کامران اور وہاب بھی مشتبہ، عامر قربانی کا بکرا، استغاثہ کے دلائل مکمل

1 1,014

کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دینے والے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کا مقدمہ برطانیہ کی عدالت میں اپنے اختتامی مرحلے کی جانب گامزن ہے اور سماعت کے چودہویں روز استغاثہ نے اپنے دلائل مکمل کیے اور کہا کہ ان کے پاس 13 "حقائق" ہیں جو مدعا علیہان محمد آصف اور سلمان بٹ کو مجرم ثابت کرتے ہیں، جبکہ انہوں نے اس پورے معاملے میں نوجوان محمد عامر کو قربانی کا بکرا اور کامران اکمل اور وہاب ریاض کے کردار کو "انتہائی مشتبہ" قرار دیا۔ لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں وکیل استغاثہ آفتاب جعفر جی نے کہا کہ تنازع کے مرکزی کردار مظہر مجید سے قریبی تعلقات کے باوجود وہاب ریاض اور کامران اکمل کو ملزم قرار نہ دیا جانا حیران کن ہے۔

استغاثہ کے مطابق عامر اپنے سینئرز کے بچھائے گئے جال میں پھنسا اور اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا (تصویر: Getty Images)
استغاثہ کے مطابق عامر اپنے سینئرز کے بچھائے گئے جال میں پھنسا اور اسے قربانی کا بکرا بنایا گیا (تصویر: Getty Images)

وکیل استغاثہ نے کہا کہ مظہر مجید نے جن سات کھلاڑیوں کو اپنے قابل بھروسہ "فکسرز" قرار دیا تھا ان میں یہ دو کھلاڑی بھی شامل تھے۔ جبکہ معاملہ منظرعام پر لانے والے اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' کی جاری کردہ ایک وڈیو میں بھی وہاب ریاض ہی مظہر مجید سے ایک جیکٹ وصول کرتے نظر آئے تھے جس کی جیب میں مبینہ طور پر 10 ہزار پاؤنڈز تھے۔

انہوں نے کہا کہ کرکٹ کی تمام تر اصطلاحات سے قطع نظر یہ مقدمہ کھیل کے ذریعے بدعنوانی کا ہے اور اس کا کرکٹ کے تکنیکی معاملات سے کوئی تعلق نہیں اس لیے عدالت کو اپنی تمام تر توجہ بدعنوانی و دھوکہ دہی کے معاملے پر رکھنی چاہیے۔

آفتاب جعفر جی نے کہا کہ محمد عامر کو "قربانی کا بکرا" بنایا گیا بلکہ اگر کرکٹ کی اصطلاح میں کہا جائے تو وہ "نائٹ واچ مین" تھا، جو اپنے سینئر کھلاڑیوں کے بنے ہوئے جال میں پھنس گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مدعا علیہان محمد آصف اور سلمان بٹ اس بات پر متفق دکھائی دیے کہ محمد عامر اس معاملے میں مظہر مجید سے ملا ہوا تھا اور بقول اِن کے سازش ہی محمد عامر کی تھی۔

اس موقع پر استغاثہ نے جرح کے دوران سلمان بٹ کے ایک بیان کو آڑے ہاتھوں لیا، جس میں ایک سوال کے جواب میں کہ سٹے بازی کھیل کا حسن اور اس کی کشش کو برباد کر دیتی ہے، سلمان بٹ نے کہا تھا کہ عالمی ریسلنگ فیڈریشن کی کشتیوں میں بھی مقابلے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں لیکن لاکھوں کروڑوں لوگ انہیں دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بیان سے ہی ان کی ذہنیت و شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

آفتاب جعفر جی نے کہا کہ اگر یہ تمام کھلاڑی بے گناہ اور معصوم ہیں تو پھر ہم اتفاق بلکہ حسنِ اتفاق کی ایک عجوبہ سی دنیا میں داخل ہوتے ہیں لیکن ایک ایسا موقع ضرور آتا ہے جب عقل سلیم ان اتفاقات کے خلاف بغاوت کر دیتی ہے۔ وکیل استغاثہ نے اپنی تقریر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ "کوئی کھلاڑی کھیل سے بڑھ کر نہیں اور کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔"

قبل ازیں آفتاب جعفر جی نے اپنے13 "حقائق" بھی پیش کیے، جن میں بتایا گیا تھا کہ سلمان بٹ اور مظہر مجید کے درمیان فون کالز اور موبائل پیغامات کا سلسلہ مئی 2010ء میں شروع ہو چکا تھا، اور چاہے وہ بقول سلمان کے "مذاق" اور "جانچنے" والے بیانات ہی ہوں لیکن ان کا آپس میں رابطہ تھا اور وہ بھی بدعنوانی کے حوالے سے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مظہر مجید نے بہروپ بدل کر ملنے والے صحافی مظہر محمود کو 25 اگست کی رات 11 بجے بتایا تھا کہ اگلے روز یہ نو بالز پھینکی جائیں گی جن میں محمد عامر تیسرے اوور کی پہلی گیند، محمد آصف دسویں اوور کی آخری گیند اور محمد عامر جوناتھن ٹراٹ کو 'راؤنڈ دی وکٹ' بال کراتے ہوئے ایک نو بال پھینکیں گے۔ اور "اس سلسلے میں کپتان کام کر رہا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ محمد عامر کی تیسری نو بال موسم کی خرابی کے باعث کھیل جاری نہ ہونے کی وجہ سے نہ کی جا سکی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محمد عامر ان میں سب سے نوجوان اور کم تجربہ کار تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے تیسرے اوور کی پہلی گیند بہت بڑی نو بال کی صورت میں پھینکی۔ آصف زیادہ تجربہ کار اور پرانا کھلاڑی تھا اور اس نے دسویں اوور کی چھٹی گیند پر ایک واضح نو بال پھینکا۔ انہوں نے مزید حقائق بتاتے ہوئے کہا کہ 26 اگست کو رات 10 بجکر 11 منٹ پر مظہر مجید نے مظہر محمود کو بتایا کہ باقی رہ جانے والی نو بال اگلے روز تیسرے اوور کی تیسری گیند پر پھینکی جائے گی۔ اگلے روز محمد عامر نے زبردست گیند بازی کی اور مذکورہ نو بال پھینکنے سے پہلے انہوں نے سلمان بٹ سے گفتگو بھی کی اور پھر نو بال پھینکی۔انہوں نے کہا کہ ان تمام معاملات کو نظروں میں رکھیں تو آپ کے سامنے واضح پس منظر ابھرتا ہے۔

اسپاٹ فکسنگ مقدمے میں کل (منگل کو) وکلائے دفاع اپنے دلائل پیش کریں گے جس کے بعد عدالت بدھ کو ممکنہ طور پر فیصلے کا اعلان کرے گی یا پھر اسے محفوظ کرتے ہوئے فیصلے کی حتمی تاریخ دے گی۔

پاکستان کے تین کھلاڑی محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ گزشتہ سال اگست میں انگلستان کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں مبینہ طور پر جان بوجھ کر کرائی گئی نو بالز کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل تینوں کھلاڑیوں پر کم از کم 5،5 سال کی پابندیاں عائد کر چکی ہے اور کیونکہ واقعہ برطانیہ میں پیش آیا تھا اس لیے وہاں ان تینوں کے خلاف بدعنوانی و دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کیا گیا جس کی سماعت اس وقت برطانیہ میں جاری ہے۔ محمد عامر سماعت کے باضابطہ آغاز سے قبل ہی اعترافِ جرم کر چکے ہیں اور اب باقی دو کھلاڑی سلمان بٹ اور محمد آصف کا معاملہ زیر سماعت ہے اور دونوں کھلاڑی اب تک خود پر لگائے گئے الزامات کی تردیدکرتے آئے ہیں۔