سلمان بٹ کو ڈھائی سال، آصف کو ایک سال اور عامر کو 6 ماہ قید کی سزا

10 1,040

برطانیہ کی عدالت نےبدعنوانی و دھوکہ دہی کا الزام ثابت ہونے پر پاکستان کے سابق کپتان سلمان بٹ کو 2 سال 6 ماہ، تیز گیند باز محمد آصف کو ایک سال اور محمد عامر کو 6 ماہ قید کی سزا سنا دی گئی جبکہ اسپاٹ فکسنگ تنازع کے مرکزی کردار سٹے باز مظہر مجید کو 2 سال 8 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

کرکٹ کی تاریخ کے ایک افسوسناک لیکن مستقبل کے لیے عبرت انگیز و حوصلہ افزا دن میں برطانوی دارالحکومت لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں جسٹس جیریمی لیونل کک نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا۔ فیصلے سے قبل صبح کمرۂ عدالت میں داخل ہونے کے لیے صحافیوں اور عام لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی اور کمرۂ عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ جج نے کارروائی کے آغاز سے قبل ان تمام افراد کو باہر جانے کا کہا جو نشستیں نہ ملنے کی وجہ سے کمرۂ عدالت کے فرش پر بیٹھ گئے تھے کیونکہ وہاں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

محمد عامر کو سب سے کم یعنی 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی (تصویر: AFP)
محمد عامر کو سب سے کم یعنی 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی (تصویر: AFP)

بعد ازاں مقدمے کو سمیٹتے ہوئے جج نے کہا کہ کہ اِن کھلاڑیوں نے کرکٹ کے دامن کو ہمیشہ کے لیے داغدار کر دیا ہے۔ اب مستقبل میں لوگ جب بھی کھیل کے دوران کوئی حیران کن کارنامہ انجام ہوتا دیکھیں گے تو وہ سوچیں گے کہ کیا یہ حقیقت میں ہو رہا ہے یہ مقابلہ طے شدہ ہے؟ ۔ انہوں نے کہا کہ آپ سب دنیا بھر میں اپنے ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہیں، اک ایسے ملک کی جہاں کرکٹ کو بہت زیادہ چاہا جاتا ہے۔ آپ چاروں کے جرائم اتنے بھاری ہیں کہ قید کی سزا دیے بغیر اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ اس موقع پر جسٹس جیریمی کک نے کہا کہ وہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کھلاڑیوں کو دی گئی سزا کو بھی ذہن میں رکھ کر سزائیں دیں گے۔

اس دوران تینوں کھلاڑی اور مظہر مجید خاموشی سے چھت کی جانب تکتے رہے یا رخ جج کی جانب کیے رہے۔

جج نے سب سے پہلے مظہر مجید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بالکل واضح ہے کہ اس پورے معاملے کے منصوبہ ساز آپ ہیں۔ آپ نے اس سے بہت پیسہ بنایا اور سلمان بٹ کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو آگے بڑھایا اس لیے عدالت آپ کو 2 سال 8 ماہ قید کی سزا دیتی ہے۔

مظہر مجید کو سزا سنانے کے بعد جج نے سلمان بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قابل عزت و مرتبہ شخصیت تھے اور ٹیم کے قائد کی حیثیت سے بھی آپ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ میں آپ کو نوجوان محمد عامر کو خراب کرنے کا بھی ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ اس لیے عدالت آپ کو دو سال 6 ماہ یعنی 30 مہینے قید کی سزا دیتی ہے۔

بعد ازاں آصف کو مخاطب کرتے ہوئے جج نے کہا کہ "گو کہ آپ کے پاس سے کوئی رقم برآمد نہیں ہوئی، لیکن یہ واضح ہے کہ آپ نے جان بوجھ کر نو بال پھینکی۔ اس سے قبل کہیں فکسنگ کرنے کی کوئی شہادت تو موجود نہیں ہے لیکن یہ ماننا مشکل نظر آتا ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ ہی یہ کام کیا ہو۔ اس کے بعد انہوں نے آصف کو ایک سال قید کی سزا سنائی۔

آخر میں جج نے 19 سالہ محمد عامر سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کے گزشتہ روز کے تحریری بیان سے متفق نہیں ہوں، جس میں آپ کا کہنا تھا کہ آپ نے صرف ایک مرتبہ یہ کام کیا ہے اور آپ پر اس کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ البتہ جج نے یہ ضرور کہا کہ اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے کوئی بیان جاری کرنے پر محمد عامر اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی گئی تھیں اور ان کے دیہی پس منظر اور کم تعلیم کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ان تمام شواہد کو نظر میں رکھتے ہوئے عدالت نے انہیں 6 ماہ قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے مزید وضاحت کی کہ کیونکہ محمد عامر کی عمر کم ہے اس لیے انہیں جیل نہیں بھیجا جائے گا بلکہ کم عمر مجرموں کے ادارے میں رکھا جائے گا۔

قید کے دوران کھلاڑیوں کے اچھے رویے کی بنیاد پر انہیں نصف سزا پوری ہونے کے بعد رہا کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں جج نے چاروں مدعا علیہان کو استغاثہ کے اخراجات کی تکمیل کے لیے مندرجہ ذیل رقوم پیش کرنے کا حکم دیا:

مظہر مجید: 56 ہزار 554 برطانوی پاؤنڈز ( 77 لاکھ 72 ہزار پاکستانی روپے)

سلمان بٹ: 30 ہزار 937 برطانوی پاؤنڈز ( ساڑھے 42 لاکھ پاکستانی روپے)

محمد آصف: 8 ہزار 120 برطانوی پاؤنڈز ( 11 لاکھ 16 ہزار پاکستانی روپے)

محمد عامر: 9 ہزار 389 برطانوی پاؤنڈز ( 12 لاکھ 90 ہزار پاکستانی روپے)

تینوں کھلاڑیوں اور مظہر مجید کے وکلا نے گزشتہ روز عدالت میں رحم کی اپیلوں کے ساتھ ان کے حتمی دلائل پیش کیے اور بعد ازاں محمد عامر کا تحریری بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا جس میں انہوں نے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین سے معافی طلب کی۔

پاکستان کے یہ تین کھلاڑیوں کو سال 2010ء میں دورۂ انگلستان میں کھیلے گئے لارڈز ٹیسٹ میں جان بوجھ کر نو بال پھینکنے کے الزام پر دھر لیے گئے تھے۔ یہ پورا معاملہ ایک مصالحہ اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' سے تعلق رکھنے والے صحافی مظہر محمود نے ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے طشت از بام کیا تھا۔

بعد ازاں تینوں کھلاڑیوں پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کم از کم 5،5 سال کی پابندی عائد کی گئی۔ جس کے بعد برطانیہ میں اُن پر دھوکہ دہی کی سازش اور بدعنوانی کے تحت رقوم کی وصولی کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا جس کا فیصلہ آج قید کی سزاؤں کے ساتھ ہوا۔