بالآخر ویسٹ انڈیز جیت گیا، سیریز برابر

1 1,030

کئی بدترین شکستوں کے بعد بالآخر ویسٹ انڈیز نے فتح کا ذائقہ چکھ ہی لیا۔ گو کہ حریف بلے بازوں کی آخری مزاحمت اور بعد ازاں بارش کی وجہ سے آنے والے وقفوں نے انہیں خاصا پریشان کیا البتہ جب انہیں 93 رنز کا معمولی ہدف حاصل کرنے کا موقع ملا تو صرف 13.2 اوورز ہی میں اسے حاصل کرڈالا۔

آخری روز کرس گیل کی دھواں دار بیٹنگ کی بدولت ویسٹ انڈیز 'بلٹ ٹرین' پر سوار ہوکر فتح تک پہنچ گیا (تصویر: WICB)
آخری روز کرس گیل کی دھواں دار بیٹنگ کی بدولت ویسٹ انڈیز 'بلٹ ٹرین' پر سوار ہوکر فتح تک پہنچ گیا (تصویر: WICB)

پہلی اننگز میں 239 رنز کے خسارے میں جانے کے بعد نیوزی لینڈ اس وقت 8 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا جب اس کا مجموعہ صرف 212 رنز تک پہنچا تھا۔ اننگز کی شکست سامنے نظر آرہی تھی۔ اس مرحلے پر وکٹ کیپر بریڈلے-جان واٹلنگ اور مارک کریگ کی نویں وکٹ پر مزاحمت نے مہمان باؤلرز کو سخت پریشان کیا۔ دونوں 43 اوورز تک ڈٹے رہے اور 99 قیمتی رنز کا اضافہ بھی کیا۔ جب آخری روز میدان پر سیاہ بادل چھانے لگے اور ویسٹ انڈیز کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ پانی ان کے ارمانوں پر پڑ جائے گا توکیمار روچ نے خطرہ بنتی ہوئی شراکت داری کا خاتمہ کردیا اور کچھ ہی دیر میں نیوزی لینڈ کی دوسری اننگز 331 رنز پر اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ ویسٹ انڈیزکو جیتنے کے لیےصرف 93 رنز کا ہدف ملالیکن گیلے میدان اور بارش نے انہیں خاصی دیر تک اس سنگ میل تک پہنچنے سے محروم کیے رکھا۔ جب موقع ملا تو پھر کرس گیل کو روکنے والی کوئی قوت میدان میں نہیں تھی۔

گیل کی ٹی ٹوئنٹی اننگز صرف 46 گیندوں پر 80 رنز پر مشتمل تھی۔6 شاندار چھکے اور 7 چوکے ان کی اس باری کاحصہ تھے اور اسی کی بدولت محض 14 ویں اوور میں ویسٹ انڈیز ہدف تک پہنچ گیا۔یوں طویل طرز کی کرکٹ میں پے در پے بدترین شکستوں کے بعدسکون کا سانس فراہم کرنے والی 10 وکٹوں کی جیت ویسٹ انڈیز کو مل گئی۔

کوئنز پارک اوول، پورٹ آف اسپین میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور جیروم ٹیلر اور سلیمان بین کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ گو کہ ان کا آغاز برا نہیں تھا۔ ٹام لیتھ، کین ولیم سن اور روز ٹیلر نے خاصی اچھی بیٹنگ کی لیکن ٹام کی وکٹ گرنے کے بعد سلسلہ ایک دم بھی رکنے میں نہیں آیا۔ کہاں 146 رنز پر دو کھلاڑی آؤٹ اور کہاں 221 رنز پر اننگز کا ہی خاتمہ۔ اس معمولی اسکور میں بھی 82 رنز کا حصہ لیتھم کا تھا جبکہ ولیم سن نے 42 اور ٹیلر نے ناقابل شکست 45 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ نے محض 75 رنز کے اضافے سے اپنی آخری آٹھ وکٹیں گنوائیں اور شاید یہیں سے مقابلہ بھی گنوا دیا۔

ویسٹ انڈیز کی جانب سے جیروم ٹیلر نے 34 رنز دے کر 4 جبکہ سلیمان بین نے 73 رنز نے دے کر تین وکٹیں حاصل کیں۔ دو کھلاڑیوں کو شینن گیبریل نے جبکہ ایک کو کیمار روچ نے آؤٹ کیا۔

جواب میں ویسٹ انڈیز کا آغاز گو کہ بالکل بھی قابل ستائش نہیں تھا۔ پہلے دن کے آخری لمحات میں کرس گیل کی وکٹ گنوانے کے بعد اسے اگلے اوور کے ابتدائی اوورز میں نائٹ واچ مین سلیمان بین کی وکٹ بھی کھونا پڑی لیکن اس کے بعد بریتھویٹ اور کرک ایڈورڈز کی 93 رنز کی رفاقت نے اسے بہترین پلیٹ فارم عطا کیا اور یہیں سے ویسٹ انڈیز نے میچ پر گرفت مضبوط کرنا شروع کردی۔ ابھی ایڈورڈز 55 رنز بنا کر لوٹے ہی تھے کہ میچ کی سب سے بڑی اور فیصلہ کن شراکت داری کا آغاز ہوگیا۔ چوتھی وکٹ پر بریتھویٹ اور ڈیرن براوو کے درمیان 182 رنز کی شراکت، جس کے بعد نیوزی لینڈ ایک لمحے کے لیے بھی مقابلے میں واپس نہ آ پایا۔ ڈیرن براوو 155 گیندوں پر 109 رنز بنا کر اپنے ٹیسٹ کیریئر کی چھٹی سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ بریتھویٹ نےاپنی پہلی سنچری بنائی۔ وہ 129 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ نیوزی لینڈ نے شاید سکھ کا سانس لیا ہو، لیکن انہیں شاید پتہ نہ تھا کہ یہ سانس ان کے نصیب ہی میں نہیں ہے۔ آٹھویں وکٹ پر کہ جب نیوزی لینڈ کسی بھی وقت اننگز کی بساط لپیٹنے کی کوششوں میں تھا، پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے جرمین بلیک ووڈ کی 63 رنز کی شاندار اننگز اور کپتان دنیش رامدین کے ساتھ ملکر 76 رنز کا اضافہ مقابلے کو نیوزی لینڈ کی گرفت سے کہیں دور لے گیا۔ ویسٹ انڈیز کی اننگز 460 رنز پر مکمل ہوئی یعنی 239 رنز کی شاندار برتری، جو بعد ازاں نیوزی لینڈ کے لیے ہمالیہ ثابت ہوئی۔

دوسری اننگز کے ابتدائی لمحات میں ہی میں کپتان برینڈن میک کولم کی وکٹ گرجانے کے بعد تو شاید ہی کسی کو امید ہوگی کہ نیوزی لینڈ مقابلہ بچا پائے گا کیونکہ ابھی محض تیسرے دن کا کھیل جاری تھا۔ بہرحال، ٹام لیتھم نے کین ولیم سن کے ساتھ مل کر اپنی سی مواحمت کی اور جب ان دونوں کی 73 رنز کی ساجھے داری اختتام کو پہنچی تو کوئی ویسٹ انڈین باؤلنگ کے سامنے بند باندھتا نہ دکھائی دیتا تھا۔ اس سے پہلے کہ پہلی اننگز کے خسارے کو اتارا جاتا، 8 کھلاڑی میدان سے لوٹ چکے تھے جن میں سے صرف کین ولیم سن کے 52 رنز ہی قابل ذکر تھے۔ جب تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو نویں وکٹ پر وکٹ کیپر بریڈلے-جان واٹلنگ اور مارک کریگ نے 43 اوورز تک مزاحمت کی۔ گو کہ اضافہ محض 99 رنز ہی کا ہوا لیکن وہ ویسٹ انڈیز کے گلے کی ہڈی بن گئے جو نہ اگلی جارہی تھی، نہ نگلی جارہی تھی۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، آخری روز کھانے کے وقفے پر جاکرنیوزی لینڈ کی اننگز تمام ہوئی۔ محض دوسرا ٹیسٹ کھیلنے والے کریگ نے167 گیندوں پر 67 رنز بنائے جبکہ واٹلنگ 216گیندوں پر 66 رنز کی ناقابل شکست مزاحمت کے ساتھ واپس لوٹے۔

کیمار روچ نے ویسٹ انڈیز کی جانب سے سب سے زیادہ یعنی4 وکٹیں لیں جبکہ جیروم ٹیلر، شینن گیبریل اور سلیمان بین نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

93 رنزکے ہدف کے لیے ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کا حقیقی مقابلہ نیوزی لینڈ کی باؤلنگ سے نہیں بلکہ بارش اور وقت سے تھا اور کرس گیل نے اپنے ٹی ٹوئنٹی تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر عنصر کو بھرپور شکست دی۔ ان کی 46 گیندوں پر 80 رنز کی اننگز ویسٹ انڈیز کو 'بلٹ ٹرین' پر بٹھا کر فتح تک لے آئی۔

ویسٹ انڈیز کی اس فتح کے ساتھ ہی تین مقابلوں کی سیریز اب ایک-ایک سے برابر ہوچکی ہے اور 26 جون سے برج ٹاؤن میں کھیلا جانے والا ٹیسٹ فیصلہ کن حیثیت اختیار کرگیا ہے۔