[آج کا دن] جب سچن 'مہان' نے جنم لیا

1 1,053

ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں طرز کی کرکٹ میں سب سے زیادہ مقابلے، رنز، سنچریاں، نصف سنچریاں، چوکے اور مرد میدان کے اعزازات یہ سب کارنامے صرف ایک کھلاڑی ہیں، سچن رمیش تنڈولکر کے جو 1973ء میں آج ہی کے دن بمبئی میں پیدا ہوئے۔

کرکٹ کے میدانوں پر جس سفر کا آغاز نومبر 1989ء میں کراچی سے ہوا تھا وہ بالآخر و اولڈ ٹریفرڈ، پرتھ، کیپ ٹاؤن اور گوالیار سے ہوتا ہوا گزشتہ سال نومبر میں آبائی شہر ممبئی میں اختتام کو پہنچا کیونکہ سچن ایک طویل و یادگار عہد کے بعد بالآخر دنیائے کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔ خود سچن کے الفاظ میں کہ 22 گز پر 24 سالہ سفر مکمل ہوا۔

اس سفر کے دوران نے 24 سال کرکٹ میدانوں پر گزارے۔ 200 ٹیسٹ کھیلے اور 53.78 کے شاندار اوسط کے ساتھ 15 ہزار 921 رنز بنائے جبکہ 463 ایک روزہ مقابلوں میں ان کا اوسط 44.83 اور رنز کی تعداد 18 ہزار 426 رہی۔ انہوں نے کیریئر میں صرف ایک ٹی ٹوئنٹی مقابلہ کھیلا اور یوں مجموعی طور پر بین الاقوامی کیریئر میں ان کے مقابلوں کی تعداد 664 رہی جس میں بنائے گئے رنز 34 ہزار 357 تھے جبکہ سنچریوں کی تعداد 100 ۔ علاوہ ازیں سچن نے بین الاقوامی کرکٹ میں 201 وکٹیں بھی حاصل کر رکھی تھیں جن میں سے 154 انہوں نے ایک روزہ مقابلوں میں سمیٹیں۔

اس ربع صدی میں جتنے ریکارڈز سچن نے اپنے پیروں تلے روندنے اور محیر العقول کارنامے انجام دیے، وہ تو کرکٹ تاریخ کا ایک سنہرا باب ہیں ہی لیکن ہمالیہ سے لے کر راس کماری اور واہگہ سے لے کر آسام تک، کرکٹ کے کھیل کو مقبول بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کرنے والے بھی یہی سچن تھے۔ اس عرصے میں کرکٹ کا کھیل بھارت میں اپنی مقبولیت کے تمام تر ریکارڈز توڑ چکا ہے اور اس میں بہت بڑا حصہ سچن کا رہا جن کے کارنامے نوجوانوں کو آگے سے آگے بڑھنے کے لیے تحریک دیتے رہے۔

ان سب کے باوجود ہر بڑے کھلاڑی کی طرح سچن کا کیریئر بھی نشیب و فراز کا حامل رہا۔ بھارت کے تجربہ کار اور بہترین کھلاڑی ہونے کے باوجود سچن قائد کی حیثیت سے بالکل ناکام ثابت ہوئے۔ 2001ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف پورٹ ایلزبتھ ٹیسٹ میں گیند سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے لے کر مارچ 2006ء میں انگلستان کے خلاف ممبئی میں اپنے ہی تماشائیوں کی جانب سے آوازے کسے جانے کے واقعات بھی اس میں شامل ہیں۔

سچن کو پہلی بار 1996ء میں ٹیم انڈیا کا کپتان بنایا گیا تھا، جب سچن کی عمر محض 23 سال تھی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا امتحان ثابت ہوا کیونکہ 17 ٹیسٹ مقابلوں میں بھارت صرف 3 ہی جیت پایا اور بالآخر تقریباً ڈیڑھ سال تک اس منصب پر فائز رہنے کے بعد ہٹا دیے گئے۔ دوسری بار گو کہ وہ وہ رضامند نہ تھے لیکن اس کے باوجود عالمی کپ 1999ء کے بعد ایک مرتبہ پھر سچن کو قیادت سونپی گئی لیکن 2000ء میں آسٹریلیا میں سہ فریقی سیریز میں شکست کے ساتھ یہ باب بھی بند ہوگیا۔ سچن کی زیر قیادت 25 ٹیسٹ اور 73 ون ڈے مقابلے کھیلے جن میں سے صرف 4 ٹیسٹ اور 23 ایک روزہ مقابلوں ہی میں فتوحات ملیں۔ جیتے گئے چاروں مقابلے بھارت ہی میں کھیلے گئے یعنی کہ سچن وطن سے باہر ایک مقابلہ بھی نہیں جتوا سکے۔

کرکٹ تاریخ میں جب بھی اعدادوشمار کی بات ہوگی، کوئی سچن کو پیچھے نہیں چھوڑ پائے گا۔ جو ریکارڈز سچن بنا گئے ہیں، ان میں سے کئی تو ایسے ہیں جن کو ٹوٹنے میں شاید دہائیاں لگ جائیں، وہ بھی اس صورت میں کہ کوئی ایسا بلے باز پیدا ہو جو ان تک پہنچنے کا دم خم رکھتا ہو۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ دنیائے کرکٹ نے ابتدائی ایام میں ایک ڈونلڈ بریڈمین کی صورت میں پہلا ڈان دیکھا، اور سچن کرکٹ تاریخ کے دوسرے ڈان تھے۔