دو ماہ گزر گئے، بھارت آسٹریلیا میں ایک مقابلہ بھی نہ جیت سکا

عالمی کپ سے پہلے بھارت کا دورۂ آسٹریلیا بہت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا تھا کیونکہ بھارت کو انہی میدانوں پر اپنے عالمی اعزاز کا دفاع کرنے کے لیے تیاریوں کا اس سے بہترین موقع نہیں مل سکتا تھا لیکن دو ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، دورے کے دونوں مراحل مکمل ہوچکے ہیں لیکن بھارت ایک مرتبہ بھی جیت کا مزا نہیں چکھ سکا۔

9 دسمبر سے ایڈیلیڈ میں شروع ہونے والے پہلے ہند-آسٹریلیا ٹیسٹ سے لے کر اب 30 جنوری کو پرتھ میں انگلستان کے خلاف ایک روزہ تک، ایک بار بھی فتح نے بھارت کے قدم نہیں چومے۔ ٹیسٹ سیریز میں جاندار مقابلے کے بعد کہ جہاں پہلے مقابلے میں آسٹریلیا صرف 48 رنز سے اور دوسرے میں محض 4 وکٹوں سے جیت پایا اور اس کے بعد دو بہت عمدہ مقابلے ملبورن اور سڈنی میں کھیلے گئے۔ جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ قیادت کے بحران سے گزرنے کے باوجود بھارت جیسے ہی اپنے پسندیدہ فارمیٹ یعنی ون ڈے میں پہنچے گا تو ٹیم مکمل رنگ میں نظر آئے گی۔ لیکن یہ سب توقعات بیکار گئیں۔ آسٹریلیا کے ہاتھوں پہلے مقابلے میں ہارنے کے بعد انگلستان جیسے کمزور حریف کے ہاتھوں بھارت کو 9 وکٹوں کی بدترین شکست ہوئی اور یہیں سے بھارت کی کارکردگی عیاں ہوگئی۔
برسبین میں بھارت کی بزعم خود "دنیا کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن" صرف 153 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ اس کے باوجود قدرت نے بھارت کو ایک اور موقع دیا۔ سڈنی میں آسٹریلیا کے خلاف طے شدہ اگلا مقابلہ بارش کی نظر ہوا تو بھارت کو یہ موقع ملا کہ وہ پرتھ میں انگلستان کو شکست دے کر سہ فریقی سیریز کے فائنل تک پہنچ جائے لیکن وہ ایسا کرنے میں بھی ناکام رہا۔ پہلےاسکور بورڈ پر صرف 200 رنز جمع کرسکا اور پھر 66 رنز پر انگلستان کی 5 وکٹیں گرانے کے باوجود اسے جیتنے سے نہ روک پایا۔ انگلستان تین وکٹوں سے جیت کر فائنل میں پہنچ گیا اور عالمی چیمپئن اپنے زخم چاٹتا رہ گیا۔
عالمی کپ 2011ء کے بعد سے اب تک ٹیسٹ کرکٹ کو ایک طرف رکھ دیں تو ایک روزہ میں جیسی کارکردگی بھارت نے دکھائی ہے، بہت کم ٹیموں نے اس کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران ہونے والا ایک روزہ کا دوسرا سب سے بڑا اعزاز چیمپئنز ٹرافی بھی بھارت ہی نے جیتا۔ وہ کافی عرصے درجہ بندی میں عالمی نمبرایک بھی رہا بلکہ اس وقت بھی آسٹریلیا کے بعد دوسرے نمبر پر موجود ہے لیکن عالمی کپ سے عین پہلے بھارت نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہرگز دفاعی چیمپئن کے شایان شان نہیں۔
اس مایوس کن مرحلے پر صرف ایک ہی چیز بھارت کے حوصلے بلند کر سکتی ہے، وہ ہے عالمی کپ میں اپنے پہلے ہی مقابلے میں روایتی حریف پاکستان کو شکست دینا۔ اگر 15 فروری کو بھارت پاکستان کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگیا تو 2003ء کی طرح اس کے حوصلوں کو وہ بلندی نصیب ہوگی جو اسے کافی آگے تک لے جا سکتی ہے۔ لیکن اس مقابلے میں شکست کی صورت میں حالات مزید گمبھیر ہو سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ دورۂآسٹریلیا دھونی کے ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ایک روزہ کیریئر کے خاتمے کا بھی سبب بن جائے۔