پاکستان مسلسل شکستوں کے گرداب سے نکل گیا

جب 246 رنز کے تعاقب میں پاکستان صرف 124 رنز پر 6 وکٹیں گنوا چکا تھا تو کم از کم مجھے تو یقین نہیں تھا کہ یہاں سے حارث سہیل اور شاہد آفریدی میچ نکال پائیں گے۔ شکست سے بھی زیادہ خوف مسلسل شکست کا ہوتا ہے اور اگر پاکستان یہ میچ ہار جاتا تو یہ ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی مسلسل چھٹی شکست ہوتی۔ بہرحال، حارث اور "لالا" نے پاکستان کو بچا لیا اور پے در پے شکستوں کا سیاہ بادل چھٹ گیا۔
لیکن اگر پاکستان یہ مقابلہ ہار جاتا تو مصباح الحق ایک مایوس کن ریکارڈ کی جانب ایک اور قدم بڑھا دیتے، یعنی مسلسل شکستوں کے نئے قومی ریکارڈ کی طرف۔ پاکستان نے 1987ء کے عالمی کپ میں شکست کے بعد دل گرفتگی کے عالم میں کل 10 مقابلوں میں شکست کھائی تھی، جو آج تک ایک ریکارڈ ہے۔
اس سلسلے کا آغاز 30 اکتوبر 1987ء کو ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی میں 28 رنز کی شکست کھانے سے ہوا جس کے بعد پاکستان کو اگلے ون ڈے میں اپنی تاریخ کی مایوس کن ترین ہار سہنا پڑی۔ ورلڈ کپ سیمی فائنل میں اپنے تماشائیوں کے سامنے پاکستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ یہ اتنا گہرا صدمہ تھا کہ اس کے فوراً بعد انگلستان کے خلاف سیریز کے تینوں مقابلے بھی ہار گیا۔
پھر مارچ 1988ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا اور وہاں سیریز کے تمام پانچوں مقابلوں میں شکست کھائی، یوں یہ سلسلہ دراز ہو کر 10 مقابلوں تک پہنچ گیا جو عمران خان اور جاوید میانداد کی زیر قیادت ٹیم کو زیب نہیں دیتا تھا۔ پاکستان ان 10 شکستوں سے پہلے مسلسل پانچ مقابلے جیتا تھا اور ٹیم عالمی کپ کی شکست سے یکدم ڈھیر ہوگئی تھی لیکن بالآخر اکتوبر 1988ء میں لاہور ہی کے مقام پر آسٹریلیا ہی کے خلاف یہ سلسلہ ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ قذافی اسٹیڈیم میں جہاں پاکستان کو ایک سال پہلے عالمی کپ کے سیمی فائنل میں شکست ہوئی تھی، 229 رنز کے ہدف کا تعاقب کررہا تھا اور مقررہ 45 اوورز میں اتنے ہی رنز بنا پایا، موجودہ قوانین کے مطابق تو مقابلہ ٹائی قرار پاتا، لیکن اس وقت ٹائی ہونے کی صورت میں فیصلہ گرنے والی وکٹوں کی تعداد کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ آسٹریلیا نے اس مجموعے کو اکٹھا کرنے کے لیے 8 وکٹیں گنوائی تھیں جبکہ پاکستان 7 وکٹوں کے نقصان پر ہدف تک پہنچا، اس لیے پاکستان فاتح قرار پایا۔
اب پاکستان کے شائقین امید کرتے ہیں کہ ٹیم مسلسل پانچ فتوحات کے بعد نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار کامیابی کے بعد جیت کے سفر پر گامزن ہوگا کیونکہ عالمی کپ سے پہلے پاکستان کو فتوحات کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
پاکستان کا مسلسل سب سے زیادہ شکستوں کا ریکارڈ
نتیجہ | بمقابلہ | شکست کا مارجن | بمقام | بتاریخ | |
---|---|---|---|---|---|
![]() | شکست | ![]() | 28 رنز | کراچی | 30 اکتوبر 1987ء |
![]() | شکست | ![]() | 18 رنز | لاہور | 4 نومبر 1987ء |
![]() | شکست | ![]() | 2 وکٹیں | لاہور | 18 نومبر 1987ء |
![]() | شکست | ![]() | 23 رنز | کراچی | 20 نومبر 1987ء |
![]() | شکست | ![]() | 98 رنز | پشاور | 22 نومبر 1987ء |
![]() | شکست | ![]() | 47 رنز | کنگسٹن | 12 مارچ 1988ء |
![]() | شکست | ![]() | 5 وکٹیں | سینٹ جانز | 15 مارچ 1988ء |
![]() | شکست | ![]() | 50 رنز | پورٹ آف اسپین | 18 مارچ 1988ء |
![]() | شکست | ![]() | 7 وکٹیں | پورٹ آف اسپین | 20 مارچ 1988ء |
![]() | شکست | ![]() | 7 وکٹیں | جارج ٹاؤن | 30 مارچ 1988ء |
ویسے سب سےزیادہ مسلسل شکستوں کے عالمی ریکارڈ کے بارے میں مت پوچھیں تو زیادہ بہتر ہے، چلیں آپ ضد کرتے ہیں تو بتا ہی دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش نے عالمی کپ 1999ء میں پاکستان کے خلاف تاریخی جیت حاصل کرنے کے بعد مسلسل 23 ون ڈے مقابلوں میں شکست کھائی۔ اکتوبر 1999ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ڈھاکہ میں شکست کھانے سے سلسلے کا آغاز ہوا اور پورے ایک سال بعد جنوبی افریقہ کے خلاف کمبرلے میں کھیلے گئے ون ڈے میں 7 وکٹوں کی شکست تک جاری رہا۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سلسلہ کسی جیت کے ساتھ رکا ہو بلکہ نومبر 2002ء میں چٹاگانگ کے ایم اے عزیز اسٹیڈیم میں ہونےوالا مقابلہ بارش کی وجہ سے کسی نتیجے تک نہیں پہنچا تھا، جس کی وجہ سے کم از کم بنگلہ دیش شکست سے تو بچ گیا کیونکہ 276 رنز کے تعاقب میں صرف 90 رنز پر چار وکٹوں سے محرومی کے بعد شکست واضح نظر آ رہی تھی۔ اگر فتح کی بات کی جائے تو 1999ء کے بعد بنگلہ دیش نے پہلی فتح مارچ 2003ء میں زمبابوے کے خلاف 8 رنز کی صورت میں حاصل کی، یعنی تقریباً ساڑھے چار سال بعد۔
سب سے زیادہ مسلسل شکستیں
مسلسل شکستیں | از | تا | |
---|---|---|---|
![]() | 23 | 8 اکتوبر 1999ء | 9 اکتوبر 2002ء |
![]() | 22 | 31 مارچ 1986ء | 14 مئی 1998ء |
![]() | 18 | 11 جون 1983ء | 14 مارچ 1992ء |
![]() | 18 | 22 فروری 2003ء | 12 نومبر 2003ء |
![]() | 17 | 20 اپریل 2004ء | 5 دسمبر 2004ء |