[آج کا دن] جب پاکستان نے بھارت کو ڈھاکہ میں شکست دی

0 1,038

ملک ہو بنگلہ دیش، ایک حریف ہو بھارت اور دن ہو 14 جون کا، یہ بھارت کے لیے کبھی خوش قسمت نہیں رہا۔ آج ڈھاکہ کے جنوب میں واقع فتح اللہ کے خان صاحب عثمان علی اسٹیڈیم میں بارش نے بھارت کو ایک مایوس کن نتیجے تک پہنچایا، بلکہ درحقیقت مقابلے کو نتیجے تک ہی نہیں پہنچنے دیا اور اس کا خسارہ مہمان کو بھگتنا پڑا۔ سیریز کا واحد مقابلہ بے نتیجہ ہونے کی وجہ سے بھارت عالمی درجہ بندی میں اپنے تیسرے مقام سے محروم ہوگیا ہے اور اب چوتھے نمبر پر آن پڑا ہے۔ لیکن آج سے ٹھیک 7 سال پہلے بھی 14 جون کا دن بھارت کے لیے اس سے کہیں زیادہ مایوس کن تھا۔ 2008ء میں کٹ پلائی کپ کے فائنل میں پاکستان نے اسے ایک یادگار مقابلے کے بعد شکست دی اور یوں 1998ء کے آزادی کپ فائنل کی شکست کا پورا پورا بدلہ لیا۔

14 جون 2008ء کو ڈھاکہ کے نواح میں واقع میرپور کے شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان کے کپتان شعیب ملک نے ٹاس جیتا تو ان کے ذہن میں نہ صرف 10 سال قبل کی مایوس کن شکست کا بدلہ ہوگا، بلکہ ساتھ ہی کٹ پلائی کپ کے پہلے مقابلے میں بھارت کے ہاتھوں کراری شکست بھی ان کے ذہن میں گھوم رہی ہوگی۔ ایک طرف کپتان کے مطمع نظر فتح تھی، تو دوسری جانب یونس خان کے لیے بھی کچھ کر دکھانا بہت ضروری تھا۔ ٹورنامنٹ کے ابتدائی دونوں مقابلوں میں صفر کی ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد یونس نے بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے بڑے مقابلے کا انتخاب کیا اور اپنی چوتھی ایک روزہ سنچری کے ذریعے میدان مار لیا۔ انہوں نے سلمان بٹ کے ساتھ دوسری وکٹ پر 205 رنز کی ایسی شراکت داری قائم کی، جو پاکستان کی بھارت کے خلاف طویل ترین ساجھے داری نہ سہی، لیکن یادگار ترین ضرور ہے۔ دونوں نے بھارت کی باؤلنگ صلاحیت کی کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور ڈھاکہ کے اس مہربان میدان کا بھی، کہ جہاں پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنی طویل ترین پانچ میں سے تین شراکت داریاں بنائی ہیں۔

یونس خان نے صرف 92 گیندوں پر بھارت کے خلاف اپنی دوسری سنچری بنائی جبکہ سلمان بٹ نے 121 گیندوں پر تہرے ہندسے کو حاصل کیا۔ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوکر اپنے روشن مستقبل کو تباہ کرنے والے سلمان کی یہ بھارت کے خلاف ہی پانچویں سنچری تھی۔ بہرحال، ان دونوں کا ساتھ اس وقت ٹوٹا جب پاکستان 42 اوورز میں 239 رنز تک پہنچا۔ یونس 99 گیندوں پر 108 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ سلمان بٹ 136 گیندوں پر 129 رنز کے ساتھ ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے۔ پاکستان مصباح الحق کے 21 گیندوں پر 33 رنز کی بدولت صرف 3 وکٹوں پر 315رنز تک پہنچا۔ بھارت نے آٹھ گیندباز آزمائے لیکن سوائے پروین کمار کے کوئی بھی رنز روکنے میں کامیاب نہ دکھائی دیا۔ پیوش چاولہ نے 10اوورز میں 85 رنز کی مار کھائی جبکہ عرفان پٹھان کو دو وکٹیں ضرور ملیں لیکن انہوں نے 59 رنز دیے۔

بھارت کی 'دیوارِ ہند' یعنی بیٹنگ لائن کو عبور کرنے کے لیے پاکستان کو جلد از جلد وکٹیں حاصل کرنے کی ضرورت تھی اور جب اپنے پہلے ہی اوور مین سہیل تنویر نے خطرناک وریندر سہواگ کو ٹھکانے لگایا تو گویا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ مڈ آف پر کپتان شعیب ملک نے سہواگ کا کیچ لیا تو میدان میں پاکستان کے ہزاروں حامیوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ بھارت کے رنز بننے کی رفتار تو کم نہ ہوئی لیکن عمر گل نے مختصر وقفے سے گوتم گمبھیر اور روہیت شرما کو آؤٹ کرکے اس کو زبردست دھچکا ضرور پہنچایا۔ تہرے ہندسے میں داخل ہونے کے کچھ دیر بعد بھارت کو یوسف پٹھان کی صورت میں چوتھی وکٹ بھی گنوانی پڑی اور یوں مقابلہ پاکستان کی گرفت میں آ گیا۔ آنے والے بلے بازوں میں یووراج سنگھ اور مہندر سنگھ دھونی نے قابل ذکر مزاحمتیں کیں لیکن بڑھتا ہوا درکار رن اوسط انہیں تیز رفتاری سے کھیلنے پر مجبور کرتا رہا اور یہی وجہ تھی کہ اہم مواقع پر بھارت نے وکٹیں گنوائیں۔ یووراج 59 گیندوں پر 59 رنز بنانے کے بعد عمر گل کا تیسرا شکار بنے جبکہ دھونی آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی تھے۔ بھارت کی اننگز 290 رنز پر مکمل ہوئی اور یوں پاکستان نے پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد کوئی ایک روزہ ٹورنامنٹ جیتا۔ عمر گل نے 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ افتخار انجم اور شاہد آفریدی نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں۔

یونس خان کو بڑے مقابلے میں بڑی اننگز کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ ٹورنامنٹ میں شاندار کارکردگی پر سلمان بٹ کو سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔

پاکستان اور بھارت کے کرکٹ تعلقات نئے عروج پر پہنچتے دکھائی دے رہے تھے کہ اس مقابلے کے پانچ ماہ بعد ممبئی میں دہشت گردوں کے حملے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کی جانیں گئیں اور بھارت نے ہمیشہ کی طرح اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا۔ سیاسی تعلقات تو درکنار کرکٹ تعلقات تک ختم ہوگئے اور اس کےبعد سے آج تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی مکمل سیریز نہیں کھیلی گئی۔ بین الاقوامی ٹورنامنٹس کے علاوہ ایک مختصر ایک روزہ سیریز 2012ء کے اواخر میں کھیلی گئی ۔ اس کے علاوہ یہ 7 سال مکمل طور پر بنجر رہے ہیں۔ امید ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں یہ سردمہری جلد ختم ہوگی اور ہمیں کٹ پلائی کپ کے فائنل جیسے شاہکار مقابلے مزید دیکھنے کو ملیں گے۔