ناقابل فراموش لمحات؛ پاک ویسٹ انڈیز یادگار ٹیسٹ 2000ء

4 1,088

ماضی میں کالی آندھی سمجھی جانے والی ویسٹ انڈین ٹیم کو اب بھی ایک انوکھا اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے ہوم گراؤنڈ پر کبھی کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں ہارا۔

پاکستان نے ویسٹ انڈین سرزمین پر کئی یادگار مقابلے کھیلے جن میں سب سے زیادہ شہرت مئی 2000ء میں سینٹ جانز، اینٹیگا میں کھیلے گئے سیریز کے آخری و فیصلہ کن ٹیسٹ کو ملی۔ یہ ٹیسٹ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے بہترین مقابلوں میں سے ایک میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ویسٹ انڈیز نے انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو محض 1 وکٹ سے شکست دے کر سیریز 1-0 سے اپنے نام کی اور پاکستان کی مضبوط ٹیم کو ایک مرتبہ پھر کیریبین سرزمین سے نامراد لوٹنا پڑا۔

سیریز کا آخری و فیصلہ کن معرکہ

جارج ٹاؤن، گیانا اور برج ٹاؤن، بارباڈوس میں کھیلے گئے گزشتہ دونوں ٹیسٹ مقابلے برابر ہونے کے بعد سیریز کا انحصار سینٹ جانز میں ہونے والے آخری مقابلے پر تھا۔ ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے باؤلرز نے محض 33 کے مجموعی اسکور تک پاکستان کے ابتدائی تین بلے بازوں کو پویلین پہنچا کر اس فیصلے کو درست ثابت کیا۔ لیکن انضمام الحق اور یوسف یوحنا کی ذمہ دارانہ بلے بازی اور کپتان معین خان اور وسیم اکرم کی اہم حصہ داری نے پاکستان کو 269 رنز کا مناسب مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیابی دلائی۔ یوسف یوحنا 103 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر ناقابل شکست رہے۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے کورٹنی واش نے 5 وکٹیں حاصل کیں۔

جواب میں ویسٹ انڈیز وسیم اکرم کی تباہ کن باؤلنگ کی تاب نہ لا سکا اور شیونرائن چندر پال کے 89 اور کپتان جمی ایڈمز کے 60 رنز کے علاوہ کوئی بلے باز پاکستان کا جم کر مقابلہ نہ کر سکا لیکن اس کے باوجود ویسٹ انڈیز پاکستان پر 4 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس کی پہلی اننگ 273 پر اختتام پذیر ہوئی۔ وسیم اکرم نے محض 61 رنز دے کر 6 حریف بلے بازوں کو ٹھکانے لگایا جس میں چندر پال، رامنریش سروان، رڈلے جیکبز، فرینکلن روز، کرٹلی ایمبروز اور ریون کنگ کی وکٹیں شامل تھیں۔

پاکستان کی دوسری اننگ

4 رنز کے خسارے کے ساتھ پاکستان نے دوسری اننگ کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ پھر سوائے انضمام الحق اور یوسف یوحنا کے کوئی پاکستانی بلے باز کورٹنی واش، کرٹلی ایمبروز ، ریون کنگ اور فرینکلن روز پر مشتمل خطرناک پیس اٹیک کا مقابلہ نہ کر سکا۔ یونس خان دونوں اننگز میں دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہو سکے۔ عمران نذیر اور عبد الرزاق تو اپنا کھاتہ ہی نہ کھول پائے۔ انضمام اور یوسف نے ٹیم کو بڑے نقصان سے بچانے کے لیےزبردست کوششیں کیں دونوں نے بالترتیب 68 اور 42 رنز کی اننگز کھیلیں۔دونوں نے چوتھی وکٹ پر 80 رنز کی شراکت قائم کی اور اس شراکت کو توڑنے میں سب سے اہم کردار ایک امپائر کا تھا جو پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ میں امپائرنگ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اس امپائر کا نام تھا بلی ڈاکٹروو اور بعد میں یہی امپائر اس میچ میں پاکستان کے لیے ولن ثابت ہوا۔ تاہم پاکستانی بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پاکستان اسکور بورڈ پر کوئی بڑا مجموعہ اکٹھا نہ کر سکا اور پوری ٹیم 219 رنز پر ڈھیر ہوئی گئی۔ روز نے 4 جبکہ ایمبروز نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک، ایک وکٹ کورٹنی واش اور فرینکلن روز کو بھی ملی۔

فیصلہ کن اننگ کا آغاز

ویسٹ انڈیز نے میچ کے چوتھے روز ویول ہائنڈز اور شیونرائن چندر پال کی اننگز کی بدولت میچ میں مضبوط پوزیشن حاصل کر لی۔ جب چوتھے دن کے آخری اوور میں وسیم اکرم نے ویول ہائنڈز کو 63 کے انفرادی اسکور پر بولڈ کیا تو ویسٹ انڈیز کو فتح کے لیے صرف 72 رنز درکار تھے اور اس کی 6 وکٹیں پورے ایک دن کا کھیل باقی تھا۔

آخری روز، امپائرز کے کارناموں کا آغاز

اگلے روز میچ کا آغاز ہوا تو ویسٹ انڈیز واضح طور پر حاوی تھا۔ پاکستان کو کوئی معجزانہ کارکردگی ہی ایک یادگار فتح تک پہنچا سکتی تھی۔

امپائرز خصوصا بلی ڈاکٹروو ابتداء ہی سے پاکستان کے حق میں فیصلے دیتے دکھائی نہ دیتے تھے۔ جب ویسٹ انڈیز کا اسکور 157 تک پہنچا تو وسیم اکرم کی گیند پر ڈاکٹروو نے رامنریش سروان کا ایک ایل بی ڈبلیو نہیں دیا۔ وسیم اکرم بہت ناخوش تھے تاہم اسی اوور کی آخری گیند پر وہ امپائر سے اپنے حق میں فیصلہ لینے میں کامیاب ہو گئے اور ویسٹ انڈیز اپنی پانچویں وکٹ کھوبیٹھا۔

وسیم اکرم اپنے عروج پر دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے جمی ایڈمز سمیت تمام ویسٹ انڈین بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور دوسرے اینڈ سے یہ ذمہ داری ثقلین مشتاق سنبھالے ہوئے تھے۔ دونوں کی شاندار گیند بازی ویسٹ انڈین بلے بازوں کے لیے بہت بڑا امتحان تھی لیکن ناقص امپائرنگ میزبان ٹیم کے ساتھ تھی۔ امپائرز نے رڈلے جیکبز اور جمی ایڈمز کو متعدد مواقع اور دیے خصوصاً ایل بی ڈبلیو کا تو کوئی موقع پاکستان کو حاصل نہ کرنے دیا گیا۔

تناؤ بھرے ماحول میں پاکستان نے رن آؤٹ کے ذریعے ویسٹ انڈیز کی چھٹی وکٹ حاصل کر لی۔ چند اوورز کے بعد وسیم اکرم کی گیند پر فرینکلن روز کا ایک واضح ایل بی ڈبلیو امپائرز کی نذر ہو گیا۔ پاکستانی ٹیم شدید غصے میں نظر آ رہی تھی۔ اک ایسا میچ جس میں باؤلرز شکست کے منہ سے فتح کو کھینچ لائے تھے، امپائرز کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ تاہم یہ موقع ملنے کے باوجود فرینکلن روز زیادہ دیر تک کپتان کا ساتھ نہ دے پائے اور مشتاق احمد کی ایک گگلی پر وسیم اکرم کو کیچ دے بیٹھے۔

پاکستان کی راہ کے آخری پتھر

ایمبروز میدان میں اترے، وسیم اکرم کے خلاف پورے اوور میں جدوجہد کرتے نظر آنے کے بعد انہوں نے اپنے اعتماد کو بحال کیا اور مشتاق کو ایک شاندار چھکا رسید کیا۔ اب پاکستان کے لیے پریشان کن لمحات آ چکے تھے۔ کپتان معین خان ثقلین مشتاق کو لے کر آئے۔ تناؤ بھری کیفیت میں دونوں ٹیمیں موجود تھیں۔ ایک رن لینے کی کوشش میں ویسٹ انڈیز کے دونوں بلے باز ایک ہی اینڈ پر آ گئے۔ اس سے سنہرا موقع شاید پاکستان کو نہ مل پاتا لیکن ثقلین معین خان کی ایک تھرو کو ضایع کر بیٹھے اور یوں ویسٹ انڈیز کو پاکستان کی طرف سے بھی اک زندگی ملی۔ یہی وہ رن آؤٹ تھا جس نے پاکستان کو فتح سے محروم کر دیا۔ امپائرز کے فیصلے اپنی جانب لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی فیلڈرز کی جانب سے اہم مواقع پر حریف بلے بازوں کو موقع دینا ہی پاکستان کی شکست کا باعث بنا۔

کھانے کے وقفے سے قبل ایک شاندار اوور میں ثقلین مشتاق نے بالآخر ایمبروز کو آؤٹ کر ہی دیا۔ ویسٹ انڈین ٹیم اور تماشائی شدید دباؤ میں آ گئے کیونکہ انہیں 22 رنز درکار تھے اور ان کی صرف دو وکٹیں ہی باقی بچی تھیں۔ تمام تر انحصار کپتان جمی ایڈمز پر تھا جو 33 رنز کے ساتھ ایک اینڈ پر جمے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ رنز 147 گیندوں پر بنائے تھے۔

امپائرنگ کی غلطیاں، اپنے عروج پر

جب پانچویں دن کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا تو پاکستان کی باؤلنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ وسیم اکرم نے پہلے ہی اوور میں جمی ایڈمز کو تین مرتبہ آؤٹ کیا۔ ایک مرتبہ امپائر بلی ڈاکٹروو نے ایڈمز کو ایل بی ڈبلیو سے بچایا جبکہ اوور کی آخری دونوں گیند وں پر انہیں وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ نہیں دیا گیا حالانکہ گیند واضح طور پر ان کو بلے کو چھوتی ہوئی گئی تھی۔ ایک ہی اوور میں تین زندگیاں ملنے کے بعد جمی ایڈمز کو کیا اعتماد حاصل ہوا ہوگا اس کا اندازہ آپ کو بخوبی ہو گیا ہوگا۔

اگلے اوور میں وسیم اکرم نے دوسرے اینڈ سے ریون کنگ کو بولڈ کر دیا۔ یہ وسیم اکرم کی 300 ویں ٹیسٹ وکٹ تھی۔ اب پاکستان فتح سے محض ایک وکٹ کی دوری پر تھا جبکہ ویسٹ انڈیز کو 17 رنز درکار تھے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ریکارڈ مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے والے کورٹنی واش میدان میں اترنے۔ اگلے اوور کی آخری گیند پر امپائر نے ثقلین مشتاق کی گیند پر کورٹنی واش کا ایک واضح آؤٹ دینے سے انکار کر دیا۔ ری پلے سے صاف ظاہر تھا کہ گیند ان کے بلے کو چھونے کے بعد پیڈ پر لگی اور ہوا میں اچھلی اور پکڑ لی گئی لیکن امپائر صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

رن آؤٹ کرنے میں ناکامی ، میچ میں شکست

جب ویسٹ انڈیز کو فتح کے لیے 14 رنز درکار تھے تو ثقلین مشتاق نے اپنی 'شاندار' فیلڈنگ کا ایک اور مظاہرہ دکھایا اور ایک مرتبہ پھر فیلڈر کی تھرو پکڑنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں ویسٹ انڈیز کی اکھڑتی ہوئی سانس کو وہ آخری سہارا ملا جس کی بدولت وہ میچ کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس مرتبہ بھی دونوں بلے باز ایک اینڈ پر پہنچ گئے تھے اور جلد بازی میں تھرو پکڑنے کی کوشش ثقلین کے ساتھ پاکستان کو بھی بہت مہنگی پڑ گئی۔

جب جمی ایڈمز نے 91 ویں اوور کی آخری گیند کو کور کی جانب کھیل کر ایک رن لیا تو ویسٹ انڈیز کو ایک یادگار سیریز میں فتح مل چکی تھی۔ پاکستان کو ناقص امپائرنگ اور فیلڈنگ نے ایک مرتبہ پھر شکست سے دوچار کر دیا۔

ویسٹ انڈین کیمپ اور میدان میں اس فتح کا زبردست جشن منایا گیا۔ ہر طرف بینڈ باجوں اور رقص کا راج تھا۔ ویسٹ انڈیز نے اپنی سرزمین پر پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز نہ ہارنے کے ریکارڈ کو برقرار رکھا۔