واٹسن نے آسٹریلیا کو سپر 8 میں پہنچا دیا، ویسٹ انڈیز زیر

0 1,068

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے پانچویں روز پہلی بار پائے کی ٹیمیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں لیکن بدقسمتی سے بارش نے بھی اسی روز کو چن رکھا تھا۔ اس نے پہلے جنوبی افریقہ –سری لنکا معرکے کے "رنگ میں بھنگ" ڈالا اور پھر کئی نشیب و فراز لینے کے بعد اک سنسنی خیز اختتام کی جانب گامزن آسٹریلیا-ویسٹ انڈیز مقابلے کو عین اس وقت گھیر لیا جب آسٹریلیا کو 65 گیندوں پر 93 رنز کی ضرورت تھی۔ بارش اس قدر زیادہ ہوئی کہ پھر مقابلے کا انعقاد نہ ہو سکا اور ڈک ورتھ لوئس کے قانون کے تحت آسٹریلیا کو فاتح قرار دے دیا گیا۔

شین واٹسن کی تین چھکوں سے مزین 41 رنز کی اننگز بارش سے قبل ہی اپنا کام کر چکی تھی (تصویر: AFP)
شین واٹسن کی تین چھکوں سے مزین 41 رنز کی اننگز بارش سے قبل ہی اپنا کام کر چکی تھی (تصویر: AFP)

اس مقابلے میں ویسٹ انڈیز، جسے پہلی بار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے فیورٹ ترین ٹیموں میں شمار کیا جا رہا ہے، متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر پاکستان کے ہاتھوں زخمی آسٹریلیا کے مدمقابل تھا۔ اک ایسا مقابلہ جس میں میزبان ٹیم کے نہ ہونے کے باوجود ہزاروں تماشائی پریماداسا اسٹیڈیم، کولمبو میں موجود تھے اور کیوں نہ موجود ہوتے؟ دنیائے ٹی ٹوئنٹی کے سب سے شعلہ فشاں بلے باز کرس گیل جو کھیل رہے تھے۔ ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو تماشائیوں کے فلک شگاف نعروں میں کرس میدان میں اترے۔ ابتدائی تین اوورز تک غرب الہند کی ٹیم سخت جدوجہد کرتی دکھائی دی۔جس کے دوران اسے ڈیوین اسمتھ کی وکٹ بھی گنوانا پڑی جو دوسرے اوور میں محض 2 رنز بنانے کے بعد نوجوان گیند باز مچل اسٹارک کی ایک بہت ہی خوبصورت گیند پر بولڈ ہوئے۔ یہ بالکل وہی گیند تھی جس پر اسٹارک نے حال ہی میں پاکستان کے خلاف سیریز میں عمران نذیر کو بولڈ کیا تھا۔ آف اسٹمپ کے تھوڑا سے باہر ٹپہ پڑتے ہی یہ گیند دائيں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے بلےباز کے لیے اندر کی جانب آئی اور آف اسٹمپ کو اڑا گئی۔

محض 9 رنز پر پہلی وکٹ گرنے کے بعد ویسٹ انڈین بلے کچھ دیر کے لیے محتاط ہو گئے۔ پیٹرک کمنز کی جانب سے پھینکا گیا تیسرا اوور تو نئے آنے والے بلے باز جانسن چارلس میڈن کھیل گئے لیکن اسٹارک کا اگلا اوور بہت ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ اننگز کے اس چوتھے اوور میں کرس گیل نے ایک بہت باہر جاتی ہوئی گیند کو کھیلنے کی کوشش کی اور گیند ہوا میں تن گئی۔ شین واٹسن تھرڈمین سے دوڑتے ہوئے کیچ لینے کے لیے آئے اور جست لگاتے ہوئے کیچ کو چھوڑ بیٹھے۔ واٹسن ایسے کیچ عموماً لیتے رہتے ہیں اور کم از کم ان کے لیے تو یہ ہر گز مشکل موقع نہ تھا۔ تماشائی، جن کی بڑی تعداد ویسٹ انڈیز کی حامی تھی، خوشی سے اچھل پڑی اور آسٹریلوی کھلاڑیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ گیل جیسے بلے باز کا اس وقت کیچ چھوڑنا جب وہ محض 4 رنز پر تھے، بہت مہنگا پڑ سکتا تھا۔ کچھ قیمت تو اسی اوور میں اسٹارک کو بھگتنی پڑی جنہیں آخری دو گیندوں پر چارلس کے ہاتھوں ایک چھکا اور ایک چوکا سہنا پڑا۔

یوں زندگی ملنے کے بعد گیل کے بلے نے آگ اگلنا شروع کر دی۔ پیٹرک کمنز کی جانب سے پھینکے گئے اننگز کے پانچویں اوور میں گیل نے تین گیندوں کو چوکے اور ایک کو چھکے کی راہ دکھائی۔ 18 رنز پڑنے کے بعد کمنز کے علاوہ جو سب سے مایوس چہرہ آسٹریلوی فیلڈ میں موجود تھا وہ شین واٹسن کا تھا، جو ہر شاٹ کے ساتھ خود کو کوستے دکھائی دے رہے تھے۔

بہرحال، ڈین کرسچن نے 47 کے مجموعے پر چارلس کو ٹھکانے لگا کر کچھ سکھ کا سانس ضرور فراہم کیا۔ چارلس اچانک اٹھ کر آتی ہوئی گیند کو نہ سمجھ پائے اور گیند ان کے دستانوں کو چھوتی ہوئی وکٹوں میں جا گھسی۔ 12 گیندوں پر 2 چوکوں اور ایک چھکے سے مزین 16 رنز کی اننگز کا خاتمہ ہوا۔ لیکن گیل کا طوفان تندو تیز ہوتا جا رہا تھا۔ انہوں نے بریڈ ہوگ کے پہلے ہی اوور میں ایک چھکا اور گلین میکس ویل کے پہلے اوور میں دو چھکے اور ایک چوکا لگا کر میدان گرم کر رکھا تھا۔ آخر الذکر چوکا گو کہ ان کی مرضی سے نہيں لگا تھا اور گیند ان کے بلے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی میدان بدر ہوئی لیکن 26 گیندوں پر ان کی نصف سنچری ضرور مکمل کرا گیا۔ نئے بلے باز مارلون سیموئلز نے بھی کچھ ہاتھ کھولنے کی کوشش کی اور اسی دوران اننگز کے نصف یعنی 10 اوورز مکمل ہوئے۔ ویسٹ انڈیز 93 رنز کے ساتھ انتہائی مضبوط پوزیشن میں تھا کہ دوسرا نصف حصہ شروع ہوتے ہی شین واٹسن نے کرس گیل کو ٹھکانے لگا کر کفارے کی ادائیگی کر دی۔ گیند کو لیگ سائیڈ پر کھیل کر ایک رن لینے کی کوشش گیل کو مہنگی پڑ گئی کیونکہ گیند بلے کا بالائی کنارہ لے کر ہوا میں اچھلی اور واٹسن نے بالآخر 50 رنز کے زبردست خسارے کے بعد با آسانی گیند کو تھام لیا۔

کرس گیل محض 33 گیندوں پر 4 چھکوں اور 5 چوکوں کی مدد سے54 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب ذمہ داری مارلون سیموئلز کے سر تھی جنہوں نے اسے بخوبی نبھایا۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ 10 رنز سے زائد کا اوسط برقرار رہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ڈین کرسچن، بریڈ ہوگ اور شین واٹسن کے پھینکے گئے تین اوورز پر ہاتھ صاف کیا۔ انہوں نے اننگز کے پندرہویں اوور میں واٹسن کو دو خوبصورت چھکے رسید کیے لیکن اگلے اوور میں نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد لانگ آن پر دھر لیے گئے۔ انہوں نے صرف 32 گیندوں پر 4 چھکوں اور 3 چوکوں سے 50 رنز بنائے۔

اب پاور ہٹنگ میں ویسٹ انڈیز کے دوسرے مایہ ناز بلے باز کیرون پولارڈ میدان میں اترے۔ لیکن وہ صورتحال کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور محض 10 رنز بنانے کے بعد مائیکل ہسی کے ڈیپ مڈوکٹ پر ایک بہت خوبصورت کیچ کا نشانہ بن گئے۔ بعد ازاں ڈیوین براوو، ڈیرن سیمی اور دنیش رام دین کی وکٹیں گرنے کے باوجود ویسٹ انڈیز حتمی دو اوورز میں 26 رنز حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور 191 رنز کے زبردست مجموعے تک پہنچ ہو گیا۔

آسٹریلیا کے گیند باز بڑی حد تک ناکام رہے۔ گیل، سیموئلز اور براوو کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ پھر بھی نوجوان اسٹارک نے متاثر کیا جنہوں نے مقررہ 4 اوورز میں 3 وکٹیں حاصل کیں۔ دو وکٹیں شین واٹسن کو ملیں جبکہ ایک، ایک کھلاڑی کو کمنز، کرسچن اور ہوگ نے آؤٹ کیا۔

آسٹریلیا کو 192رنز کے ہمالیہ جیسے ہدف تک پہنچنے کے لیے کچھ خاص کر دکھانے کی ضرورت تھی اور اس کا تمام تر انحصار ابتدائی وکٹ کی شراکت پر تھا۔ ڈیوڈ وارنر اور شین واٹسن میدان میں آئے اور آتے ہی ویسٹ انڈیز کے کمزور شعبے یعنی باؤلنگ پر ہاتھ صاف کر ڈالا۔ پہلے اوور میں 8 رنز بنانے میں کامیابی کے بعد روی رامپال وارنر کے ہاتھوں سخت ہزیمت سے دوچار ہوئے۔ پہلی ہی گیند پر وارنر نے اپر کٹ کھیلتے ہوئے گیند کو براہ راست تھرڈمین باؤنڈری کے باہر پہنچایا جبکہ تیسری گیند مڈ آف پر چوکے اور چوتھی گیند ڈیپ اسکوائر لیگ پر چھکے کے لیے پہنچی۔ رامپال سر پکڑ کر کھڑے ہو گئے، 'مرے ہوئے پر سو درّے 'ان سے اگلا گیند نو بال ہو گیا، جس پر ملنے والی فری ہٹ بھی چوکے کی صورت میں نکل گئی۔ ان 22 رنز نے دو اوورز میں اسکور کو 30 تک پہنچا دیا۔

اس مقام پر فیڈل ایڈورڈز نے وارنر کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ کراکے پہلے خطرے کو ٹال دیا۔ گو کہ وارنر امپائر اسد رؤف کے فیصلے سے ہر گز خوش نہ دکھائی دیتے تھے لیکن انہیں بہرحال میدان سے لوٹنا پڑا۔ لیکن یہ وارنر کی رامپال پر کی گئی چڑھائی ہی تھی جس نے آسٹریلیا کو ابتدائی تحریک فراہم کی۔ یوں وہ اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھا گئے۔

'مسٹر کرکٹ' مائیکل ہسی کو اپنی 'مرد بحران' کی خاصیت کے باعث ون ڈاؤن پوزیشن پر بھیجا گیا اور انہوں نے کیا کمال خوبی سے اس ذمہ داری کو نبھایا۔ انہوں نے ویسٹ انڈین باؤلنگ کی کمزوری کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور دوسرے اینڈ پر کھڑے شین واٹسن کی مدد سے ہر اس گیند کو میدان بدر کیا، جو اس قابل دکھائی دیتی تھی۔ پہلے ہی اوور میں ایڈورڈز کو لگایا گیا چوکا ہو یا حریف کپتان ڈیرن سیمی کو لانگ آن پر ایک بلند و بالا چھکا یا پھر واٹسن کے ہاتھوں فری ہٹ پر سنیل نرائن کو رسید کیا گیا چھکا، آسٹریلیا رحم کے موڈ ہی میں دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس کے رنز بنانے کی رفتار ہمہ وقت مطلوبہ اوسط سے زیادہ رہی۔

پھر اننگز کا وہ اوور آیا، جہاں سے مقابلہ مکمل طور پر ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ڈیرن سیمی نے شراکت داری توڑنے کے لیے مارلون سیموئلز کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، جو بعد ازاں بہت مہنگا ثابت ہوا۔ واٹسن نے اوور کی مسلسل چار گیندوں کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔ تیسری اور آخری گیند چوکے جبکہ چوتھی اور پانچویں گیند چھکے پر منتج ہوئی۔ پانچویں گیند اس لیے زیادہ اہم اور فیصلہ کن تھی کیونکہ اس پر ڈیپ مڈ وکٹ پر ڈیرن اسمتھ نے واٹسن کا ایک آسان کیچ نہ صرف چھوڑا بلکہ وہ ان کے ہاتھ سے لگنے کے بعد رسی کے باہر جا کر گرا۔ ایک ہی اوور میں 22 رنز نے آسٹریلیا کو فیصلہ کن برتری دلا دی اور اگلے اوور میں مائیکل ہسی کے چوکے کی مدد سے بننے والے 8 رنز بھی کافی ثابت ہوئے کیونکہ پھر میدان کو بارش نے آ لیا اور 10 ویں اوور میں پہلی گیند پر ایک رن لے کر جیسے ہی اسکور تہرے ہندسے میں داخل ہوا۔ امپائروں نے موسلا دھار بارش کے باعث میچ کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

ڈک ورتھ لوئس طریق کار کے تحت 9.1 اوورز میں آسٹریلیا کا مجموعہ 83 رنز ہونا چاہیے تھا، جبکہ وہ 100 رنز پر موجود تھا۔ یوں آسٹریلیا کو 17 رنز سے فاتح قرار دیا گیا۔

ویسٹ انڈیز کے باؤلرز اتنے بڑے ہدف کے دفاع میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ فیڈل ایڈورڈز نے 2 اوورز میں 16 رنز کھائے اور گرنے والی واحد وکٹ انہی کے ہاتھ لگی۔ جبکہ دوسرے اسٹرائیک باؤلر روی رامپال کے صرف1.1 اوور میں 23 رنز پڑے۔ مارلون سیموئلز نےایک اوور میں 22، ڈیرن سیمی نے دو اوور میں 15 اور سنیل نرائن نے دو اوور میں 16 رنز دیے اور یہ تمام کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔

شین واٹسن کو محض 24 گیندوں پر 41 رنز اور دو قیمتی وکٹیں حاصل کرنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

یوں آسٹریلیا دونوں گروپ مقابلوں میں فتح کے بعد با آسانی سپر 8 مرحلے میں پہنچ گیا ہے جبکہ ویسٹ انڈیز کو پیر 24 ستمبر کو آئرلینڈ کے خلاف آخری گروپ مقابلے میں لازماً فتح حاصل کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر آئرلینڈ غیر متوقع طور پر اگلے مرحلے میں پہنچ جائے گا اور فیورٹ سمجھا جانےوالا ویسٹ انڈیز پہلےہی مرحلے میں باہر ہوگا۔