[ورلڈ ٹی ٹوئنٹی] افتتاحی بلے بازوں کا کردار کلیدی ہوگا

2 1,128

کرکٹ کی مختصر ترین طرز ہونے کی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی کی ایک اننگز میں سب سے کم گیندیں کھیلی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس فارمیٹ میں اوپنرز کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ ٹیم کے یہی وہ بلے باز ہوتے ہیں جن کے بارے میں امکان ہوتا ہےکہ سب سے زیادہ گیندیں کھیلیں گے۔ ٹی ٹوئنٹی میں اوپنرز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں اب تک بننے والی 10 میں سے 9 سنچریاں اوپنرز ہی نے بنائی ہیں۔ پھر گزشتہ چار ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز اوپنرز ہی رہے ہیں اور ممکنہ طور پر بنگلہ دیش میں کھیلے جا رہے موجودہ ٹورنامنٹ میں بھی یہ روایت برقرار رہے گی۔

احمد شہزاد پاکستان کی جانب سے طویل ترین ٹی ٹوئنٹی اننگز کھیلنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں (تصویر: AFP)
احمد شہزاد پاکستان کی جانب سے طویل ترین ٹی ٹوئنٹی اننگز کھیلنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں (تصویر: AFP)

بنگلہ دیش کی سست وکٹوں پر جہاں دوسری اننگز کے دوران وکٹ اسپنرز کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے، اوپنرز کو حالات سنبھالنے ہوں گے اور ابتدائی چھ اوورز کے پاور پلے کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا تاکہ ٹیم کو بہترین آغاز میسر آسکے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2014ء کے فارمیٹ کے تحت عالمی درجہ بندی کی سرفہرست آٹھ ٹیموں نے براہ راست مین راؤنڈ میں جگہ پائی ہے اور یہی سمجھا جا رہا ہے کہ ان میں سے ہی کوئی ٹیم 6 اپریل کو عالمی اعزاز اپنے نام کرے گی۔

گو کہ کھیل کے تمام شعبوں میں یہ ٹیمیں بھرپور قوت رکھتی ہیں لیکن ہم ذیل میں سرفہرست ٹیموں کے اوپنرز کا جائزہ پیش کررہے ہیں، ایسے بلے باز تن تنہا کھیل کا پانسہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آغاز کرتے ہیں ویسٹ انڈیز کے 'دیو قامت' کرس گیل سے۔ ان کی بے رحمانہ بلے بازی نے کئی ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کا فیصلہ ویسٹ انڈیز کے حق میں کیا ہے۔ انہیں ٹی ٹوئنٹی تاریخ کی پہلی سنچری بنانے کا اعزاز حاصل ہے اور ان کا 33.21 کا اوسط اور 140.33 کا اسٹرائیک ریٹ کسی بھی حریف کے لیے بھیانک ترین منظر ہے۔ کرس گیل کو اپنی دھواں دار بلے بازی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ویسٹ انڈیز اپنے ٹی ٹوئنٹی اعزاز کا کامیابی سے دفاع کرنے والی پہلی ٹیم بن جائے۔

آسٹریلیا کے ڈیوڈ وارنر ایک اور دھماکہ خیز بلے باز ہیں جو جب چاہیں اپنے بلے سے معجزانہ کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ یہ وارنر کا تیسرا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ ہوگا اور گزشتہ مہینوں میں مختلف حالات میں ٹیسٹ اور ایک روزہ مقابلوں سے حاصل کردہ تجربے نے انہیں اتنا سخت جان بنا دیا ہے کہ وہ آسٹریلیا کے اعزازات کی فہرست میں واحد کمی یعنی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی حاصل کرسکتے ہیں۔ چند ماہ قبل آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے دوران وہ نظم و ضبط کے مسائل کا شکار تھے۔ لیکن اس ورلڈ ٹی ٹوئنٹی نے انہیں عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا ایک اور موقع دیا ہے۔ وارنر اپنی موجودہ فارم کا فائدہ اٹھا کر تینوں طرز کی کرکٹ میں سنچریاں بنانے والے کھلاڑیوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈن میک کولم ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلوں میں دو سنچریوں کے ذریعے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلاشبہ ایک خطرناک کھلاڑی برینڈن میک کولم 64 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 36.27 کے اوسط اور 135.57 کے اسٹرائیک ریٹ کے حامل ہیں۔ میک کولم اور نیوزی لینڈ کے دیگر بلے بازوں کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ معیاری اسپنرز کی عدم موجودگی میں ٹیم کی باؤلنگ نسبتاً کمزور ہے۔

شیکھر دھاون بھارت کی ایک مرتبہ پھر اعزاز دلانے کی خواہش کو پورا کرسکتے ہیں (تصویر: Getty Images)
شیکھر دھاون بھارت کی ایک مرتبہ پھر اعزاز دلانے کی خواہش کو پورا کرسکتے ہیں (تصویر: Getty Images)

بھارت کے پاس شیکھر دھاون ہیں، جو دنیا کی کسی بھی باؤلنگ کے ادھیڑ کر رکھ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گو کہ انہوں نے صرف دو ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلے ہیں لیکن ٹیسٹ اور ایک روزہ طرز کی کرکٹ میں کارکردگی ان کی صلاحیتوں اور دھواں دار بلے بازی کو ثابت کرتا ہے۔ بلاشبہ بھارت ٹورنامنٹ کی سب سے مضبوط بیٹنگ لائن اپ رکھتا ہے۔

جنوبی افریقہ، آئی سی سی کے ٹورنامنٹس کا مشہور زمانہ چوکر، نسبتاً آسان گروپ میں ہے۔ باؤلرز کی پٹائی لگانے والے کئی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ان کے پاس معصوم صورت لیکن انتہائی خطرناک کوئنٹن ڈی کوک بھی ہے۔ ڈی کوک کی صلاحیتوں اور فارم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی سنچری کے لیے 9 ایک روزہ مقابلوں کا انتظار کرنا پڑا لیکن اس کے بعد انہوں نے اگلے سات مقابلوں میں تین سنچریاں داغ ڈالیں۔ گو کہ وہ 12 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں ایسی کوئی اننگز نہیں تراش سکے، لیکن 37.37 کا اوسط ان کی مستقل مزاجی کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان کے احمد شہزاد کا یہ تیسرا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ہوگا۔ حال ہی میں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں احمد شہزاد نے جیسی فارم دکھائی ہے اس نے انہیں پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ کا ایک اہم پرزہ بنا دیا ہے۔ احمد شہزاد کسی ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں پاکستان کی طرف سے طویل ترین اننگز کھیلنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ البتہ ان کے پاس جس صلاحیت کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ مستقل چھکے لگانا ہے لیکن پھر بھی اپنی بہترین ٹائمنگ اور فیلڈرز کے درمیان سے گیند نکالنے کی صلاحیت کی وجہ سے وہ اس خامی پر قابو پا سکتے ہیں۔

اس فہرست کے آخری بلے بازی ہیں سری لنکا کے کوشال پیریرا، حریف ٹیموں کو پریشانی میں مبتلا کرنے والے کوشال نے اب تک صرف 11 ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلے ہیں اور ان میں 35.07 کا اوسط اور 129.96 کا بہترین اسٹرائیک ریٹ ان کی صلاحیتوں کا عکاس ہے اور حریف باؤلرز کو ہوشیار کردینے کے لیے کافی ہے۔