تم جیتو یا ہارو؟

1 1,035

گو کہ بات معیوب ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے کیڑے نکالے جائیں، یہ ایسا ہی جیسے سانپ کے گزرجانے کے بعد لکیر پیٹی جائے لیکن بات کہے بغیر بھی بات نہیں بنے گی اور سو باتوں کی ایک بات یہ کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو کوچ سے زیادہ ماہر نفسیات کی ضرورت ہے اور ایک ایسے قائد کی جو خود کو بطور مثال پیش کرسکے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء میں ہندوستان کے خلاف اولین میچ، بلکہ اس سے بھی پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف وارم اپ میں 71 رنز پر آؤٹ ہونے، سے لے کر ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شرمناک شکست تک، ایک ایک کارکردگی اور ہر ہر پہلو یہ گواہی دے رہا ہے کہ کھلاڑیوں میں دباؤ جھیلنے کی اہلیت سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ وہ بوجھ ہے جو ان کی استطاعت، بلکہ بغیر لگی لپٹی بات کی جائے تو اوقات، سے زیادہ ہے۔ عالمی سطح پر کرکٹ کھیلنے والی ٹیم کے لیے ایک کوچ کا کام کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ اس سطح پر آ کر کھلاڑیوں کو بلّا پکڑنا اور شاٹ مارنا سکھاتا ہے؟ ہرگز نہیں، کوچ کا کام ہے کھلاڑیوں کی معمولی تکنیکی خامیوں کو درست کرنا اور اس سے بھی بڑھ کر ان کو ذہنی طور پر مضبوط بنانا، مشکل سے مشکل تر حالات میں بھی ان کی ہمت بندھائے رکھنا اور ان کے اندر تحریک و جذبہ پیدا کرنا اور پاکستان کی کارکردگی سے ایسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کام انجام دیا جارہا ہے۔ ذرا میچ کا نقشہ بدلا اور شاہد آفریدی کے علاوہ سب کھلاڑیوں کے ہاتھ پیر پھول گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے خلاف فتوحات نے پاکستان کی بہت ساری خامیوں کو چھپا دیا۔ پاکستان آسٹریلیا کے خلاف جس طرح جیتی ہوئی بازی اپنے ہاتھوں سے گنوا رہا تھا، دراصل باؤلنگ کی قلعی تو اسی میچ میں کھل چکی تھی۔ لیکن صرف مقابلہ جیتنے کی وجہ سے اپنی خامیوں پر نظر ہی نہ گئی اور جب سب سے اہم میچ آیا تو محض پانچ اوورز کے کھیل سے ٹیم کے اعصاب نے جواب دے دیا۔ پاکستان کے کھلاڑی 85 رنز پر 5 وکٹیں حاصل کرنے کے بعد روایتی انداز میں ڈھیلے پڑے اور ویسٹ انڈیز اپنے کپتان اور نائب کپتان کے صرف 5 اوور کے کھیل کے ذریعے ایسا مقابلے میں واپس آیا کہ پھر پاکستان کو کوئی راہ فرار نہیں دکھائی دی۔

پاکستان کو ایسے کپتان کی ضرورت ہے جو خود اپنی کارکردگی کے ذریعے ٹیم کے حوصلے بلند کرے (تصویر: AFP)
پاکستان کو ایسے کپتان کی ضرورت ہے جو خود اپنی کارکردگی کے ذریعے ٹیم کے حوصلے بلند کرے (تصویر: AFP)

شروعات ہوئی کیسے؟ دراصل سال کے اہم ترین ٹورنامنٹ کے لیے کی گئی تیاری میں بنیاد کا پتھر ہی غلط تھا، یعنی ٹیم کا انتخاب۔اسپیشلسٹ وکٹ کیپر کی ضرورت آجکل طویل طرز کی کرکٹ میں ہوتی ہے اور دنیا بھر کی ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی جیسے مختصر فارمیٹ میں جزوقتی وکٹ کیپر سے بھی کام چلا لیتی ہیں۔ جیسا کہ سری لنکا کی مثال سامنے ہے۔ ٹیسٹ میں پرسنا جے وردھنے وکٹ کیپنگ کرتے ہیں جبکہ محدود اوورز کے مقابلوں میں کمار سنگاکارا یا دنیش چندیمال وکٹوں کے پیچھے فرائض انجام دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان کرکٹ کا تو گویا 'باوا آدم ہی نرالا ہے'۔ ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے جن ٹیموں کا انتخاب کیا گیا اس میں ایک روزہ ٹورنامنٹ کے لیے جزوقتی وکٹ کیپر عمر اکمل کو ذمہ داری سونپی گئی اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں جہاں عمر کو وکٹوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا، ذمہ داری 'گڑھے مردے' کامران اکمل کو سونپ دی گئی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان ایک بلے باز کے آپشن سے محروم ہوگیا۔ کامران کا بلّا تو پورے ٹورنامنٹ میں نہیں چلا، لیکن ان کی شمولیت کی وجہ سے پاکستان نے شرجیل خان کو باہر بٹھائے رکھا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس طرز کے بہترین بلے باز ہیں۔ دوسرا سب سے اہم معاملہ شعیب ملک کی شمولیت رہا، جنہیں پاکستان نے کامران کی طرح چاروں مقابلے کھلائے۔ آل راؤنڈر کی حیثیت سے کھیلنے والے شعیب نہ بیٹنگ کرسکے، نہ باؤلنگ انہیں تھمائی گئی اور نہ ہی وہ کیچ پکڑنے میں زیادہ کامیابیاں سمیٹ سکے۔ یہ بات پاکستان کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے تک سمجھ نہیں آئی کہ آخر وہ کرنے کیا گئے تھے؟ اگر شرجیل خان کو دو وارم اپ مقابلوں میں ناکامی کی وجہ سے باہر کیا جاسکتا ہے تو آخر شعیب کو بھارت کے خلاف مقابلے میں بدترین کارکردگی کے بعد کیوں بخشا گیا؟ اگر مڈل آرڈر کو مضبوط کرنے کے لیے ایک تجربہ کار کھلاڑی کی ضرورت تھی تو اس سے زیادہ اچھا انتخاب مصباح الحق کا ہوتا۔

پھر خود کپتان محمد حفیظ کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ چار مقابلوں میں 13.75 کے اوسط سے صرف 55 رنز اور 63 کے اوسط سے صرف 1 وکٹ۔ ان اعدادوشمار کے بعد کہنے کو باقی کچھ نہیں رہ جاتا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری گروپ مقابلے میں 32 گیندوں پر صرف 19 رنز ان کی "بہترین" کارکردگی رہی، جس میں کوئی چوکا تک شامل نہیں تھا۔ 85 رنز پر 5 وکٹیں گنوانے والے ویسٹ انڈیز کے کپتان ڈیرن سیمی نے 20 گیندوں پر 42 رنز کی کیریئر کی بہترین اننگز تراشی اور خود اپنی کارکردگی کے ذریعے ٹیم کے حوصلے بلند کیے۔ وہ انگریزی میں کیا کہتے ہیں "Leading from front"!

اب سب سے آخر میں عمر گل، نیوزی لینڈ کے خلاف وارم اپ مقابلے میں کارکردگی دکھانے کے بعد جب حقیقی ٹورنامنٹ سامنے آیا تو اہم مواقع پر انہوں نے سخت مایوس کیا۔ اعدادوشمار ہی سے ظاہر ہے۔ 4 مقابلوں میں پھینکے گئے صرف 13.3 میں انہوں نے 123 رنز کھائے یعنی فی اوور رن دینے کا اوسط 9.11 اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف اہم مقابلے میں دو اوورز میں 29 رنز۔ اس کارکردگی کا کوئی جواز نہیں بنتا اور وہ بھی عمر جیسے تجربہ کار کھلاڑی سے۔ گو کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس مقام پر عمر گل کے علاوہ کوئی بھی باؤلر ہوتا، ڈیرن سیمی اور ڈیوین براوو کے تابڑ توڑ حملوں سے نہ بچ پایا لیکن ایسا صرف ایک دو بار ہوتا ہے۔ سعید اجمل 2010ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سیمی فائنل میں مائیکل ہسی کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد شاید کل پہلی بار اس بری طرح پٹے ہوں۔ لیکن اسی دوران عمر گل درجنوں مواقع پر ہمت ہار بیٹھے۔ اگر اکا دکا کارکردگی ہی کو بنیاد بنانا ہے تو وہ تو جنید خان، بلاول بھٹی اور انور علی کی بھی ہے، ان کو مستقل مواقع کیوں نہیں دیے جاتے؟

دراصل "تجربے" کے نام پر دستے کے انتخاب میں جو غلطیاں کی گئیں، اور پاکستانی کرکٹ پرستاروں کو جو دھوکا دیا گیا، اس کا نتیجہ اب پوری قوم کے سامنے ہے۔

کرکٹ 'دن' کا کھیل ہے، جس ٹیم کا دن ہوتا ہے حالات خود بخود اس کے حق میں بدلتے چلے جاتے ہیں اس لیے جلد از جلد اس شکست کو بھلا کر آگے کی تیاریوں کا وقت ہے۔ عالمی کپ 2015ء میں صرف ایک سال کا وقت رہ گیا ہے اور ماہ اکتوبر تک ٹیم کا کوئی مقابلہ فی الحال طے شدہ نہیں۔ اس لیے پاکستان کے پاس کافی مہلت ہے کہ وہ ان خامیوں پر قابو پائے اور آئندہ جب میدان میں اترے تو نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ اترے۔