ناقص فیلڈنگ مہنگی پڑ گئی، افغانستان تجربہ کار بھارت کو زیر نہ کر سکا

0 1,462

افغانستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء میں اپنے پہلے ہی معرکے میں ناقص فیلڈنگ کا خمیازہ میچ گنوانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بھلا خود ہی سوچئے کہ یووراج سنگھ، ویراٹ کوہلی اور سریش رینا جیسے جانے مانے بلے بازوں کو اننگز کے ابتدائی مرحلے ہی میں کیچ چھوڑ کر زندگی دینے کا نتیجہ کسی بھی ٹیم کے لیے کیا نکل سکتا ہے؟ شکست اور کیا؟ افغانستان نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ باؤلرز کی ابتدائی محنت کے نتیجے میں بھارت پر جو دباؤ قائم ہوا، افغان فیلڈرز کی گیند پر ہلکی گرفت نے اسے ختم کر دیا۔ لیکن پانچ مواقع ملنے کے باوجود ٹورنامنٹ کی سب سے بہترین بیٹنگ لائن اپ قرار دیے جانے والے بھارت کا اسکور 159 رنز تک ہی پہنچ پایا۔ جواب میں افغانستان 136 رنز پر ڈھیر ہو گیا اور 23 رنز سے شکست اس کا مقدر ٹھیری۔

یووراج سنگھ کی بروقت تین وکٹوں نے افغان پیشرفت کے آگے بند باندھے (تصویر: Getty Images)
یووراج سنگھ کی بروقت تین وکٹوں نے افغان پیشرفت کے آگے بند باندھے (تصویر: Getty Images)

160 رنز کے ہدف کے تعاقب میں افغانستان نے آغاز بہت عمدگی سے کیا اور 52 رنز تک اسے صرف ایک کھلاڑی ہی کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ خصوصاً تین اوورز میں محمد شہزاد کے چوکوں نے میدان میں موجود چند افغان تماشائیوں کو بہت محظوظ کیا۔ یہاں تک کہ لکشمی پتھی بالاجی نے اپنے پہلے اوور کی آخری گیند پر انہیں مڈ آن پر کیچ آؤٹ کرا دیا۔ وہ 16 گیندوں پر 18 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ کپتان نوروز منگل دوسرے اینڈ سے عمدگی سے بلے بازی کرتے دکھائی دے رہے تھے اور انہوں نے پاور پلے کی آخری گیند پر بالاجی کو ایک حیران کن چھکا بھی رسید کیا۔

مہندر سنگھ دھونی روہیت شرما کو باؤلنگ کے لیے لائے تو ان کے پہلے ہی اوور میں 10 رنز لوٹے گئے اور افغانستان صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 52 رنز تک پہنچ چکا تھا۔ یہ صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی تھی لیکن سرطان کو شکست دے کر حال ہی میں دنیائے کرکٹ میں واپس آنے والے یووراج سنگھ نے پہلی ہی گیند پر نوروز کو باہر کا راستہ دکھا دیا اور یہیں سے مقابلے پر افغانستان کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ افغانستان نے پوری کوشش کی کہ کسی اوور میں 6 سے کم رنز نہ بنائیں اور اس کی مدد سے وہ اسکور کو 11 اوور میں 74 تک لے گئے۔ یہاں یووراج سنگھ نے دو مسلسل گیندوں پر کریم صادق اور اصغر ستانکزئی کو آؤٹ کر کے افغانستان کی جیت کے موہوم سے امکانات بھی ختم کر دیے۔ نوروز نے 18 گیندوں پر 22 رنز بنائے اور اصغر صرف 6 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔

اگلے اوور میں روی چندر آشون نے سمیع اللہ شنواری کی وکٹ حاصل کر کے افغانستان کی ناتجربہ کاری و کمزوری عیاں کر دی کہ ان میں بڑے میچز میں دباؤ کو برقرار رکھنے کا مادہ ابھی نہیں پایا جاتا۔پھر بھی یووراج سنگھ جنہوں نے ابتدائی تین اوورز میں تین وکٹیں سمیٹ کر افغانستان کی پیشرفت کو سب سے بڑا دھچکا پہنچایا، آخری اوور میں محمد نبی اور شفیق اللہ کےعتاب کا نشانہ بنے جنہوں نے ایک، ایک مرتبہ گیند کو چھکے کی راہ دکھائی اور اس اوور میں افغانستان کے لیے 13 رنز لوٹے۔محمد نبی نے عرفان پٹھان کو بھی اک خوبصورت چوکا رسید کیا لیکن شفیق اللہ آخری گیند پر امپائر اسد رؤف کے ناقص فیصلے سے نہ بچ پائے جنہوں نے بلے باز کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار دیا حالانکہ گیند ان کے بلے کو چھوتے ہوئے گئی تھی۔ شفیق اللہ نے 9 گیندوں پر 8 رنز بنائے۔

ان حالات میں بھی کہ جب 100 رنز پر افغانستان کے 6 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور اسے 12 رنز فی اوور کا اوسط درکار تھا، خوف کا شائبہ تک افغان کھلاڑیوں میں نہیں دکھائی دیتا تھا۔ محمد نبی نے ظہیر خان کو ایک خوبصورت چھکا رسید کیا اور پھر گیند کو چوکے کی راہ دکھا کر میچ کو دلچسپ مرحلے میں داخل کر دیا۔ 24 گیندوں پر افغانستان کو 44 رنز درکار تھے اور دھونی نے 17 واں اوور آشون کو تھمایا۔ انہوں نے اپنے ایکشن میں تبدیلی کر کے بالآخر پانچویں گیند پر محمد نبی کو جا لیا۔ وہ گیند پھینکنے کے دوران ایک لمحے کے لیے رکے، محمد نبی کی پوزیشن کا جائزہ لیا اور پھر پھینکی اور اس ہوشیاری سے آگے بڑھ کر کھیلنے والے محمد نبی درست انداز میں آگاہ نہ ہو سکے اور مڈآف پر روہیت شرما کو کیچ دے بیٹھے۔ انہوں نے 17 گیندوں پر 31 رنز کی خوبصورت اننگز کھیلی۔

زخمی گلبدین نائب، جن کی ران میں تکلیف تھی، توقع کے عین مطابق محض 5 رنز بنانے کے بعد رن آؤٹ ہی ہوئے۔ 19 ویں اوور کی آخری دو گیندوں پر دولت زدران نے عرفان پٹھان کو دو چوکے رسید کیے اور آخری اوور میں افغانستان کو فتح سے 24 قدم کے فاصلے پر پہنچا دیا۔ بالاجی نے مسلسل دو گیندوں پر گلبدین نائب اور دولت زدران کو آؤٹ کر کے میچ کا خاتمہ کر دیا۔ افغان اننگز کا خاتمہ آخری اوور کی تیسری گیند پر ہوا جب اسکور بورڈ پر 136 کا ہندسہ جگمگا رہا تھا ۔

بھارت کی جانب سے یووراج سنگھ اور لکشمی پتھی بالاجی نے 3،3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ آشون کو 2 اور عرفان پٹھان کو ایک وکٹ ملی۔ اسٹرائیک باؤلر ظہیر خان بہت مہنگے اور ناکام ثابت ہوئے۔ ان کے تین اوورز میں افغان بلے بازوں نے 32 رنز سمیٹے اور کوئی وکٹ بھی نہ لینے دی۔

قبل ازیں ٹاس جیت کے باؤلنگ کا فیصلہ کرنے والے افغانستان کے گیند بازوں کی تمام تر محنت پر فیلڈرز نے پانی پھیر دیا۔ شاپور زدران نے ابتداء ہی میں گوتم گمبھیر اور وریندر سہواگ کی جوڑی کو پویلین لوٹا کر سنسنی پھیلا دی ۔ افغانستان کی گیند بازی اور فیلڈنگ میں ناتجربہ کاری بہت واضح طور پر جھلک رہی تھی لیکن زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کا ابتداء ہی سے بھارتی بلے باز جدوجہد کرتے دکھائی دیے۔ ابتدائی دو اوورز میں 'بلّے ملنے' میں ناکامی کے بعد بالآخر تیسری اوور کی پہلی ہی گیند پر گمبھیر کی اننگز تمام ہوئی۔ وہ شاپور کی ایک گیند کو کھیلنے کی کوشش میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ گیند ان کے بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی درمیانی اسٹمپ میں گھس گئی۔ ان فارم ویراٹ کوہلی میدان میں آئے تو ماسٹر بلاسٹر وریندر سہواگ شاپور کے اگلے اوور ہی پہلی گیند پر پویلین سدھار گئے۔ وہ روایتی انداز میں بغیر قدموں کا استعمال کیے ایک باہر جاتی گیند کو کھیلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ ان کے بلے کو چھوتی ہوئی سیدھا وکٹ کیپر کے دستانوں میں چلی گئی۔ بھارت صرف 22 پر اپنے دونوں اوپنرز سے محروم ہو چکا تھا۔

شاپور زدران نے دونوں بھارتی اوپنرز کو ٹھکانے لگا کر سنسنی پھیلا دی (تصویر: AFP)
شاپور زدران نے دونوں بھارتی اوپنرز کو ٹھکانے لگا کر سنسنی پھیلا دی (تصویر: AFP)

اب میدان میں یووراج سنگھ اترے۔ ٹھیک پانچ برس پہلے آج ہی کے دن انہوں نے انگلش باؤلر اسٹورٹ براڈ کو جنوبی افریقہ میں مسلسل چھ گیندوں پر چھ چھکے رسید کیے تھے اور اب وہ سرطان جیسے مرض کو شکست دینے کے بعد ایک مرتبہ پھر کرکٹ کے میدانوں میں موجود ہیں۔ اتنے نے پہلے ہی اوور میں شاپور کو چھکا لگا کر کچھ پرانی جھلک دکھلائی لیکن دوسرے اینڈ پر کوہلی کی موجودگی میں وہ کچھ بجھے بجھے دکھائی دیے۔

انہی دونوں کی شراکت کے دوران افغانستان نے فیلڈنگ میں اپنے "کارناموں" کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے فائدہ سمیٹنے والے خود یووراج تھے جنہیں 17 کے اسکور پر اس وقت زندگی ملی جب محمد نبی کی ایک گیند کو باؤلر کے اوپر سے کھیلنے کی کوشش کی جو ان کے بائیں جانب سے گزری، کوشش تو خوب کی لیکن گیند پر قابو نہ پا سکے اور کیچ گنوا بیٹھے۔گو کہ یہ ایک مشکل کیچ ہوتا، پھر بھی 'یووی' نے سکھ کا سانس لیا لیکن زیادہ دیر انہیں یہ سانس نصیب نہ ہوا اور اگلے اوور کی پہلی ہی گیند پر یووراج سنگھ کریم صادق کو وکٹ دے بیٹھے۔ ان کا قصہ صرف 18 رنز پر تمام ہوا لیکن انہوں نے کوہلی کے ساتھ مل کر تیسری وکٹ پر 46 قیمتی رنز کا اضافہ ضرور کیا۔

اس موقع پر افغانستان کو ضرورت تھی کہ وہ نپی تلی گیند بازی اور عمدہ فیلڈنگ کے ذریعے مقابلے پر گرفت مضبوط کرتا لیکن اس نے یہ موقع گنوایا۔ اگلے اوور میں انہوں نے سریش رینا کا ایک انتہائی آسان کیچ چھوڑ کر انہیں ایک اچھی اننگز کھیلنے کا موقع اپنے ہاتھوں سے فراہم کیا۔ اسی پر بس نہیں بلکہ کریم صادق کی جانب سے پھینکے گئے اننگز کے 13 ویں اوور میں سمیع نے نہ صرف یہ کہ وائیڈ لانگ آن پر کیچ چھوڑا بلکہ اس کے نتیجے میں کوہلی کو اک چھکا بھی تحفتاً ملا۔

ان مواقع کا دونوں بلے بازوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ شاپور زدران کی جانب سے پھینکے گئے اپنے آخری اوور میں انہوں نے تین چوکوں کی مدد سے 14 رنز لوٹے جبکہ سمیع اللہ شنواری کی گیند پر رینا کو ایک اورزندگی ملی۔ بلے کا کنارہ لے کر ہوا میں اٹھتی ہوئی گیند بارہویں کھلاڑی کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے زمین پر آ رہی۔

پھر بھی50 رنز مکمل کرنے کے بعد کوہلی کو پویلین لوٹنا پڑا، جب وہ دولت زدران کی گیند پر لانگ آف کو کیچ دے بیٹھے۔ انہوں نے صرف39 گیندیں کھیلیں اور دو چھکے اور 4 چوکے لگائے۔اب سریش ریناکا ساتھ دینے کے لیے کپتان مہندر سنگھ دھونی میدان میں آئے۔ بھارت نے حریف گیند بازوں کی فاضل رنز دینے کی صورت میں فیاضی اور ناقص فیلڈنگ کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور آخری اوور میں رینا کی وکٹ گرنے کے باوجود 159 رنز بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ رینا 33 گیندوں پر 38 رنز بنا کر محمد نبی کی وکٹ بنے۔ دھونی نے اننگز کی آخری دو گیندوں پر چوکااور چھکا رسید کر کے اسکور میں 10 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ وہ 9 گیندوں پر 18 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔

شاپور زدران 33 رنز دے کر 2 وکٹوں کے ساتھ کامیاب ترین باؤلر رہے جبکہ ایک، ایک وکٹ دولت زدران، کریم صادق اور محمد نبی کو ملی۔

ویراٹ کوہلی کو نصف سنچری پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب بھارت 23 ستمبر کو انگلستان کے خلاف اپنا اہم ترین گروپ میچ کھیلے گا جبکہ افغانستان 21 ستمبر کو کولمبو میں اسی حریف کا سامنا کرے گا۔