آسٹریلیا ویسٹ انڈیز کو کچل کر عالمی نمبر تین بن گیا

0 1,032

محدود اوورز کی سیریز میں بہت ہی شاندار کارکردگی کے مظاہرے کے بعد طویل طرز کی کرکٹ میں ویسٹ انڈیز سے جیسی توقعات وابستہ تھیں، بدقسمی سے وہ پوری نہ ہو سکیں اور وہ روسیو، ڈومینکا کے خوبصورت اسٹیڈیم ونڈسر پارک میں کھیلے گئے تیسرے و آخری ٹیسٹ میں بھی ناکامی سے دوچار ہو کر سیریز 2-0 سے ہار گیا۔

اس فتح کے ساتھ ہی ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں کچھ عرصے سے زوال پذیر آسٹریلیا ایک مرتبہ پھر تیسرے نمبر پر آ گیا ہے، جبکہ گزشتہ سال نمبر ون کے مزے لوٹنے والا بھارت اب چوتھے نمبر پر آ چکا ہے۔

آسٹریلیا کے کھلاڑی سیریز 2-0 سے جیتنے اور عالمی نمبر تین پوزیشن حاصل کرنے کے بعد شاداں و فرحاں (تصویر: AFP)
آسٹریلیا کے کھلاڑی سیریز 2-0 سے جیتنے اور عالمی نمبر تین پوزیشن حاصل کرنے کے بعد شاداں و فرحاں (تصویر: AFP)

اسپنرز کے لیے مددگار نظر آنے والی پچ پر آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا درست ترین فیصلہ کیا اور پہلے ہی روز اندازہ ہو گیا کہ چوتھی اننگز میں اس وکٹ پر کھیلنا ’جوئے شیر لانے کے مترادف‘ ہوگا اور بالآخر ایسا ہوا بھی۔ ایک تو 370 رنز کا ہمالیہ جیسا ہدف، اس پر ویسٹ انڈین بیٹنگ لائن اپ کا ’تنِ نازک‘، اتنا بھاری پتھر ان سے نہ اٹھنے والا تھا۔ ویسٹ انڈیز نے آخری مرتبہ آسٹریلیا کو 2003ء میں شکست دی تھی جب اس نے اینٹی گا میں ریکارڈ 418 رنز کا ہدف عبور کیا تھا، لیکن بلے بازوں کی کارکردگی میں جو تسلسل تھا، ان سے امید کرنا عبث تھا۔ 180 رنز پر 6 وکٹیں گنوانے کے بعد تو توقع بھی نہ کی جا سکتی تھی کہ جہاں بلے باز نہ چل سکے، وہاں آل راؤنڈرز اور ٹیل اینڈرز بیڑہ پار لگائیں گے۔ پھر بھی ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سیمی نے روایتی جارحانہ مزاحمت دکھائی۔ اس وقت ’حملہ سب سے بہتر دفاع‘ کی حکمت عملی اگر کہیں نظر آتی ہے تو وہ سیمی میں ہے۔ انہوں نے محض 51 گیندوں پر 3 چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے 61 رنز بنائے۔ گو کہ دوسرے اینڈ سے وکٹیں جھڑتی رہیں، تاہم وہ آخر تک موجود رہے اور بالآخر 294 رنز کے مجموعے پر ان کے آؤٹ ہوتے ہی ویسٹ انڈین شکست پر مہر ثبت ہو گئی۔

دوسری اننگز میں شیونرائن چندرپال ویسٹ انڈیز کے سب سے نمایاں بلے باز رہے جنہوں نے 69 رنز بنائے جبکہ ڈیرن براوو نے 45 کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ دونوں کے درمیان چوتھی وکٹ پر 110 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی تو کسی حد تک امکان ہو چلا تھا کہ ویسٹ انڈیز ہدف کے قریب پہنچ جائے گا لیکن براوو اور کچھ ہی دیر میں چندرپال کے لوٹتے ہی ویسٹ انڈیز پر شکست کے بادل گہرے ہو گئے۔

حریف لائن اپ میں دراڑیں ڈالنے کا کردار حیران کن طور پر کسی اسٹرائیک باؤلر نے نہیں، بلکہ جز وقتی باؤلنگ کرانے والے آسٹریلوی کپتان مائیکل کلارک نے انجام دیا۔ جنہوں نے 86 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جن میں کریگ بریتھویٹ، کیرن پاول، شیونرائن چندرپال، نارسنگھ دیونرائن اور روی رامپال کی وکٹیں شامل تھیں۔ ان کے علاوہ تین وکٹیں مرکزی اسپنر ناتھن لیون کو بھی ملیں جنہوں نے 87 رنز دے کر کارلٹن با، کیمار روچ اور ڈيرن سیمی کو ٹھکانے لگایا۔

قبل ازیں آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں وکٹ کیپر میتھیو ویڈ کی میچ بچاؤ اننگز کی بدولت پہلی اننگز میں 328 رنز کا بڑا مجموعہ اکٹھا کیا۔ اسپنرز کے لیے پہلے ہی روز سے انتہائی مددگار نظر آنے والی پچ پر پہلے روز آسٹریلیا محض 169 رنز پر اپنی 7 وکٹیں گنوا بیٹھا اور ایسا لگتا تھا کہ اس کی اننگز کی بساط 200 رنز ہی پر لپیٹ دی جائے گی لیکن میتھیو ویڈ نے اپنی بلے بازی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک فتح گر اننگز کھیلی۔ خصوصاً نویں وکٹ پر مچل اسٹارک کے ساتھ 102 رنز کی شراکت نے تو ویسٹ انڈین حوصلوں کی کمر ہی توڑ دی۔ ویڈ، جو محض اپنا تیسرا ٹیسٹ کھیل رہے تھے، نے 146 گیندوں پر 3 چھکوں اور 10 چوکوں کی مدد سے 103 رنز بنائے جبکہ اسٹارک نے 35 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

شیونرائن چندرپال، جنہوں نے میچ کے دوران 10 ہزار ٹیسٹ رنز مکمل کیے، سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: AP)
شیونرائن چندرپال، جنہوں نے میچ کے دوران 10 ہزار ٹیسٹ رنز مکمل کیے، سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: AP)

قبل ازیں آسٹریلیا کا ٹاپ آرڈر شین شلنگفرڈ کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے بالکل نہ ٹک پایا۔ نوجوان اسپنر نے آسٹریلین بیٹنگ لائن اپ کے تمام بڑے ناموں کو ڈھیر کیا۔ گو کہ ڈیوڈ وارنر اور شین واٹسن کی مزاحمت قابل ذکر ہے جنہوں نے بالترتیب 50 اور 41 رنز بنائے لیکن ان دونوں کے علاوہ رکی پونٹنگ، مائیکل کلارک اور مائیکل ہسی کی وکٹیں حاصل کر کے اس نوجوان اسپنر نے اپنے شاندار مستقل کی نوید دے دی ہے۔

شلنگفرڈ نے 119 رنز دے کر کل 6 وکٹیں حاصل کیں۔

جواب میں ویسٹ انڈین بلے بازوں نے حسب روایت کارکردگی ہی دکھائی۔ ابتدا ہی میں کریگ بریتھویٹ کی وکٹ گری تو ایڈرین بارتھ اور کیرن پاول نے 61 رنز کی رفاقت سے کچھ سہارا دینے کی کوشش کی لیکن جیسے ہی ان دونوں کا ساتھ ختم ہوا، پوری عمارت ڈھیر ہو گئی۔ وکٹیں گرنے کا سلسلہ ایک اینڈ سے تو مستقل ہی جاری رہا جبکہ دوسرے اینڈ پر تجربہ کار شیونرائن چندرپال ٹکے ہوئے تھے۔ محض 120 رنز تک پہنچتے پہنچتے ویسٹ انڈیز اپنی 8 وکٹیں گنوا چکا تھا اور اس میں بڑا کردار توقعات کے عین مطابق ناتھن لیون ہی کا تھا جنہوں نے 4 وکٹیں حاصل کیں۔ اگر شیونرائن آخری دو وکٹوں پر روی رامپال اور کیمار روچ کے ساتھ مل کر 98 رنزکا اضافہ نہ کرتے تو ویسٹ انڈیز کا حال اس سے بھی برا ہوتا۔ شیونرائن سب سے آخر میں گرنے والی وکٹ تھے جنہوں ے 164 گیندوں پر 68 رنز بنائے جبکہ روی رامپال نے 31 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

لیون کی 4 وکٹوں کے علاوہ دو وکٹیں مچل اسٹارک نے حاصل کیں جبکہ بین ہلفناس، راین ہیرس اور ڈیوڈ وانر نے ایک ایک وکٹ سمیٹی۔

پہلی اننگز میں 110 رنز کی شاندار برتری ملنے کے بعد آسٹریلیا کی مقابلے کی گرفت مضبوط ہو گئی تھی اور اس نے بھرپور اعتماد کے ساتھ دوسری اننگز کا آغاز کیا۔ گو کہ اسے 25 کے مجموعے پر اپنی دو وکٹوں سے محروم ہونا پڑا لیکن ایڈ کوون اور رکی پونٹنگ کی نصف سنچریوں اور بعد ازاں مائیکل ہسی کے 32 رنز نے آسٹریلیا کو ایک ایسا ہدف دینے کے مقام پر پہنچا دیا جو بلاشبہ ویسٹ انڈیز کی حالیہ بلے بازی کو دیکھتے ہوئے بہت مشکل دکھائی دیتا تھا۔ آسٹریلیا کی دوسری اننگز 259 رنز پر تمام ہوئی۔ ایک مرتبہ پھر شین شلنگفرڈ نے سب سے زیادہ 4 وکٹیں حاصل کیں اور یوں میچ میں 10 بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ تین، تین وکٹیں کیمار روچ اور نارسنگھ دیونرائن کو ملیں۔

370 رنز کے بڑے ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کا جو حال ہوا، اس کا ذکر تو اوپر ہو چکا ہے لیکن اب ویسٹ انڈیز کو غور کرنا ہوگا کہ تمام تر محنت، جدوجہد اور کاوشوں کے باوجود وہ میچ جیتنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو پا رہا۔ بھارت کے خلاف حالیہ سیریز اور اب آسٹریلیا کے خلاف شکستوں نے اس کی تمام تر محنتوں پر پانی پھیرا ہے، پھر بھی اس کے لیے بہت سے مثبت پہلو ہیں، جن کے ساتھ وہ اب انگلستان جائے گا جہاں باؤلرز کے لیے مددگار کنڈیشنز میں بلے بازوں کا اصل امتحان شروع ہوگا۔

شیونرائن چندرپال، جنہوں نے اس میچ کے دوران 10 ہزار ٹیسٹ رنز کا سنگ میل عبور کیا، کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ فتح گر اننگز کھیلنے والے میتھیو ویڈ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔