اسپاٹ فکسنگ: پاکستانی کھلاڑی قصور وار قرار

1 1,049

مبینہ طور پر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تین پاکستانی کھلاڑیوں پر برطانوی پراسیکیوٹرز نے رشوت ستانی اور دھوکہ دہی کے الزام میں فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ سابق کپتان سلمان بٹ اور دو تیز گیند بازوں محمد آصف اور محمد عامر کو گزشتہ سال ماہ اگست میں انگلستان کے خلاف ٹیسٹ میچ کے دوران کے جان بوجھ کر نو بالز کرانے اور اس کے عوض رقم لینے کے الزامات کا سامنا ہے۔ کھلاڑیوں کے ایجنٹ مظہر مجید پر بھی فرد جرم عائد کرتے ہوئے انہیں مذکورہ تینوں کھلاڑیوں کے ہمراہ 17 مارچ کو ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں رضا کارانہ طور پر پیش ہونے کا کہا گیا ہے۔

برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کے کرائم ڈویژن کے سربراہ سائمن کلیمنٹس کے مطابق تینوں کھلاڑیوں پر بک میکر مظہر مجید کے ذریعے کسی تیسری پارٹی سے پیسے لے کر 26 اور 27 اگست 2010ء کو لارڈز ٹیسٹ میں طے شدہ وقت پر نو بالز کرانے کا الزام ہے۔ سی پی ایس کے سربراہ نے تیسری پارٹی کے بارے میں بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مقدمہ کے لیے درکار کافی شواہد جمع کر چکے ہیں جس سے کھلاڑیوں کو سزا ملنے کے امکانات موجود ہیں تاہم ان کھلاڑیوں کے خلاف عدالت میں جرم ثابت نہ ہونے تک انہیں بے قصور سمجھا جائے گا۔

(دائیں سے بائیں) سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر
یاد رہے کہ پاکستان اور انگلستان کے مابین 26 سے 29 اگست 2010ء تک لارڈز میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے دوران 28 اگست کو ایک برطانوی اخبار "نیوز آف دی ورلڈ" نے تین پاکستانی کھلاڑیوں پر پیسے لے کر نو بالز کرانے کا الزام عائد کیا تھا۔ جس کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے پاکستانی کھلاڑیوں پر آرٹیکل 2 کی دفعات کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں عارضی طور پر معطل کردیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانوی پولیس اور اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی مذکورہ کھلاڑیوں سمیت ان کے دیگر ساتھی کھلاڑیوں سے تھانے میں پوچھ گچھ کی اور معاملہ کے مرکزی کردار مظہر مجید کو بھی کچھ دیر کے لیے حراست میں رکھا۔ اس دوران اسپاٹ فکسنگ میں ملوث سمجھے جانے والے تینوں کھلاڑی اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو رد کرتے رہے ہیں۔

آئی سی سی کی جانب سے تحقیقات کے بعد کھلاڑیوں کے خلاف اسپاٹ فکسنگ مقدمہ کی سماعت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 6 تا 11 جنوری جاری رہی جس کے بعد سماعت کرنے والے ٹربیونل کے سربراہ مائیکل بیلوف نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اسے 5 فروری کو سنانے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی کھلاڑیوں کی معطلی کے فیصلہ کو برقرار بھی رکھا۔ آئی سی سی کی جانب سے فیصلہ سنانے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔ اب فیصلہ کی تاریخ کے انتہائی نزدیک برطانوی پولیس کا 7 ماہ بعد حرکت میں آجانا بہت معنیٰ خیز معلوم ہوتا ہے۔

برطانوی قوانین کے مطابق غیر قانونی رقم اور رشوت کا لین دین انسداد بدعنوانی ایکٹ 1906ء کے زمرے میں آتا ہے جس کا جرم ثابت ہونے پر مجرم کو زیادہ سے زیادہ 7 سال قید اور بھاری جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ سٹہ بازی کے قانون کی دفعہ 42 کے تحت دھوکہ دہی بھی ایک جرم ہے جس پر زیادہ سے زیادہ 2 سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔