[آج کا دن] جب قلعہ کراچی پر پاکستانی پرچم پہلی بار سرنگوں ہوا

وہ بدنصیب دن، جب پاکستان اپنے مضبوط ترین قلعے میں بھی شکست سے دوچار ہوا۔ کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم وہ میدان ہے جہاں پاکستان کو 46 سال تک کسی ٹیسٹ مقابلے میں دنیا کی کوئی ٹیم زیر نہ کر پائی تھی، 2000ءمیں آج ہی کے روز انگلستان کی جرات مندانہ کارکردگی اور پاکستان کی ناقص حکمت عملی کے باعث اس اعزاز سے محروم ہو گیا۔
فروری 1955ء میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ سے لے کر دسمبر کے انہی ایام میں انگلستان کے خلاف سیریز کے تیسرے و آخری معرکے تک پاکستان نے کل ملا کر 35 ٹیسٹ میچز کھیلے تھے، جن میں سے 17 میں فتح نےاس کے قدم چومے جبکہ اتنے ہی مقابلے ڈرا ہوئے اور واحد شکست انگلستان کے خلاف تھی۔
2000ء میں انگلستان کا دورۂ پاکستان اس لیے بھی خاص اہمیت کا حامل تھا کہ یہ شکور رانا اور مائیک گیٹنگ کے درمیان مشہورِ زمانہ تنازع کے بعد انگلستان کا پہلا دورہ تھا اور پے در پے ناقص کارکردگی کے باعث ناصر حسین زبردست تنقید کی زد میں تھے۔ لیکن لاہور اور فیصل آباد میں کھیلے گئے اولین دونوں مقابلے انگلستان بے نتیجہ کرنے میں کامیاب ہوا اور پھر حتمی معرکہ پاکستان مضبوط قلعے کراچی میں شروع ہوا۔
پاکستان نے انضمام الحق اور یوسف یوحنا (جو بعد ازاں اسلام قبول کر کے محمد یوسف ہوئے) کی شاندار سنچریوں کی بدولت 405 رنز بنانے میں کامیاب ہوا اور 388 رنز پر انگلستان کو آؤٹ کر کے معمولی برتری بھی حاصل کی۔
البتہ ان طویل باریوں کی وجہ سے میچ کے ساڑھے تین دن ختم ہو چکے تھے اور بظاہر یہ مقابلہ بھی ڈرا کی جانب گامزن ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ چوتھا دن مکمل ہوا تو پاکستان 71 رنز پر اپنی تین وکٹیں گنوا بیٹھا۔
وہ مقابلہ جو پہلے روز سے پاکستان کی گرفت میں دکھائی دیتا تھا، محض ڈیڑھ سیشن کی ناقص کارکردگی کے باعث انگلستان کے قابو میں چلا گیا۔ انگلستان نے شاندار باؤلنگ کرتے ہوئے پاکستان کی آخری 7 وکٹیں محض 80 رنز کے اضافے سے حاصل کر ڈالیں اور یوں پاکستان کی دوسری اننگز کا اختتام 158 رنز کے مایوس کن اسکور کے ساتھ ہوا۔ یعنی انگلستان کو فتح کے لیے صرف 176 رنز کا ہدف ملا لیکن اس کو حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس وقت بہت کم تھا۔ جب پاکستانی ٹیم آل آؤٹ ہوئی تو اس وقت چائے کے وقفے میں 35 منٹ باقی تھے اور اس کے بعد میچ کا آخری سیشن۔ گو کہ کل 44 اوورز کا کھیل ابھی باقی تھا لیکن پانچویں روز کی وکٹ پر ثقلین مشتاق کا سامنا کرنا انگلستان کے لیے اتنا آسان ہر گز نہ تھا۔
بہرحال، انگلستان نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا اور ابتدائی جارحانہ انداز کے باعث انہیں اپنی ابتدائی وکٹیں بھی کھونا پڑیں اور توقعات کے عین مطابق تینوں وکٹیں ثقلین مشتاق کو ملیں۔ اس وقت اسکور بورڈ پر محض 65 رنز جمع ہوئے تھے۔ پاکستان کو میچ بچانے کا یقین ہو چلا تھا لیکن انگلستان کی نظر ہدف پر تھی اور حریف کے ارادے سمجھنے میں غلطی ہی کی سزا پاکستان کو بھگتنا پڑی۔ وتھی وکٹ پر گراہم تھارپ اور گریم ہک کی 91 رنز کی تیز رفتار رفاقت نے میچ کو سنسنی خیز مرحلے میں داخل کر دیا۔
جب مقابلہ اور سیریز ہاتھ سے پھسلنے لگی تو پاکستانی کپتان معین خان نے منفی حربے استعمال کرنا شروع کر دیے۔ خصوصاً اوورز پھینکنے کی شرح انتہائی سست کر دی گئی یہاں تک کہ وہ 9 اوورز فی گھنٹہ کی اوسط تک جا پہنچی۔
انگلستان کے لیے سخت مشکل مرحلہ آ چکا تھا کیونکہ غروب آفتاب قریب آن پہنچا تھا اور میدان میں روشنی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ اس صورتحال میں وقار یونس جیسے برق رفتار باؤلر اور ثقلین مشتاق جیسے اسپنر کا سامنا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
لیکن انگلش بلے بازوں کا عزم و حوصلہ دیدنی تھا، وہ بہرصورت میچ اور سیریز اپنے نام کرنا چاہتے تھے اور غروب آفتاب کے کافی دیر بعد، جب پاکستانی وکٹ کیپر کپتان معین خان کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ گیند کس طرف جا رہی ہے، 42 ویں اوور میں گراہم تھارپ نے ثقلین مشتاق کی گیند پر دو رنز حاصل کر کے انگلستان کو تاریخی فتح سے ہمکنار کر دیا۔
انگلستان تیسرا ٹیسٹ 6 وکٹوں سے جیت کر سیریز بھی 1-0 سے لے اڑا۔ 1961ء کے بعد یہ پاکستانی سرزمین پر کسی بھی انگلش ٹیم کی پہلی سیریز جیت تھی اور بلاشبہ کپتان ناصر حسین کی زندگی کا یادگار ترین لمحہ۔
مائیکل ایتھرٹن میں 125 رنز بنانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
یہ نیشنل اسٹیڈیم میں ساڑھے چار دہائی کے عرصے کے بعد پاکستان کی پہلی شکست تھی اور وہ بھی ایسی انگلش ٹیم کے ہاتھوں جو پے در پے شکستوں کے بعد زوال کی جانب گامزن تھی لیکن ناصر حسین کی جارحانہ اور پاکستانی کپتان معین خان کی انتہائی دفاعی بلکہ منفی حکمت عملی نے میچ کا فیصلہ کر دیا یعنی فتح کے لیے کھیلنے والے جیت گئے اور میچ بچانے کی فکر کرنے والے ایک افسوسناک شکست سے دوچار ہوئے۔
اس مقابلے نے ثابت کیا کہ منفی حکمت عملی اختیار کر کے کبھی کوئی مقابلہ اپنے نام نہیں کیا جا سکتا۔ آخری لمحات میں اوورز پھینکنے کی شرح کو سست کرنا پاکستان کے لیے ہر گز فائدہ مند ثابت نہیں ہوا بلکہ اگر اس کی جگہ یہی دھیان گیند بازوں کے اچھے استعمال پر رکھا جاتا تو پاکستان میچ بچا سکتا تھا۔
امپائروں نے بھی پاکستان کی اس منفی تدبیروں کو بھانپ لیا تھا اس لیے انہوں نے میچ کو اندھیرا ہونے کے باوجود جاری رکھا، کیونکہ ابھی دن کے مقررہ اوورز باقی تھے اور انگلستان نے ان اوورز کی تکمیل سے تھوڑا سا پہلے تاریخی سنگ میل عبور کر لیا۔
اس یادگار مقابلے کا مکمل اسکور کارڈ
پاکستان بمقابلہ انگلستان، تیسرا ٹیسٹ
7 تا 11 دسمبر 2000ء
بمقام: نیشنل اسٹیڈیم، کراچی، پاکستان
نتیجہ: انگلستان 6 وکٹوں سے فتحیاب
میچ کے بہترین کھلاڑی: مائیکل ایتھرٹن
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
سعید انور | ایل بی ڈبلیو ب گف | 8 | 17 | 0 | 0 |
عمران نذیر | ک جائلز ب ٹریسکوتھک | 20 | 42 | 2 | 0 |
سلیم الہی | ب کیڈک | 28 | 54 | 4 | 0 |
انضمام الحق | ک ٹریسکوتھک ب وائٹ | 142 | 257 | 22 | 0 |
یوسف یوحنا | ک و ب جائلز | 117 | 242 | 14 | 1 |
عبد الرزاق | ک حسین ب جائلز | 21 | 65 | 3 | 0 |
معین خان | ک ہک ب جائلز | 13 | 17 | 1 | 0 |
شاہد آفریدی | ب جائلز | 10 | 14 | 1 | 0 |
ثقلین مشتاق | ب گف | 16 | 80 | 0 | 0 |
وقار یونس | ب گف | 17 | 55 | 2 | 0 |
دانش کنیریا | ناٹ آؤٹ | 0 | 2 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 3، ل ب 3، ن ب 7 | 13 | |||
مجموعہ | 139.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 405 |
انگلستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
ڈیرن گف | 27.4 | 5 | 82 | 3 |
اینڈی کیڈک | 23 | 1 | 76 | 1 |
مارکوس ٹریسکوتھک | 14 | 1 | 34 | 1 |
کریگ وائٹ | 22 | 3 | 64 | 1 |
این سالزبری | 18 | 3 | 49 | 0 |
ایشلے جائلز | 35 | 7 | 94 | 4 |
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
مائیکل ایتھرٹن | ک معین ب رزاق | 125 | 430 | 9 | 0 |
مارکوس ٹریسکوتھک | ک عمران نذیر ب وقار | 13 | 27 | 2 | 0 |
ناصر حسین | ک انضمام ب آفریدی | 51 | 209 | 4 | 1 |
گراہم تھارپ | ایل بی ڈبلیو ب وقار | 18 | 39 | 1 | 0 |
ایلک اسٹیورٹ | ک یوحنا ب ثقلین | 29 | 74 | 5 | 0 |
گریم ہک | ک آفریدی ب وقار | 12 | 29 | 2 | 0 |
کریگ وائٹ | اسٹمپ معین ب کنیریا | 35 | 96 | 3 | 1 |
ایشلے جائلز | ب وقار یونس | 19 | 44 | 2 | 0 |
این سالزبری | ناٹ آؤٹ | 20 | 82 | 1 | 0 |
اینڈی کیڈک | ک معین ب کنیریا | 3 | 11 | 0 | 0 |
ڈیرن گف | ک یوحنا ب ثقلین | 18 | 58 | 1 | 0 |
فاضل رنز | ب 12، ل ب 9، ن ب 24 | 45 | |||
مجموعہ | 179.1 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 388 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
وقار یونس | 36 | 5 | 88 | 4 |
عبد الرزاق | 28 | 7 | 64 | 1 |
شاہد آفریدی | 16 | 3 | 34 | 1 |
ثقلین مشتاق | 52.1 | 17 | 101 | 2 |
دانش کنیریا | 47 | 17 | 80 | 2 |
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
سعید انور | ک تھارپ ب کیڈک | 21 | 33 | 3 | 0 |
عمران نذیر | ک اسٹورٹ ب گف | 4 | 16 | 1 | 0 |
سلیم الہی | ک تھارپ ب جائلز | 37 | 136 | 3 | 0 |
انضمام الحق | ب جائلز | 27 | 45 | 4 | 0 |
ثقلین مشتاق | ایل بی ڈبلیو ب گف | 4 | 19 | 1 | 0 |
یوسف یوحنا | ک اسٹورٹ ب وائٹ | 24 | 64 | 4 | 0 |
عبد الرزاق | ک ایتھرٹن ب جائلز | 1 | 41 | 0 | 0 |
معین خان | ک ناصر ب وائٹ | 14 | 33 | 1 | 0 |
شاہد آفریدی | ناٹ آؤٹ | 15 | 25 | 2 | 0 |
وقار یونس | رن آؤٹ | 0 | 2 | 0 | 0 |
دانش کنیریا | ایل بی ڈبلیو ب گف | 0 | 9 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 3، ل ب 5، ن ب 3 | 11 | |||
مجموعہ | 70 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 158 |
انگلستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
ڈیرن گف | 13 | 4 | 30 | 3 |
اینڈی کیڈک | 15 | 2 | 40 | 1 |
ایشلے جائلز | 27 | 12 | 38 | 3 |
این سالزبری | 3 | 0 | 12 | 0 |
کریگ وائٹ | 12 | 4 | 30 | 2 |
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
مائیکل ایتھرٹن | ک سعید انور ب ثقلین | 26 | 33 | 5 | 0 |
مارکوس ٹریسکوتھک | ک انضمام ب ثقلین | 24 | 29 | 3 | 1 |
ایلک اسٹورٹ | ک معین ب ثقلین | 5 | 16 | 0 | 0 |
گراہم تھارپ | ناٹ آؤٹ | 64 | 98 | 4 | 0 |
گریم ہک | ب وقار یونس | 40 | 64 | 2 | 0 |
ناصر حسین | ناٹ آؤٹ | 6 | 8 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 8، ل ب 2، و 1 | 11 | |||
مجموعہ | 41.3 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر | 176 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
وقار یونس | 6 | 0 | 27 | 1 |
عبد الرزاق | 4 | 0 | 17 | 0 |
ثقلین مشتاق | 17.3 | 1 | 64 | 3 |
دانش کنیریا | 3 | 0 | 18 | 0 |
شاہد آفریدی | 11 | 1 | 40 | 0 |