[آج کا دن] وسیم اکرم کی یادگار کارکردگی لیکن پاکستان کی شکست

2 1,235

نوآموز و ناتجربہ کار اور صرف 18 سال کے وسیم اکرم کی سر توڑ کوششیں بھی پاکستان کو فتح سے ہمکنار نہ کر سکیں اور نیوزی لینڈ کی دو وکٹوں کی سنسنی خیز فتح نے سیریز برابر کرنے کی پاکستانی خواہش پر پانی پھیر دیا اور قومی کرکٹ ٹیم کو کیوی سرزمین سے 2-0 کی مایوس کن شکست کھا کر وطن واپس لوٹنا پڑا، لیکن ایک مثبت پہلو کے ساتھ کہ پاکستان نے اس دورے میں اِک نیا گیند باز دریافت کیا، جو بعد ازاں کرکٹ کی تاریخ کے بہترین گیند بازوں میں شمار کیا جانے لگا یعنی وسیم اکرم!

وسیم اکرم کی یادگار کارکردگی بھی پاکستان کو فتح سے ہمکنار نہ کر سکی (تصویر: Getty Images)
وسیم اکرم کی یادگار کارکردگی بھی پاکستان کو فتح سے ہمکنار نہ کر سکی (تصویر: Getty Images)

1985ء میں پاکستان کے دورۂ نیوزی لینڈ کا تیسرا و آخری ٹیسٹ آج ہی کے روز ڈنیڈن میں اختتام پذیر ہوا۔ پاکستان کو اس مقابلے کو جیت کر سیریز برابر کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ وہ آکلینڈ میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ مقابلے میں اننگز اور 99 رنز کی ذلت آمیز شکست کھا چکا تھا اور اب اُس کی اب پوری کوشش تھی کہ کسی طرح جوابی کارروائی کر کے حساب چکتا کرے اور نیوزی لینڈ کو چند ماہ قبل اپنے ہوم گراؤنڈ پر ملنے والی شکست کا بدلہ نہ لینے دے لیکن جیریمی کونی اور مارٹن کرو کی چوتھی اننگز میں یادگار ترین بیٹنگ اور آخری وکٹ پر 50 رنز کی ناقابل شکست شراکت داری نے پاکستان کی شکست پر مہر ثبت کی اور وسیم اکرم کی میچ میں 10 وکٹوں کی شاندار کارکردگی بھی پاکستان کے کام نہ آئی۔

میچ کے پہلے روز پچ میں تیز گیند بازوں کے لیے مدد کو دیکھ کر دونوں ٹیمیں بغیر اسپنرز کے میدان میں اتریں ۔ وسیم اکرم کو صرف ایک میچ کا تجربہ حاصل تھا، اور اس واحد مقابلے سے بھی اُن کی کوئی خوشگوار یادیں وابستہ نہ تھیں کیونکہ پاکستان اُن کا ڈیبیو ٹیسٹ اننگز اور 99 رنز سے ہارا تھا اور اب تو ٹیم کو سیریز کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ بہرحال، نیوزی لینڈ نے حالات کا درست ادراک کرتے ہوئے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا اور یوں پہلے پاکستان کا امتحان پہلے ہی دن سے شروع ہو گیا۔ جاوید میانداد اور قاسم عمر کے درمیان تیسری وکٹ پر 141 رنز کی شراکت نے پاکستان کی امیدوں کو کافی تقویت بخشی لیکن ان دونوں کے علاوہ کوئی بلے باز قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا۔ ناقص کارکردگی کا اندازہ ا بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی آخری 8 وکٹیں اسکور میں صرف میں 33 رنز کا اضافہ کر سکیں۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے رچرڈ ہیڈلی نے سب سے زیادہ یعنی 6 وکٹیں حاصل کیں اور قاسم عمر کے 96 اور میانداد کے 76 رنز کے باوجود پاکستان صرف 274 رنز بنا پایا۔

لیکن جواب میں نیوزی لینڈ بھی 18 سالہ وسیم اکرم کے حملوں کی تاب نہ لا پایا اور سوائے مارٹن کرو کے 57 رنز کے کوئی بلے باز پاکستان کے باؤلرز کا ڈٹ کر سامنا نہ کر سکا اور پوری ٹیم 220 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی۔ پاکستان کو 54 رنز کی حوصلہ افزا برتری ملی لیکن اس اننگز کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان کو ایک نوجوان گیند باز میچ میں واپس لے کر آیا تھا۔ وسیم اکرم نے کیریئر کے دوسرے ہی ٹیسٹ میں اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دے کر روشن مستقبل کی نوید سنائی۔ اس اننگز میں وسیم نے جیف ہاورتھ، جان ریڈ، مارٹن کرو،جیف کرو اور لانس کیرنز کی قیمتی وکٹیں سمیٹیں۔

لیکن دوسری اننگز میں پاکستان نے پہلے سے بھی بدتر بیٹنگ کی۔ قاسم عمر کی دوسری وکٹ پر محسن خان کے ساتھ 67 رنز اور چھٹی وکٹ پر وکٹ کیپر انیل دلپت کے ساتھ 54 رنز کی شراکت داریاں قائم ہوئیں، اور آخری وکٹ پر راشد خان اور وسیم اکرم کے درمیان 42 رنز کی شراکت نے پاکستان کا کچھ بھرم رکھ لیا لیکن بحیثیت مجموعی بلے بازوں نے انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ظہیر عباس، جنہوں نے پہلی اننگز میں صرف 6 رنز بنائے تھے، دوسری اننگز میں صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے جبکہ پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونے والے سلیم ملک دوسری اننگز میں بھی دہرے ہندسے میں نہ پہنچ سکے۔ جاوید میانداد نے صرف دو اور مدثر نذر نے پانچ رنز بنائے اور پاکستان کی پوری ٹیم 223 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

نیوزی لینڈ کو 278 رنز کا ہدف ملا، جو پہلی اننگز کی کارکردگی اور پچ کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی مشکل ہدف تھا اور اس وقت تو ناممکنات کی حد تک پہنچ گیا جب پاکستانی گیند بازوں نے 23 رنز پر چار اہم ترین حریف بلےبازوں کو پویلین لوٹا دیا۔ جان رائٹ، جان ریڈ، جیف ہاورتھ اور جیف کرو جیسے جانے مانے بلے باز یکے بعد دیگرے پویلین لوٹتے چلے گئے۔ وسیم اکرم نے مسلسل دو گیندوں پر ہاورتھ اور جیف کرو کو میدان بدر کر کے پاکستان کو بالادست پوزیشن پر پہنچا دیا اور پاکستانی باؤلرز خصوصاً وسیم اکرم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا تھاکہ وہ سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

لیکن اس موقع پر عظیم بلے باز مارٹن کرو اور جیریمی کونی نے 157 رنز کی وہ شراکت قائم کی جس نے نہ صرف میچ کا رخ بدلا بلکہ نیوزی لینڈ کی تاریخی فتح کی بنیاد بھی بنی۔ دونوں نے چار تیز گیند بازوں پر مشتمل پاکستانی باؤلنگ اٹیک کا جم کر مقابلہ کیا اور چوتھے روز کے اختتام تک نیوزی لینڈ کو مزید کسی نقصان سے بچائے رکھا ۔ دن کے اختتام تک نیوزی لینڈ کا اسکور 114 رنز چار کھلاڑی آؤٹ تھا اور یہیں سے یہ مقابلہ سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہو گیا۔

پانچویں و آخری روز ابتدائی سیشن میں دونوں کھلاڑیوں نے محتاط رویہ اختیار کیے رکھا اور مزید کسی نقصان سے بچانے کی بھرپورکوششیں کیں لیکن کھانے کے وقفے سے کچھ دیر قبل مارٹن کرو طاہر نقاش کی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ انہوں نے165 گیندوں پر 84 رنز بنائے اور کونی کے ساتھ مل کر میچ بچاؤ شراکت داری قائم کی۔ اب تمام تر ذمہ داری جیریمی کونی کے کاندھوں پر تھی جنہیں ٹیل اینڈرز کے ساتھ مل کر نیوزی لینڈ کو منزل تک پہنچانا تھا لیکن دوسرے اینڈ سے گرنے والی وکٹوں کو روکنا اُن کے بس کی بات نہ لگتی تھی۔ 37 رنز کا مزید اضافہ ہوا اور نیوزی لینڈ مزید دو وکٹوں سے محروم ہو گیا۔

7 وکٹیں گرنے کے بعد لانس کیرنز میدان میں اترے، ایک ایسی وکٹ پر جہاں گیند میں اچانک اچھال پیدا ہو رہا تھا، ہیلمٹ نہ پہننے کی غلطی انہیں بہت مہنگی پڑ گئی، اور آتے ہی وسیم اکرم کی ایک گیند سیدھا اُن کے سر پر لگی اور نازک حالات میں انہیں میدان چھوڑنا پڑا۔ کیرنز کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں اُن کی کھوپڑی میں معمولی فریکچر کی تشخیص ہوئی اور وہ خواہش کے باوجود دوبارہ میدان میں اترنے کے قابل نہیں تھے۔ انہیں تین دن تک ہسپتال میں قیام کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ لانس کیرنز نیوزی لینڈ کے معروف آل راؤنڈ کرس کیرنز کے والد تھے۔ بہرحال، ان کے ہسپتال داخل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ اب نیوزی لینڈ کی صرف دو ہی وکٹیں باقی تھیں اور میچ پر پاکستان کی گرفت بہت مضبوط ہونے لگی تھی اور وسیم اکرم نے 228 کے مجموعے پربرینڈن بریسویل کی وکٹ حاصل کر کے پاکستان کو فتح سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر پہنچا دیا جبکہ نیوزی لینڈ کو 50 رنز درکار تھے۔ چائے کے وقفے تک خوش قسمتی جیریمی کونی کو بچاتی رہی اور نیوزی لینڈ کو آخری دن کے آخری سیشن میں 43 رنز درکار تھے۔

آخری سیشن کے آغاز کے ساتھ پہلی ہی گیند پر پاکستان نے میچ اپنے ہاتھ سے گنوا دیا، جب راشد خان نے جیریمی کونی کا ایک آسان کیچ چھوڑا اور یوں نیوزی لینڈ کو میچ طشتری میں رکھ کر پیش کر دیا۔ کونی کا ساتھ دینے والے نیوزی لینڈ کے آخری سپاہی ایون چیٹ فیلڈ نے بھی اپنی زندگی کی بہترین و یادگار ترین اننگز کھیلی اور 84 گیندوں پر 21 رنز بنائے جبکہ کونی نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی دوسری سنچری بنائی اور دونوں نے آخری وکٹ پر 50 رنز کا اضافہ کر کے نیوزی لینڈ کو ایک یادگار فتح سے نوازا۔

یہ نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر با آسانی فتح حاصل کرنے کے فوراً بعد بیرون ملک پاکستان کی حوصلہ شکن ہار تھی لیکن اس لحاظ سے یہ دورہ پاکستان کے لیے بہتر رہا کہ قومی کرکٹ کو وسیم اکرم کی صورت میں ایک نیا گیند باز ملا جو مستقبل میں کئی فتوحات کا معمار رہا۔وسیم اکرم نے اس ٹیسٹ سیریز کے دو ہی میچز کھیلے اور ان میں 19.41 کی اوسط سے 12 وکٹیں حاصل کیں۔

اسی میچ کے دوران جاوید میانداد 5 ہزار رنز مکمل کرنے والے کم عمر ترین کھلاڑی بنے، جن کی عمر اُس وقت صرف 27 برس تھی۔ جبکہ میں رچرڈ ہیڈلی بھی اسی مقابلے کے دوران 250 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کرنے والے نیوزی لینڈ کے پہلے باؤلر بنے تھے۔

نوجوان وسیم اکرم کو شاندار گیند بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا، جنہوں نے کیریئر کے دوسرے ہی مقابلے میں 10 وکٹیں سمیٹیں۔ ان کی حاصل کردہ وکٹیں یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

تاریخی میچ کا مکمل اسکور کارڈ

پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ، تیسرا ٹیسٹ

9 تا 14 فروری 1985ء

بمقام: کیرس بروک، ڈنیڈن، نیوزی لینڈ

نتیجہ: نیوزی لینڈ 2 وکٹوں سے فتحیاب

میچ کے بہترین کھلاڑی: وسیم اکرم

پاکستانپہلی اننگز رنز گیندیں چوکے چھکے
مدثر نذر ک جیف کرو ب ہیڈلی 18 29 1 0
محسن خان رن آؤٹ 39 117 5 0
قاسم عمر ک جیف کرو ب کونی 96 215 10 0
جاوید میانداد ک اسمتھ ب ہیڈلی 79 157 10 0
ظہیر عباس ک ریڈ ب ہیڈلی 6 8 1 0
راشد خان ک مارٹن کرو ب ہیڈلی 0 9 0 0
انیل دلپت ب بریسویل 16 27 2 0
سلیم ملک ایل بی ڈبلیو ب ہیڈلی 0 3 0 0
طاہر نقاش ک رائٹ ب ہیڈلی 0 3 0 0
عظیم حفیظ ک اسمتھ ب بریسویل 4 8 0 0
وسیم اکرم ناٹ آؤٹ 1 8 0 0
فاضل رنز ب 1، ل ب 2، ن ب 12 15
مجموعہ 94.2 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 274

 

نیوزی لینڈ (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
رچرڈ ہیڈلی 24 5 51 6
برینڈن بریسویل 18.2 1 81 2
لانس کیرنز 22 0 77 0
ایون چیٹ فیلڈ 24 6 46 0
جیریمی کونی 6 1 16 1

 

نیوزی لینڈپہلی اننگز رنز گیندیں چوکے چھکے
جیف ہاورتھ ب وسیم 23 64 4 0
جان رائٹ ک قاسم عمر ب عظیم حفیظ 32 42 3 1
جان ریڈ ب وسیم 24 60 4 0
مارٹن کرو ک میانداد ب وسیم 57 171 11 0
جیف کرو ایل بی ڈبلیو ب وسیم 6 12 1 0
جیریمی کونی ک دلپت ب راشد 24 58 1 0
رچرڈ ہیڈلی ک دلپت ب راشد 18 20 2 0
این اسمتھ ایل بی ڈبلیو ب نقاش 12 34 2 0
لانس کیرنز ک دلپت ب وسیم 6 20 0 0
برینڈن بریسویل ک راشد ب نقاش 3 23 0 0
ایون چیٹ فیلڈ ناٹ آؤٹ 2 8 0 0
فاضل رنز ب 7، ل ب 5، ن ب 1 13
مجموعہ 85.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 220

 

پاکستان (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
راشد خان 23 7 64 2
عظیم حفیظ 20 6 65 1
وسیم اکرم 26 7 56 5
طاہر نقاش 16.4 4 23 2

 

پاکستاندوسری اننگز رنز گیندیں چوکے چھکے
مدثر نذر ک کونی ب بریسویل 5 12 1 0
محسن خان ک مارٹن کرو ب ہیڈلی 27 81 2 0
قاسم عمر ک اسمتھ ب چیٹ فیلڈ 89 211 8 0
جاوید میانداد ک ریڈ ب ہیڈلی 2 3 0 0
ظہیر عباس ایل بی ڈبلیو ب کیرنز 0 7 0 0
سلیم ملک ب کیرنز 9 26 1 0
انیل دلپت ب چیٹ فیلڈ 21 71 3 0
طاہر نقاش رن آؤٹ 1 5 0 0
راشد خان ب بریسویل 37 69 6 0
عظیم حفیظ ب چیٹ فیلڈ 7 17 1 0
وسیم اکرم ناٹ آؤٹ 8 39 1 0
فاضل رنز ب 1، ل ب 9، ن ب 7 17
مجموعہ 88.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 223

 

نیوزی لینڈ (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
رچرڈ ہیڈلی 26 9 59 2
برینڈن بریسویل 14.4 2 48 2
لانس کیرنز 22 4 41 2
ایون چیٹ فیلڈ 26 5 65 3

 

نیوزی لینڈدوسری اننگز، ہدف 278 رنز رنز گیندیں چوکے چھکے
جیف ہاورتھ ک محسن ب وسیم 17 38 3 0
جان رائٹ ک محسن ب عظیم حفیظ 1 14 0 0
جان ریڈ ک دلپت ب وسیم 0 7 0 0
مارٹن کرو ک مدثر بر نقاش 84 165 12 0
جیف کرو ایل بی ڈبلیو ب وسیم 0 1 0 0
جیریمی کونی ناٹ آؤٹ 111 243 12 0
رچرڈ ہیڈلی ب عظیم حفیظ 11 22 1 0
این اسمتھ ک میانداد ب وسیم 6 9 0 0
لانس کیرنز ریٹائرڈ ہرٹ 0 5 0 0
برینڈن بریسویل ک نقاش ب وسیم 4 24 1 0
ایون چیٹ فیلڈ ناٹ آؤٹ 21 84 1 0
فاضل رنز ب 5، ل ب 6، و 1، ن ب 11 23
مجموعہ 99.4 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 278

 

پاکستان (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
راشد خان 9 2 33 0
عظیم حفیظ 32 9 84 2
وسیم اکرم 33 10 72 5
طاہر نقاش 16.4 1 58 1
مدثر نذر 9 2 20 0