوں ڈیوڈ وارنر کی اوپننگ پر جگہ کمزور ہوگئی ہے۔ گو کہ وہ دوسرے و تیسرے نمبر پر آ کر بھی خوب رنز لوٹ رہے ہیں لیکن شین واٹسن کا اب بھی نہیں پتہ کہ وہ کس مقام پر کھیلیں گے۔ اس لیے آسٹریلیا کو بہت غور و خوض کے بعد طے کرنا پڑے گا کہ کس کو کھلانا ہے اور کس پوزیشن پر بھیجنا ہے۔
جیمز ونس کی "انٹری"
ایک روزہ کرکٹ میں تو انگلستان اوپننگ کی ذمہ داری ایلکس ہیلز اور جیسن روئے کو دیتا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی میں معاملہ کچھ مختلف ہے۔ جیسن روئے کی کارکردگی مایوس کن ہے اور ان کے مقابلے میں جیمز ونس کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی سیریز میں 125 رنز بنانے والے ونس کو سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی ملا تھا۔ اس لیے ممان ہے کہ پہلا موقع تو روئے ہی کو ملے، لیکن ناکامی کی صورت میں ونس کو آزمایا جائے گا۔
ڈی ولیئرز کے ساتھ اوپنر؟
انگلستان کے خلاف سیریز سے قبل مختصر طرز کی کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے لیے ہاشم آملا اور کوئنٹن ڈی کوک ہی اوپننگ کرتے تھے لیکن پھر کپتان فف دو پلیسی نے ابراہم ڈی ولیئرز سے اوپننگ کروانے کا فیصلہ کیا۔ ہاشم آملا کو آرام کا موقع دیا گیا اور ڈی کوک اوپنر کی حیثیت سے ڈی ولیئرز کے ساتھ آئے۔ جب آسٹریلیا کے خلاف ہاشم کو واپس لانے کا فیصلہ کیا گیا تو ڈی ولیئرز کو آرام کرایا گیا۔ یوں اب تک یہ تینوں کھلاڑی کسی میچ میں ایک ساتھ نظر نہیں آئے۔ اس لیے یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ ڈی ولیئرز کے ساتھ اوپننگ ڈی کوک کریں گے یا ہاشم آملا؟ چلیں مشکل آسان کر دیتے ہیں۔ درحقیقت آملا کا ٹیسٹ کرکٹ میں اوسط 51.45 اور ایک روزہ میں 52.13 ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی میں حالات کچھ مختلف ہیں، 32 مقابلوں میں صرف دو نصف سنچریاں لیکن لیکن لیکن بھارتی سرزمین پر ہاشم آملا کی کارکردگی مثالی ہے اور زیادہ تر امکان یہی ہے کہ وہی ڈی ولیئرز کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔
ایڈم زمپا، آسٹریلیا کا بونس کھلاڑی
آسٹریلیا کا زیادہ تر انحصار تیز باؤلرز پر ہے لیکن ان کی موجودگی کے باوجود ایڈم زمپا آسٹریلیا کا اہم مہرہ ثابت ہوں گے۔ 23 سالہ اسپن گیندباز نے اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز رواں ماہ جنوبی افریقہ کے خلاف کیا تھا۔ بگ بیش میں 22.50 کے اوسط سے 12 وکٹیں لینے والے زمپا گیند پر بہترین کنٹرول رکھتے ہیں۔ کب، کہاں اور کس رفتار سے گیند پھینکنی ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے ان کی موجودگی مخالف ٹیموں کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔
بھارت ناقابل شکست رہے گا
گو کہ یہ پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہے لیکن 2016ء میں بھارت کی کارکردگی دیکھ کر یہ ہمت ہو رہی ہے۔ بھارت نے رواں سال 11 میں سے 10 مقابلے جیتے ہیں۔ واحد شکست سری لنکا کے خلاف مقابلے میں ہوئی جب بھارت 101 رنز پر ڈھیر ہوگیا تھا۔ لیکن بھارت نے نہ صرف سری لنکا کے خلاف سیریز جیتی بلکہ آسٹریلیا کو اس کے ملک میں تین-صفر سے ہرانا اور پھر ایشیا کپ میں ناقابل شکست رہتے ہوئے اعزاز حاصل کرنا بھی بھارت کے حالیہ کارنامے ہیں۔ پھر پچھلی بار جب ایک روزہ عالمی کپ بھارت میں منعقد ہوا تھا تب بھی اس نے کامیابی حاصل کی تھی، اس لیے یہ پیشن گوئی کی جا سکتی ہے کہ بھارت چیمپئن بن سکتا ہے، وہ بھی ناقابل شکست رہتے ہوئے۔