[آج کا دن] عمران کے پاکستان کا ایک عظیم کارنامہ

1980ء کی دہائی میں تاریخ کی بہترین کرکٹ کھیلی گئی کیونکہ اس زمانے میں تمام ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں ایسے کھلاڑی شامل تھے، جنہیں بلاشبہ تاریخ کے عظیم ترین کرکٹرز میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم اور عبد القادر کا حامل تھا، آسٹریلیا میں ایلن بارڈر، ڈین جونز، اسٹیو واہ اور کریگ میکڈرمٹ؛ بھارت میں سنیل گاوسکر، کپل دیو،روی شاستری اور کرش سری کانت؛ انگلستان میں گراہم گوچ، جان ایمبورے، ڈیوڈ گاور اور کرس براڈ شامل تھے لیکن جو ٹیم اس وقت حقیقتاً ’مہان‘ کہلانے کی حقدار تھی وہ ویسٹ انڈیز تھی۔
ایک طویل عرصے تک عالمی نمبر ایک رہنے والی اس ٹیم میں دنیا کے بہترین بلے باز، بہترین گیند باز اور بہترین فیلڈرز شامل تھے۔ پہلے کلائیو لائیڈ اور بعد ازاں ویوین رچرڈز کی زیر قیادت یہ دستہ نہ صرف اجتماعی بلکہ انفرادی ریکارڈز میں بھی لاثانی تھا۔ اس کے علاوہ بھلا میلکم مارشل، گورڈن گرینج، ڈیسمنڈ ہینز، اینڈی رابرٹس، جوئیل گارنر، مائیکل ہولڈنگ، کورٹنی واش اور کرٹلی ایمبروز کے نام کسی تعارف کے محتاج ہیں؟ اور اس وقت یہ کھلاڑی جس ملک کی جانب سے کھیلتے ہوں، اس کو ہرانا ایک کارہائے نمایاں سمجھا جاتا تھا۔ بھارت نے 1983ء کے عالمی کپ کے فائنل میں اسی ویسٹ انڈیز کو ہرایا تھا تو اسے ’معجزہ‘ قرار دیا گیا تھا۔بہرحال، کرکٹ کی تاریخ کے اس عظیم ترین دور میں پاکستان نے بھی عمران خان کی زیر قیادت فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور کئی محیر العقول کارنامے انجام دیے۔ گو کہ اس تگ و تاز کو ’عالمی کپ 1992ء‘ میں معراج نصیب ہوئی لیکن اس سے اس سے قبل بھارت کے خلاف اسی کی سرزمین پر سیریز جیتنا اور تاریخ کی عظیم ترین ٹیم ویسٹ انڈیز کو اسی کے میدان پر میچ ہرانا دو ایسے کارنامے ہیں جو عمران خان اور ان کی ٹیم کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھنےکے لیے کافی ہیں۔ پاکستان کے اسی کپتان کی زیر قیادت قومی ٹیم نے 1988ء میں آج کے روز جارج ٹاؤن ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ یہ اپنے ہی میدانوں میں 10 سال بعد کسی ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کی پہلی شکست تھی۔ ویسٹ انڈیز کو آخری مرتبہ 1978ء میں آسٹریلیا کے ہاتھوں جارج ٹاؤن ہی میں شکست ہوئی تھی جس کے بعد وہ ایک دہائی تک اپنے میدانوں پر ناقابل شکست رہا یہاں تک کہ پاکستان نے 6 اپریل 1988ء کو اس کا غرور توڑ دیا۔
1987ء میں بھارت کو اسی کی سرزمین پر سیریز ہرانے کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے بعد یہ پاکستانی دستہ 1988ء میں 'کالے دیووں کی سرزمین' ویسٹ انڈیز پہنچا جہاں اس نے ٹیسٹ مقابلے کھیلنے تھے۔ عمران خان، جنہوں نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا، صدر پاکستان ضیاء الحق کے مطالبے پر ایک مرتبہ پھر ٹیم کی قیادت کر رہے تھے، اور انہوں نے واپسی کے بعد پہلے ہی ٹیسٹ میں ایسا کارنامہ انجام دے ڈالا جو 10 سالوں سے دنیا کی کوئی ٹیم نہیں کر پائی تھی۔
ویوین رچرڈز کی عدم موجودگی میں گورڈن گرینج کی زیر قیادت ویسٹ انڈین ٹیم کے پاس عمران خان کی تباہ کن گیند بازی کا کوئی جواب نہ تھا جنہوں نے پہلی اننگز میں 7 اور دوسری اننگز میں 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور پاکستان نے 9 وکٹوں سے با آسانی فتح حاصل کر لی۔ اس زمانے کی پاکستانی ٹیم کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مسلسل تیسری پاک-ویسٹ انڈیز سیریز تھی جو 1-1 سے برابر ہوئی گوکہ ویسٹ انڈیز اس وقت عالمی نمبر ایک تھا۔
براعظم جنوبی امریکہ میں واقع واحد کرکٹ مرکز جارج ٹاؤن میں ہونے والے سیریز کے اولین معرکے میں ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور عمران خان کی شاندار گیند بازی کے باعث 292 رنز ہی بنا پایا۔ حالانکہ اس کی بیٹنگ لائن اپ گرینج اور ہینز کے علاوہ رچی رچرڈسن جیسے زبردست بیٹسمین بھی شامل تھے لیکن بورڈا کی نئی بچھائی گئی پچ پر ابتدائی دھچکے سہنے کے بعد ویسٹ انڈین سنبھلنے لگی اور چائے کے وقفے تک 219 رنز پر اس کے 4 کھلاڑی ہی آؤٹ تھے لیکن آخری سیشن میں عبد القادر کے گس لوگی کو آؤٹ کرتے ہی عمران خان نے ایک اینڈ سے تباہی مچا دی اور بچنے والی تمام وکٹیں سمیٹ لی۔ اگر آخری وکٹ پر 34 رنز کی شراکت داری نہ قائم ہوتی تو ویسٹ انڈیز کہیں کم اسکور پر ڈھیر ہو جاتا۔ ویسٹ انڈین اننگز میں رچی رچرڈن اور گس لوگی بالترتیب 75 اور 80 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ پاکستانی قائد عمران خان نے 80 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں۔
دوسرے روز پاکستان نے پاکستان نے ابتدائی دونوں وکٹیں گنوانے کے باوجود جاوید میانداد کی ایک یادگار اننگز کی بدولت 435 رنز کا بڑا مجموعہ اکٹھا کیا۔ جاوید میانداد کی اس اننگز میں خوش قسمتی کا بھی بہت ہاتھ تھا جو 27 کے انفرادی اسکور پر کیچ دے بیٹھے تھے لیکن گیند نو-بال قرار پائی جبکہ 87 کے مجموعے پر وکٹ کیپر نے ان کا ایک کیچ بھی چھوڑایہاں تک کے دوسرے روز کا اختتام ہوگیا اور جاوید میانداد 96 رنز کے ساتھ ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ تیسرے روز انہوں نے مجموعی طور پر اپنی 16 ویں اور ویسٹ انڈیز کےخلاف پہلی سنچری مکمل کی۔ 297 رنز پر جاوید میاندادکے پیٹرک پیٹرسن کے ہاتھ بولڈ ہونے کے ساتھ آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی، لیکن وکٹ کیپر سلیم یوسف کی 62 رنز کی عمدہ اننگز اور اعجاز احمد، عمران خان اور عبد القادر کے بھرپور ساتھ نے پاکستان کو 143 رنز کی زبردست برتری دلا دی۔ اس بڑے مجموعے میں ایک اہم کردار ویسٹ انڈیز کی جانب سے دیے گئے 71 فاضل رنز کا بھی تھا،جن کا جاوید میانداد کے بعد پاکستانی اننگز میں سب سے بڑا حصہ تھا، ان میں 38 نو-بالز اور 4 وائیڈ گیندیں بھی شامل تھیں۔ یہ اس وقت سب سے زیادہ اضافی رنز کا ایک عالمی ریکارڈ تھا۔
اس زبردست برتری نے پاکستان کو ویسٹ انڈیز پر غالب کر دیا اور یہی دباؤ تھا جس کے باعث دوسری اننگز میں میزبان ٹیم پاکستان کا سامنا ہی نہیں کر پائی اور محض 172 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ چوتھے روز عبد القادر نے فل سیمنز اور رچی رچرڈسن کی اہم وکٹیں حاصل کیں اور بعد ازاں گورڈن گرینج اور گس لوگی کے درمیان 65 رنز کی رفاقت کا خاتمہ کرنے عمران خان کے ہاتھوں ہوا۔ پہلے لوگی عمران کی گیند پر وکٹ کیپر سلیم یوسف کے ایک شاندار کیچ کا نشانہ بنے اور بعد میں گورڈن گرینج کلین بولڈ ہو گئے۔ اب سوائے بارش کے کوئی چیز ویسٹ انڈیز کو شکست سے نہیں بچا سکتی تھی۔
عمران خان کا قائدانہ انداز بالکل نرالا تھا، وہ آجکل کے کپتانوں کی طرح چند وکٹیں گرنے کے بعد مطمئن ہو کر کھڑے نہیں ہو جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ کھانے کے وقفے کے بعد انہوں نے بجائے اپنے اسٹرائیک باؤلر وسیم اکرم کو گیند دینے کے جز وقتی اسپنر شعیب محمد کو گیند تھمائی جنہوں نے دو مسلسل گیندوں پر جیفری ڈیوجون اور ونسٹن بینجمن کو آؤٹ کر کے تہلکہ مچا دیا۔ عبد القادر نے 30 کے انفرادی اسکور کے ساتھ کھیلنے والے آخری ممکنہ خطرے کارل ہوپر کو پویلین لوٹایا تو عمران خان نے یکے بعد دیگرے دو گیندوں پر آخری دونوں وکٹیں گرا کر محض 172 رنز پر ویسٹ انڈیز کی دوسری اننگز کی بساط لپیٹ دی۔
دوسری اننگز میں بھی میزبان کپتان گرینج 43 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے جبکہ ان کے پاکستانی ہم منصب عمران خان نے ایک مرتبہ پھر سب سے زیادہ یعنی 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ اسپن جادوگر عبد القادر کو 3 وکٹیں ملیں۔پاکستان کو جیتنے کے لیے صرف 30 رنز کا ہدف ملا جو اس نے چائے کے وقفے تک محض ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا اور یوں چوتھے ہی روز میچ کا خاتمہ کر دیا۔
گو کہ پاکستان نے 80ء اور 90ء کی دہائی میں ہر اس کار نمایاں کو انجام دیا، جس کی دنیا بھر کی ٹیمیں خواہش کرتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ویسٹ انڈیز کو اسی کی سرزمین پر سیریز ہرانے کا خواب آج تک پورا نہیں کر سکا۔ 1988ء کی اِس سیریز میں پاکستان کے پاس سنہری موقع تھا کیونکہ برج ٹاؤن، بارباڈوس میں ہونے والے آخری ٹیسٹ تک اسے سیریز میں 1-0 کی برتری حاصل تھی اور وہ اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر ویسٹ انڈیز کی اس ٹیم کو ہرا سکتا تھا، جو اپنے دو اہم ترین کھلاڑیوں ویوین رچرڈز اور میلکم مارشل سے محروم تھی۔ لیکن تیسرے ٹیسٹ میں 266 رنز کا تعاقب کرنے والی ویسٹ انڈین ٹیم کی 8 وکٹیں 207 رنز پر حاصل کرنے کے باوجود پاکستان مقابلہ نہ جیت پایا۔ جیفری ڈیوجون اور ونسٹن بینجمن کی نویں وکٹ پر61 رنزکی ناقابل شکست رفاقت نے پاکستان کے کیریبین سرزمین پر سیریز جیتنے کے خواب کو چکناچور کر دیا۔ ڈیوجون نے 29 اور بینجمن نے 40 رنز کی شاندار اننگز کھیلیں اور مہمان ٹیم کو ایک یقینی فتح سے محروم کر دیا۔
اس تاریخی مقابلے کا اسکور کارڈ
ویسٹ انڈیز بمقابلہ پاکستان
پہلا ٹیسٹ
2 تا 6 اپریل 1988ء
بورڈا، جارج ٹاؤن، گیانا
نتیجہ: پاکستان 9 وکٹوں سے فتح یاب
میچ کے بہترین کھلاڑی: عمران خان
![]() | ر | گ | چ | چھ | |
---|---|---|---|---|---|
ڈیسمنڈ ہینز | ک سلیم یوسف ب عمران خان | 1 | 14 | 0 | 0 |
فل سمنز | ب اعجاز فقیہ | 16 | 23 | 3 | 0 |
رچی رچرڈسن | ک شعیب محمد ب عمران خان | 75 | 84 | 11 | 0 |
گورڈن گرینج | ک سلیم ملک ب وسیم اکرم | 17 | 53 | 2 | 0 |
گس لوگی | ایل بی ڈبلیو ب عبدالقادر | 80 | 96 | 11 | 0 |
کارل ہوپر | ک وسیم اکرم ب عمران خان | 33 | 100 | 4 | 0 |
جیفری ڈیوجون | ایل بی ڈبلیو ب عمران خان | 15 | 28 | 2 | 0 |
ونسٹن بنجمن | ایل بی ڈبلیو ب عمران خان | 2 | 13 | 0 | 0 |
کورٹنی واش | ب عمران خان | 7 | 7 | 1 | 0 |
کرٹلی ایمبرو | ناٹ آؤٹ | 25 | 43 | 3 | 0 |
پیٹرک پیٹرسن | ب عمران خان | 10 | 24 | 2 | 0 |
فاضل رنز | 11 | ||||
مجموعہ | 80.4 اوورز، آل آؤٹ | 292 |
پاکستان (گیند بازی) | ا | م | ر | و |
---|---|---|---|---|
عمران خان | 22.4 | 2 | 80 | 7 |
وسیم اکرم | 14 | 5 | 41 | 1 |
اعجاز فقیہ | 14 | 0 | 60 | 1 |
عبد القادر | 24 | 2 | 91 | 1 |
سلیم ملک | 1 | 0 | 6 | 0 |
مدثر نذر | 5 | 2 | 9 | 0 |
![]() | ر | گ | چ | چھ | |
---|---|---|---|---|---|
مدثر نذر | ب ایمبروز | 29 | 39 | 5 | 0 |
رمیز راجا | ک ہینز ب پیٹرسن | 5 | 11 | 1 | 0 |
شعیب محمد | ک گرینج ب واش | 46 | 67 | 3 | 0 |
جاوید میانداد | ب پیٹرسن | 114 | 235 | 12 | 0 |
سلیم ملک | ک گرینج ب پیٹرسن | 27 | 97 | 3 | 0 |
اعجاز احمد | ک ہینز ب ایمبروز | 31 | 85 | 3 | 0 |
عمران خان | ک سمنز ب بنجمن | 24 | 31 | 3 | 0 |
سلیم یوسف | ایل بی ڈبلیو ب واش | 62 | 103 | 5 | 0 |
اعجاز فقیہ | ب ہوپر | 5 | 22 | 1 | 0 |
عبد القادر | ب واش | 19 | 55 | 3 | 0 |
وسیم اکرم | ناٹ آؤٹ | 2 | 6 | 0 | 0 |
فاضل رنز | 71 | ||||
مجموعہ | 122 اوورز، آل آؤٹ | 435 |
ویسٹ انڈیز (گیند بازی) | ا | م | ر | و |
---|---|---|---|---|
پیٹرک پیٹرسن | 24 | 1 | 82 | 3 |
کرٹلی ایمبروز | 28 | 5 | 108 | 2 |
کورٹنی واش | 27 | 4 | 80 | 3 |
ونسٹن بنجمن | 31 | 3 | 99 | 1 |
کارل ہوپر | 12 | 0 | 37 | 1 |
![]() | ر | گ | چ | چھ | |
---|---|---|---|---|---|
ڈیسمنڈ ہینز | ب اعجاز فقیہ | 5 | 31 | 1 | 0 |
فل سمنز | ب عبد القادر | 11 | 46 | 2 | 0 |
رچی رچرڈسن | ک سلیم یوسف ب عبد القادر | 16 | 39 | 3 | 0 |
گورڈن گرینج | ب عمران خان | 43 | 91 | 6 | 0 |
گس لوگی | ک سلیم یوسف ب عمران خان | 24 | 29 | 4 | 0 |
کارل ہوپر | ک سلیم ب عبد القادر | 30 | 79 | 2 | 0 |
جیفری ڈیوجون | ک عمران خان ب شعیب محمد | 11 | 38 | 1 | 0 |
ونسٹن بنجمن | ک جاوید میانداد ب شعیب محمد | 0 | 1 | 0 | 0 |
کورٹنی واش | ک سلیم یوسف ب عمران خان | 14 | 20 | 3 | 0 |
کرٹلی ایمبروز | ناٹ آؤٹ | 1 | 3 | 0 | 0 |
پیٹرک پیٹرسن | ب عمران خان | 0 | 1 | 0 | 0 |
فاضل رنز | 17 | ||||
مجموعہ | 62.4 اوورز، آل آؤٹ | 172 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
وسیم اکرم | 6 | 1 | 7 | 0 |
عمران خان | 14.4 | 0 | 41 | 4 |
اعجاز فقیہ | 15 | 4 | 38 | 1 |
عبد القادر | 25 | 5 | 66 | 3 |
شعیب محمد | 2 | 0 | 8 | 2 |
![]() | ر | گ | چ | چھ | |
---|---|---|---|---|---|
مدثر نذر | ایل بی ڈبلیو پیٹرسن | 0 | 3 | 0 | 0 |
رمیز راجا | ناٹ آؤٹ | 18 | 11 | 2 | 1 |
شعیب محمد | ناٹ آؤٹ | 13 | 10 | 3 | 0 |
فاضل رنز | 1 | ||||
مجموعہ | 3.3 اوورز، 1 آؤٹ | 32 |
ویسٹ انڈیز (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
پیٹرک پیٹرسن | 2 | 0 | 19 | 1 |
کرٹلی ایمبروز | 1.3 | 0 | 13 | 0 |