جنوبی افریقہ کی نظریں تاریخی کامیابی اور نمبر ایک پوزیشن پر

1 1,116

جنوبی افریقہ دنیائے کرکٹ کی ایک بہت بڑی قوت ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس نے خود کو ہر طرز کی کرکٹ میں منوایا ہے لیکن 'لنکا ڈھانا' ایسا کام ہے، جو پروٹیز سے آج تک نہیں ہو سکا۔ گزشتہ 20 سالوں میں آسٹریلیا سے لے کر انگلستان اور پاکستان سے لے بھارت تک تقریباً سب ممالک کو انہی کے میدانوں پر سیریز میں شکست دینے والا جنوبی افریقہ سری لنکا کو اس عرصے میں چت نہیں کرسکا۔ اگست 1993ء میں پہلے دورۂ سری لنکا میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سے آج تک تین دوروں میں اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ دو میں تو اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سنہالیز اسپورٹس کلب میں 21 سال سے جنوبی افریقہ کوئی ٹیسٹ نہیں جیتا، اب دو دہائی سے پرانی تاریخ دہرانے کا انحصار ڈیل اسٹین پر ہے (تصویر: AFP)
سنہالیز اسپورٹس کلب میں 21 سال سے جنوبی افریقہ کوئی ٹیسٹ نہیں جیتا، اب دو دہائی سے پرانی تاریخ دہرانے کا انحصار ڈیل اسٹین پر ہے (تصویر: AFP)

نسل پرستانہ حکومت کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ میں عائد پابندی کے خاتمے کے بعد جنوبی افریقہ جب 1992ء میں بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آیا تو عالم نے ایک مختلف حکمت عملی کے ساتھ کھیلنے والی دلچسپ ٹیم کو دیکھا۔ فیلڈنگ میں جان مارنے والے، بیٹنگ میں خم ٹھونک کو کھڑے ہونے والے اور باؤلنگ میں جارحانہ مزاج رکھنے والے پروٹیز نے اپنا دوسرا دورہ سری لنکا کا کیا اور وہاں کولمبو کے سنہالیز اسپورٹس کلب میں دوسرا ٹیسٹ اننگز اور 208 رنز کے بھاری مارجن سے جیتا۔ یہ فتح فیصلہ کن ثابت ہوئی اور سیریز ایک-صفر سے جنوبی افریقہ کے نام رہی لیکن اس کے بعد سری لنکا کو اسی کے احاطے میں پچھاڑنا اس کے لیے ناممکن ہوگیا۔

سات سال بعد جب 2000ء میں وہ دوسری بار سری لنکا پہنچا تو کانڈی میں ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد دونوں ٹیمیں کو ایک-ایک کی برابری پر قانع ہونا پڑا۔ یہ سری لنکن میدانوں پر آخری لنکا-جنوبی افریقہ سیریز تھی جو برابر ہوئی اس کے بعد 2004ء میں سری لنکا نے ایک-صفر اور 2006ء میں دو-صفر سے کامیابیاں سمیٹیں۔ یعنی 1993ء کے کامیاب دورے کے بعد تین دوروں میں جنوبی افریقہ کو صرف ایک ٹیسٹ میچ جیتنے کو ملا اور دو مرتبہ تو وہ سیریز میں بھی شکست سے دوچار ہوا۔

اس بدترین حالیہ ریکارڈ کے ساتھ ہاشم آملہ کی قیادت میں جنوبی افریقہ پانچویں بار سری لنکا کے دورے پر پہنچا تو بہت کم لوگوں کو توقعا ت تھیں کہ وہ میزبان کو زیر کرپائیں گے۔ سری لنکا انگلستان کی سرزمین پر تاریخ کی پہلی سیریز کامیابی کے بعد بلند حوصلوں کے ساتھ اپنے میدانوں پر قدم جمائے ہوئے تھا لیکن ہاشم کے جنگجوؤں نے کمال کر دکھایا۔ گال میں کھیلے گئے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں ڈین ایلگر اور ژاں-پال دومنی کی سنچریوں اور ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل کی تباہ کن باؤلنگ نے جنوبی افریقہ کو ایک یادگار جیت سے ہمکنار کیا ہی، اور ساتھ ساتھ ایک ایسے مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں وہ 21 سالہ انتظار کا بھی خاتمہ کرسکتا ہے، سری لنکا کو اسی کے میدانوں میں سیریز ہرا کر۔ اس میچ میں ہاشم آملہ کی خطرہ مول لینے کی صلاحیت بھی کھل کر سامنے آئی۔ چوتھے دن کا آخری سیشن کھیل کر میچ کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے بجائے انہوں نے دوسری اننگز 206 رنز پر ہی ڈکلیئر کردی اوریوں سری لنکا کو پانچ سیشنز میں 370 رنز کا ہدف دیا۔ ایک مرحلے پر تو سری لنکا صرف ایک وکٹ پر 118 رنز بنا کر خطرے کی گھنٹی بھی بچا چکا تھا لیکن ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل نے 8 وکٹیں لے کر جنوبی افریقہ کو فتح سے ہمکنار کردیا۔

جنوبی افریقہ کی تاریخ کے پہلے غیر سفید فام کپتان ہاشم آملہ کے قائدانہ دور کا آغاز اس سے بہتر انداز میں نہیں ہو سکتا۔ سنہالیز اسپورٹس کلب ، کولمبو ہونے والے آج سے شروع ہونے والے ٹیسٹ میں کامیابی، یا محض اسے نتیجہ خیز بنانے سے روکنا ہی، جنوبی افریقہ کے سیریز جیتنے کے لیے کافی ہوگا۔ یہ وہی میدان ہے جہاں 1993ء میں ایلن ڈونلڈ اور بریٹ شولٹز کی تباہ کن باؤلنگ نے جنوبی افریقہ کو ایک بہت بڑی فتح سے نوازا تھا اور اب مہمان کھلاڑیوں کی امیدیں ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل سے وابستہ ہیں کہ 21 سال پرانی تاریخ کولمبو میں دہرائیں۔ گال ٹیسٹ میں انہوں نے میچ میں مشترکہ طور پر 16 وکٹیں حاصل کرکے اپنی اس اہلیت کو ظاہر تو کردیا ہے، اب دیکھتے ہیں کہ وہ کولمبو میں کیا کمال کر دکھاتے ہیں۔

جنوبی افریقہ کے لیے بونس یہ ہے کہ وہ کولمبو میں ٹیسٹ جیتنے کی صورت میں ایک مرتبہ پھر عالمی نمبر ایک بن جائے گا۔ وہ دو سال تک دنیا کی بہترین ٹیسٹ ٹیم رہنے کے بعد رواں سال آسٹریلیا کے ہاتھوں یہ مقام کھو بیٹھا اور سری لنکا کے خلاف سیریز میں دو-صفر کے مارجن سے جیت اسے ایک مرتبہ پھر نمبر ون بنا دے گی۔