یادِ ماضی عذاب ہے یارب!

پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ تعلقات تقریباً 8 سال سے ٹوٹے ہوئے ہیں، 2007ء میں پاکستان کے دورۂ بھارت سے لے کر آج تک دونوں ملکوں نے آپس میں کوئی باہمی سیریز نہیں کھیلی۔ 2012ء کے اواخر میں کچھ برف پگھلی اور پاکستان نے بھارت کے دورے میں چند ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلے۔ توقع تھی کہ تعلقات کی مکمل بحالی کی راہ اب ہموار ہوگی اور گزشتہ سال جب دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے تو دونوں ممالک کے تماشائیوں پر تو شادی مرگ کی کیفیت ہی طاری ہوگئی۔ پچھلے 8 سالوں میں جہاں دونوں ممالک ایک مکمل سیریز بھی نہ کھیلے تھے، اگلے 8 سالوں میں 6 باہمی سیریز کے وعدے کیے گئے لیکن معاملہ پہلے ہی مرحلے کو عبور نہ کرسکا۔ گویا یہ رکاوٹوں والی ایک بڑی اور اہم دوڑ تھی جس میں دوڑنے والے نے آغاز تو بہت ہی تیز لیا لیکن پہلی ہی رکاوٹ پر منہ کے بل گرگیا۔
اب دنیائے کرکٹ کی سب سے بڑی رقابت کے پرستاروں کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ ماضی کی یادوں کو کریدیں۔ پاک و ہند کے تعلقات کی طرح کھیل میں بھی دونوں کی تاریخ بہت ہی رنگین ہے۔ اس پر ایک نہیں بلکہ کئی کتابیں تک لکھی جا سکتی ہیں، اور لکھی بھی گئی ہیں۔ ویسے تو دونوں ممالک کے کھلاڑی بہت اچھے دوست شمار ہوتےہیں لیکن کبھی کبھار میدان میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے کھیل کا یہی تاریک پہلو زیادہ مقبول ہے۔
- 1. ماجد خان بمقابلہ کپل دیو – 1978ء
- 2. جاوید میانداد بمقابلہ کرن مورے – 1992ء
- 3. عامر سہیل بمقابلہ وینکٹش پرساد – 1996ء
- 4. شاہد آفریدی بمقابلہ گوتم گمبھیر – 2007ء
- 5. کامران اکمل بمقابلہ گوتم گمبھیر – 2010ء
- 6. شعیب اختر بمقابلہ ہربھجن سنگھ – 2010ء
- 7. کامران اکمل بمقابلہ ایشانت شرما – 2012ء