انگلستان کی فتح، عالمی کپ میں امیدیں برقرار، بنگلہ دیش سولی پر

1 1,040

عالمی کپ 2011ء میں انگلستان کا مقابلہ ہو، اور سنسنی خیز نہ ہو؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔ انگلستان نے مسلسل چھٹے میچ میں اپنے تماشائیوں کو آخری لمحات تک سولی پر لٹکائے رکھا اور بالآخر آخری گروپ میچ میں ویسٹ انڈیز کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 18 رنز سے شکست دے کر عالمی کپ میں اپنی امیدوں کو برقرار رکھا ہے۔ لیکن اس کی اس فتح نے بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیزکو مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے، جن کے لیے اگلے مقابلے جیتنا ضروری ہیں اور شکست کی صورت میں دونوں میں سے ہی ایک رن ریٹ کی بنیاد پر آگے جائے گا۔

جیمز ٹریڈویل جنہوں نے انگلستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا (اے ایف پی)

اس میچ میں انگلستان کی شکست کا مطلب تھا کہ ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش عالمی کپ کے اگلے مرحلے کے لیے کوالیفائی کر جائیں گے اور ویسٹ انڈیزکے اننگ کے 42 ویں اوور تک ایسا ہی لگتا تھا جب کالی آندھی کو فتح کے لیے 48 گیندوں پر 22 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی چار وکٹیں باقی تھیں۔ رامنریش سروان 30 اور اپنا دوسرا میچ کھیلنے والے آندرے رسل 49 پر کھیل رہے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ویسٹ انڈیز کی آخری چار وکٹیں محض تین رنز کے اضافے سے گر جائیں گی۔

ویسٹ انڈین بیٹنگ لائن اپ کی دیوار کو آخری دھکا لگانے کا آغاز جیمز ٹریڈویل نے اپنے آخری اوور میں رسل کو ٹھکانے لگا کر کیا جنہیں دو اوور قبل ہی ایک زندگی ملی تھی جب ان کا کیچ لیتے ہوئے جوناتھن ٹراٹ گر گئے اور ٹی وی ری پلے سے بھی صاف ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ وہ باؤنڈری لائن سے ٹکرائے ہیں یا نہیں البتہ غالب امکان کے پیش نظر امپائر نے اسے چھکا قرار دیا لیکن ٹریڈویل نے انہیں نصف سنچری مکمل کرنے سے قبل ہی وکٹوں کے سامنا جا لیا۔ رسل نے 3 چھکوں اور 2 چوکوں کی مدد سے 46 گیندوں پر 49 رنز کی اننگ کھیلی اور ڈوبتی ہوئی کشتی کو سہارا دیا۔ ان کے آؤٹ ہوتے ہی ویسٹ انڈین بلے باز حد سے زیادہ محتاط ہو گئے اور دو اوورز میں محض ایک رن بنایا۔ اسی بے جا احتیاط کا فائدہ گریم سوان نے اٹھایا جنہوں نے 44 ویں اوور میں رامنریش سروان (31) اور کیمار روچ (صفر) کو پویلین کا راستہ دکھا کر میچ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔

اب ویسٹ انڈیز کے پاس محض ایک وکٹ تھی جبکہ منزل 19 قدموں کے فاصلے پر تھی لیکن دو رنز دوڑنے کی کوشش میں سلیمان بین جوناتھن ٹراٹ کی اک خوبصورت تھرو پر رن آؤٹ ہو گئے اور میچ کا فیصلہ ہو گیا کہ عالمی کپ میں انگلستان کی امیدیں اب بھی زندہ ہیں۔

قبل ازیں ویسٹ انڈیز نے 244 رنز کے ہدف کا تعاقب شروع کیا تو کرس گیل (43رنز ) اور کپتان ڈیرن سیمی (41) کی شعلہ فشاں اننگز کی بدولت وہ فتح کی سمت رواں دکھائی دیتا تھا لیکن ان کا واحد مسئلہ وقفے وقفے سے وکٹیں گرنا تھا۔ خصوصا ڈیرن براوو (5) اور ڈیوون تھامس (9) کی جلد وکٹیں گر جانا ان کے لیے سخت نقصان کا باعث بنا۔ اب تمام تر ذمہ داری رامنریش سروان اور کیرون پولارڈ پر تھی۔ پولارڈ (24 رنز) نے روایتی انداز میں تیز اننگ کھیلی لیکن کئی مواقع پر خوش قسمتی کے باعث آؤٹ ہوتے ہوتے بچے لیکن اس کے باوجود وہ سبق حاصل نہ کر سکے اور گریم سوان کی دوسری وکٹ بن گئے۔

150 پر 6 وکٹیں گرنے کے بعد اپنا دوسرا میچ کھیلنے والے آندرے رسل میدان میں اترے۔ ویسٹ انڈیز سخت مشکل میں تھا لیکن انہوں نے بغیر کوئی دباؤ محسوس کیے تیز رفتاری سے کھیلنا شروع کیا اور سروان کے ساتھ مل کر اسکور کو 222 تک لے گئے۔ جس کےبعد وہ ہوا جس کی داستان اوپر درج ہے یعنی کہ ان کی وکٹ گرتے ہی بقیہ بلے باز اسکور میں محض 3 رنز کا اضافہ کر سکے اور میچ انگلستان جیت گیا۔انگلستان کی جانب سے جیمز ٹریڈویل نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا اور اپنے پہلے ہی عالمی کپ میچ میں چار اہم وکٹیں حاصل کیں۔ ان کے شکاروں میں ڈیوون اسمتھ، کرس گیل، ڈیرون براوو اور آندرے رسل کی اہم ترین وکٹیں شامل تھیں۔ گریم سوان نے بھی 3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں روی بوپارا کو ملیں۔

قبل ازیں انگلستان نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور جوناتھن ٹراٹ (47 رنز) اور کرس براڈ کی جگہ ٹیم میں شامل کیے جانے والے لیوک رائٹ (44 رنز) کی اننگز کی بدولت 243 رنز کا اچھا مجموعہ اکٹھا کیا۔ ایک موقع پر جب 151 پر انگلستان کی 6 وکٹیں گر گئی تھیں اس موقع پر رائٹ نے ٹم بریسنن کی مدد سے اک قابل دفاع ہدف تک لے جانے میں اہم کردار ادا کیا۔ البتہ انگلستان تمام 50 اوورز نہ کھیل سکا اور 49 ویں اوور میں آل آؤٹ ہو گیا۔

ویسٹ انڈیز کی جانب سے آندرے رسل نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور 4 وکٹیں حاصل کیں اور اپنا پہلا میچ کھیلنے والے دیوندر بشو کو 3 وکٹیں ملیں۔ بشو نے جوناتھن ٹراٹ، ایون مورگن اور لیوک رائٹ کی اہم ترین وکٹیں ٹھکانے لگائیں۔ کیمار روچ کے ہاتھ دو وکٹیں لگیں۔

جیمز ٹریڈویل کو شاندار باؤلنگ پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

یہ انگلستان کی ایک اور شاندار فتح تھی جو اس سے قبل بھارت کے خلاف مقابلہ ٹائی اور جنوبی افریقہ کو شکست دے چکا ہے لیکن آئرلینڈ اور بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیموں کے خلاف شکست کھا گیا۔ یہ تمام مقابلے انتہائی سنسنی خیز رہے اور یہی سنسنی خیزی آخری میچ میں بھی جاری رہی۔

انگلستان کی اس فتح کے بعد گروپ 'بی' میں صورتحال اور زیادہ گنجلک ہو گئی ہے جہاں سے سوائے جنوبی افریقہ کے ابھی تک کسی نے وہاں سے کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی نہیں کیا۔ انگلستان کے میچز ختم ہو چکے ہیں اور اس کے اگلے مرحلے تک پہنچنے کا تمام تر انحصار دوسرے میچز کے نتیجوں پر ہے۔ بنگلہ دیش کے لیے لازمی ہے کہ وہ آخری میچ میں جنوبی افریقہ کو شکست دے جبکہ ویسٹ انڈیز کو بھارت کو شکست دینی ہے۔ اگر جنوبی افریقہ بنگلہ دیش سے اپ سیٹ شکست کھا جاتا ہے تو انگلستان کا انحصار مکمل طور پر بھارت ویسٹ انڈیز مقابلے پر ہوگا جہاں ویسٹ انڈیز کی شکست اس کے لیے زندگی کا پروانہ ہوگی بصورت دیگر واپسی کی راہ۔ البتہ ویسٹ انڈیز شکست کے باوجود بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر اگلے مرحلے تک پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس وقت اس کا رن ریٹ گروپ 'بی' کی تمام ٹیموں سے بہتر ہے۔

بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے درمیان میچ 19 مارچ کو میرپور، ڈھاکہ میں کھیلا جائے گا جبکہ بھارت اور ویسٹ انڈیز کا معرکہ 20 مارچ کو چنئی میں ہوگا جو عالمی کپ کے پہلے مرحلے کا آخری میچ ہوگا۔

میچ کی جھلکیاں

بشکریہ ای ایس پی این اسٹار