پاکستان، ایک مرتبہ پھر عرش سے فرش پر

اسے غیر متوقع کہا جائے یا توقعات کے عین مطابق کہ پاکستان کولمبو میں جاری دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں صرف 138 رنز ہی بنا پایا۔ کپتان مصباح الحق نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو بلے بازوں سے ہرگز ایسی مایوس کن کارکردگی متوقع نہیں تھی، خاص طور پر گزشتہ مقابلے کی کارکردگی دیکھتے ہوئے۔ گال میں سری لنکا نے صرف 96 رنز پر پاکستان کی پانچ وکٹیں گرائیں، اس کے باوجود سرفراز احمد اور اسد شفیق کی بلے بازی نے پاکستان کو 417 رنز تک پہنچایا۔
پہلا ٹیسٹ 10 وکٹوں سے جیتنے کے بعد اب اگلے ہی مقابلے میں پاکستان کے 10 وکٹوں سے شکست کھانے کے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ سری لنکا کو 166 رنز کی برتری حاصل ہوچکی ہے اور اس کی ابھی ایک وکٹ باقی ہے۔ اس پر پاکستانی شائقین کا پیچ و تاب کھانا بجا ہے، لیکن مجھے اس کارکردگی پر حیرت نہیں بلکہ "Déjà vu" کا گمان ہوا یعنی کہ "یہ تو میں نے پہلے بھی دیکھا ہوا ہے"۔حالیہ چند سالوں میں متعدد ایسے مواقع آئے ہیں جب پاکستان کی بیٹنگ لائن کو منہدم ہوتے دیکھا مگر سب سے مایوس کن لمحہ اکتوبر 2013ء میں پیش آیا جب پاکستان دبئی میں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ڈھیر ہوا۔
تقریباً دو سال قبل جب متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں پاکستان اور جنوبی افریقہ دو ٹیسٹ کے لیے مقابل آئے تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ جنوبی افریقہ کے دورے پر تین-صفر کی ہزیمت سے دوچار ہونے والا پاکستان دنیا کی سرفہرست ٹیم کے خلاف اتنا شاندار آغاز لے گا۔ ابوظہبی میں ہونے والے پہلے مقابلے میں شاندار فتح کے بعد پاکستان کو اگلا مقابلہ محض ڈرا کرنا تھا، جس کی بدولت وہ تاریخی کامیابی حاصل کرسکتا تھا۔ لیکن۔۔۔۔۔دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پاکستان صرف 99 رنز پر ڈھیر ہوا اور جنوبی افریقہ نے گریم اسمتھ کی ڈبل سنچری کی بدولت ایک اننگز اور 92 رنز کی زبردست فتح حاصل کی۔
ایک میچ میں کامیاب ہونا، اور اگلے ہی مقابلے میں بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈال دینا اب پاکستان کرکٹ ٹیم کی روایت سی بن چلی ہے۔ اگر ہم پچھلے چار سالوں کا جائزہ لیں تو پانچ ایسے مواقع آئے ہیں جب پاکستان کی پوری بیٹنگ لائن 140 رنز سے پہلے پہلے پویلین سدھار گئی۔ تمام ٹیسٹ ٹیموں میں ایک نیوزی لینڈ ہی ہے جو اس عرصے میں اتنی بار 140 رنز تک آؤٹ ہوا ہے۔ اسی عرصے میں اگر 100 یا اس سے کم مجموعے پر آؤٹ ہونے والی ٹیموں کا ریکارڈ دیکھیں تو یہ "اعزاز" بھی کسی اور کے پاس نہیں، ہماری پاکستانی ٹیم کے پاس ہے جو چار مرتبہ اس خفت کا سامنا کرچکی ہے۔ اس میں ایک مرتبہ جنوبی افریقہ کے خلاف محض 49 رنز پر آل آؤٹ ہوجانا بھی شامل ہے۔ ایسی بیٹنگ لائن، جس میں یونس خان جیسا تجربہ کار، مصباح الحق جیسا مردِ بحران اور اسد شفیق، اظہر علی اور سرفراز احمد جیسے نوجوان بلے باز ہوں، ان کا بارہا اس طرح ڈھیر ہوجانا ثابت کرتا ہے کہ ہماری بیٹنگ لائن میں دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت بہت محدود ہے۔ اگر حریف ابتدائی چند وکٹیں جلد حاصل کرلے تو باقی کھلاڑی بھی اونے پونے کھیل کر پویلین جانے میں دیر نہیں لگائے۔ سوائے چند واقعات کے زیادہ تر قومی بیٹنگ لائن کی کہانی یہی ہے۔
گزشتہ چار سال میں ٹیسٹ کی ایک اننگز میں 100 یا کم مجموعے پر ڈھیر ہونے والی ٹیمیں
بمقابلہ | اسکور | اوورز | اننگز | نتیجہ | بمقام | بتاریخ | |
---|---|---|---|---|---|---|---|
![]() |
![]() |
99 | 44.1 | پہلی | فتح | دبئی | فروری 2012ء |
![]() |
![]() |
100 | 54.3 | دوسری | شکست | گال | جون 2012ء |
![]() |
![]() |
49 | 29.1 | دوسری | شکست | جوہانسبرگ | فروری 2013ء |
![]() |
![]() |
99 | 36.4 | پہلی | شکست | دبئی | اکتوبر 2013ء |
![]() |
![]() |
45 | 19.2 | پہلی | شکست | کیپ ٹاؤن | جنوری 2013ء |
![]() |
![]() |
68 | 22.3 | چوتھی | شکست | لارڈز | مئی 2013ء |
![]() |
![]() |
94 | 29.2 | تیسری | شکست | اوول | اگست 2014ء |
![]() |
![]() |
72 | 36.1 | چوتھی | شکست | ابوظہبی | جنوری 2012ء |
![]() |
![]() |
47 | 18 | تیسری | شکست | کیپ ٹاؤن | ستمبر 2011ء |
![]() |
![]() |
96 | 24.3 | دوسری | فتح | کیپ ٹاؤن | ستمبر 2011ء |
![]() |
![]() |
51 | 28.5 | دوسری | شکست | نیپئر | جنوری 2012ء |