پاکستانی تیز باؤلرز ”پورس کے ہاتھی“ نہ ثابت ہوں

2 1,071

پرانے زمانے کی کہانیوں میں جب پریوں کے دیس کا شہزادہ بڑی مشکلات سے گزرنے کے بعد گرتا پڑتا شہزادی تک پہنچتا توشہزادی پہلے خوشی سے ہنستی اور پھر رو دیتی، تو شہزادہ اس سے پوچھتا کہ تم ہنسی کیوں ؟ اور روئی کیوں؟ شہزادی جواب دیتی تمہیں دیکھنے پر خوشی سے ہنس دی اور جب خیال آیا کہ ابھی دیو آئے گا اور تمہیں ماردے گا تو رو پڑی۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف جو کارکردگی دکھائی، اس کے بعد پاکستان کے شائقین کا حال بھی اسی شہزادی جیسا ہے۔ پاکستان کے بلے بازوں نے جس طرح بنگالی باؤلنگ لائن اپ کے چیتھڑے اڑائے ہیں، اس پر خوشی سے پاکستانی شائقین کے چہرے جگمگا اٹھے لیکن جب سپر 8 مرحلے میں جنوبی افریقہ، بھارت اور آسٹریلیا جیسے دیووں کا خیال آتا ہے، اور ساتھ ساتھ عمرگل اور سہیل تنویر کی گیندبازی پر نظر جاتی ہے، تو رونے کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا ہے۔

اب یہ باؤلنگ محمد اکرم کا امتحان ہے کہ وہ تیز گیند بازوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کریں (تصویر: AFP)
اب یہ باؤلنگ محمد اکرم کا امتحان ہے کہ وہ تیز گیند بازوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کریں (تصویر: AFP)

عمر گل، جن کا شمار ٹی ٹوئنٹی طرز کے بہترین گیندبازوں میں ہوتا ہے، گزشتہ دو سال سے ٹیسٹ، ایک روزہ حتیٰ کہ ٹی ٹوئنٹی طرز میں بھی بدترین فارم سے گزر رہے ہیں بلکہ ہر مقابلے کے ساتھ ان کی کارکردگی میں زوال آتا جاتا رہا ہے۔ 45 مقابلوں میں 60 وکٹیں حاصل کرنے والا وہ عمر گل جس کی ”ڈیتھ اوورز“ میں باؤلنگ کی مثال دی جاتی تھی، اب ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ عمر گل کی کارکردگی میں اسی گراوٹ اور تیز باؤلنگ کے زمرے میں قحط الرجال ہی وہ بنیادی عناصر ہیں جن کی وجہ سے عرصہ دو سال سے پاکستان کا اسپن گیند بازی پر انحصار بڑھ گیا ہے۔

جہاں تک میں ذاتی طور پر کرکٹ کو سمجھتا ہوں، میری نظر میں اسپنرز کسی بھی ٹیم کے سٹرائیک باؤلر نہیں ہوسکتے۔ اسپنرز گیندباز چاہے تاریخ کا عظیم گیندبازشین وارن ہو، یا مرلی دھرن، یا برصغیر پاک و ہند کے انیل کمبلے، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور ہربھجن سنگھ یا پھر دورِ جدید کے ڈینیٹل ویٹوری، گریم سوان اور سعید اجمل، ان تمام عظیم اسپنرز کو حریف بلے باز کا شکار کرنے کے لیے ”فنکاری“ کے ساتھ ساتھ ایک اور ہتھیار کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس کا نام ہے ”دباؤ“۔ یہ دباؤ کا ہتھیارمختلف صورت میں ہوسکتا ہے، کبھی یہ ایک پہاڑ جیسا اسکور کا مجموعہ ہوتا ہے، کبھی بیس اور تیس اوورز کے لمبے اسپیل ہوتے ہیں، کبھی سازگار پچ تو حریف بلے بازوں کو کبھی تیزی سے رنز بنانے کی ضرورت، یا کبھی دوسرے اینڈ سے ایک تیز گیند باز کا خطرناک اسپیل۔ اگرایک اسپنر سے دباؤ کا ہتھیار لے لیا جائے تو وہی اسپنرجس کو ایک اوور قبل تک کھیلنا ناممکن ہوتا ہے، اگلے اوور میں اسے لگاتار چار چھکے لگ سکتے ہیں۔ لیکن اسپنرز کے مقابلے میں تیز گیندباز کی رفتار ہی بلے باز کو دباؤ میں لانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ وہی آپ کو کسی بھی وقت وکٹ دلاسکتا ہے جبکہ اسپنرکو سازگار حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔

گو کہ پاکستان کی بلے بازی ہمیشہ ناقابل اعتبار رہی ہے لیکن ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے اہم ترین مرحلے سپر 8 سے قبل پاکستان کے لیے نیک شگون ہے کہ کپتان محمد حفیظ بروقت فارم میں واپس آئے ہیں اور عمران نذیر کی بنجر بلا بالآخر رنز سے سیراب ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف مقابلے سےپاکستانی اوپنرز کو جو اعتماد حاصل ہواہے وہ ممکنہ طور پر آئندہ مشکل مقابلوں میں کافی سود مند ثابت ہوگا۔ پھر ون ڈاؤن پوزیشن پر ناصر جمشید اور کامران اکمل کی حالیہ مقابلوں میں عمدہ بلے بازی اور ساتھ ساتھ شعیب ملک کے بھرپور ساتھ کے باعث ایک طویل عرصے بعد پہلی بار پاکستان کی بلےبازی انتہائی مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی کہ جو شعبہ ہماری کامیابیوں کی پہچان ہے وہی دردسربنتا ہوا نظرآرہا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان پر یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ ہم تن تنہا سعید اجمل کے ذریعے ایک میچ جیت سکتے ہیں، لیکن پوری سیریز یا عالمی سطح کے ٹورنامنٹ کی جیت کے لیے کسی ایک کھلاڑی یا اسپن باؤلنگ پر مکمل انحصار کرنا پرلے درجے کی بے وقوفی ہوگی۔ پاکستان ٹیم کےباؤلنگ کوچ محمداکرم کے پاس اپنی صلاحیتیں دکھانے کا بہترین موقع ہے۔ محمد اکرم کے پاس جو گیندباز ہیں انہیں باؤلنگ نہیں سکھانی، صرف منصوبہ بندی میں ان کی رہنمائی کرنی ہے۔

دوسری طرف تجربہ کار عمر گل، سہیل تنویر، اور یاسرعرفات کے علاوہ محمدسمیع کو اپنے اسپنرز کی مدد کے لیے آگے آناہوگا۔ لیکن تیز گیند کا ہتھیار اسی صورت میں کارگر ہو سکتا ہے جب اسے عقل سےاستعمال کیا جائے۔ اس لیے محمد اکرم کو قومی تیز باؤلرز کو ”پورس کے ہاتھی“ بننے سے روکنا ہوگا۔