سرفراز، اسد اور یاسر چھا گئے، پاکستان بالآخر گال میں کامیاب

1 1,043

پاکستان نے اسد شفیق اور سرفراز احمد کی کایاپلٹ بلے بازی اور پھر یاسر شاہ کی عمدہ باؤلنگ کی بدولت سری لنکا کو پہلے ٹیسٹ میں 10 وکٹوں کی زبردست شکست دینے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ پہلے دن کا کھیل بارش کی نذر ہوجانے اور دوسرے روز بدترین بلے بازی کے بعد شاید ہی کسی کو توقع ہوگی کہ پاکستان گال میں کامیابی سمیٹ پائے گا ، لیکن اسد شفیق کی ذمہ داری اننگز اور ساتھ ہی سرفراز احمد کی ایک اور میچ کا نقشہ بدل دینے والی باری نے پاکستان کو ایسا غلبہ عطا کیا کہ پھر سری لنکا سر نہ اٹھا سکا ۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ دوسری اننگز میں یاسر شاہ کی 7 وکٹوں نے پوری کردی جس کے بعد پاکستان نے 90 رنز کا آسان ہدف بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے حاصل کرکے سیریز میں ایک-صفر کی برتری حاصل کرلی۔

یہ گال میں 16 سال بعد پاکستان کی پہلی کامیابی تھی، بلکہ 9 سال بعد سری لنکا کی سرزمین پر جیتا ہوا پہلا ٹیسٹ بھی۔ پاکستان نے گال میں پہلی اور آخری بار 2000ء میں کامیابی حاصل کی تھی اور سری لنکا میں آخری ٹیسٹ 2006ء میں جیتا تھا۔ گال میں ہونے والے گزشتہ تین مقابلوں میں پاکستان کو مایوس کن شکستیں ہوئی تھیں، یہاں تک کہ آخری مقابلے میں سری لنکا نے ناقابل یقین کامیابی حاصل کرکے پاکستان پر غلبہ حاصل کیا تھا۔ لیکن اب یہ سب فتوحات ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔ پاکستان نے گال کا معرکہ سر کرکے ملک میں گرمی سے بےحال پاکستانی شائقین کرکٹ کو راحت کا لمحہ عطا کیا ہے۔

پہلے دن تو بارش کا یہ عالم تھا کہ گیند تو کجا ٹاس تک نہ ہوسکا۔ جب دوسرے روز پاکستانی قائد مصباح الحق نے ٹاس جیتا تو انہوں نے پہلے گیندبازی سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ بارش سے متاثرہ اس دن میں 64 اوورز کا کھیل ہی ممکن ہوسکا جس میں سری لنکا نے صرف 3 وکٹوں پر 178 رنز جوڑ کر پاکستان کے اس فیصلے کو غلط ثابت کر دکھایا۔ کمار سنگاکارا کی نصف سنچری اور کوشال سلوا کے ناقابل شکست 80 رنز پہلے دن کی اہم جھلک رہے۔ دوسرے کوشال مزید آگے بڑھے اور اپنی دوسری ٹیسٹ سنچری مکمل کی۔ تیسرے دن کوشال کے علاوہ کوئی بلے باز پاکستان کی گیندبازی کے سامنے زیادہ مزاحمت نہ کرسکا۔ وہاب ریاض اور ذوالفقار بابر نے تین، تین جبکہ یاسر شاہ اور محمد حفیظ نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے سری لنکا کو 300 رنزتک ہی محدود کردیا۔

گزشتہ دن کی مایوس کن کارکردگی کے بعدسری لنکا کی7 وکٹیں صرف 111 رنز پر ٹھکانے لگا دینا حوصلہ افزاء امر تھا لیکن باؤلرز کی اس محنت کا ابتدائی بلے بازوں نے چنداں فائدہ نہیں اٹھا پائے۔ پہلے ہی اوور میں محمد حفیظ پویلین سدھارے اور کچھ دیر بعد ساتھی اوپنر احمد شہزاد بھی ان کے نقش قدم پر جاتے دکھائی دیے۔ ابھی دم بھی نہ لیا ہوگا کہ اظہر علی رنگانات ہیراتھ کی پہلی وکٹ بنے۔ پاکستان دسویں اوور میں ہی صرف 35 رنز پر اپنے تین اہم بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ اب ذمہ داری مصباح الحق اور یونس خان پر تھی۔دونوں نے چوتھی وکٹ پر 51 رنز ہی جوڑے تھے کہ پہلے یونس کا بلاوا آ گیا۔ دلرووان پیریرا نے انہیں بولڈ کرکے پاکستان کی بیٹنگ لائن پرکاری ضرب لگائی، جس کی شدت اتنی تھی کہ کچھ ہی دیر بعد مصباح الحق بھی آؤٹ ہوگئے۔ تہرے ہندسے میں پہنچنے سے قبل ہی یعنی 96 رنز پر پاکستان کی آدھی ٹیم میدان بدر ہوچکی تھی۔ جب تیسرے دن کا کھیل مکمل ہوا تو اسکور بورڈ پر صرف 118 رنز اور کریز پر اسد شفیق اور سرفراز احمد کی صورت میں بلے بازوں کی آخری مستند جوڑی موجود تھی۔

چوتھے دن پاکستان کو کوئی معجزاتی کارکردگی ہی مقابلے میں واپس لا سکتی تھی۔ بظاہر تو ٹیسٹ ڈرا کی جانب جاتا دکھائی دیتا تھا لیکن پاکستان کی بیٹنگ نااہلی اور پھر چوتھی اننگز میں ہدف کے تعاقب میں کمزوری کو دیکھتے ہوئے ایسا بالکل نہیں لگتا تھا کہ پاکستان جیت پائے گا۔ لیکن یہاں سرفراز احمد نے، ماضی کی طرح، پانسہ پلٹ دینے والی اننگز کھیلی۔ باری کے اہم ترین موڑ پر، جہاں اچھے بھلے بیٹسمین اپنے خول میں چلے جاتے ہیں، سرفراز نے صرف 86 گیندوں پر 96 رنز کی ایسی اننگز کھیلی، جو پاکستان کو یکدم مقابلے میں واپس لے آئی۔ چوتھے دن کھانے کے وقفے سے قبل ہی پاکستان سری لنکا کے مجموعے سے صرف 41 رنز کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ یہاں اسد شفیق نے ذمہ داری بلے بازی کا مظاہرہ کیا اور باقی بچ جانے والے وسائل، یعنی بلے بازوں، کا بھرپور استعمال کیا۔ یاسر شاہ نے 23 اور بعد میں ذوالفقار بابر نے اپنی پہلی ٹیسٹ نصف سنچری کے ذریعے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور پاکستان جو تیسرے دن 182 رنز کے خسارے میں تھا، 117 رنز کی برتری کے ساتھ اپنی اننگز مکمل کرنے میں کامیاب ہوا۔

اسد نے اپنی ساتویں ٹیسٹ سنچری 207 گیندوں پر صرف 4 چوکوں کی مدد سے مکمل کی جبکہ ذوالفقار بابر نے صرف 48 گیندوں پر دو چھکوں اور 6 چوکوں کی مدد سے نصف سنچری بنائی۔ بعد ازاں اسد 131 رنز اور ذوالفقار 56 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی اننگز 417 رنز پر مکمل ہوئی اور سری لنکا مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔

سری لنکا کی ٹیسٹ میں 20 وکٹیں حاصل کرنے کی اہلیت پر جو سوالیہ نشان تھا، اس کو پاکستان کی پہلی ہی اننگز میں جواب مل گیا۔ رنگانا ہیراتھ نہ چل سکے، تو کوئی بھی نہ چلا۔ پیریرا کو چار اور پرساد کو تین وکٹیں ضرور ملیں، لیکن خاصے رنز دینے کے بعد۔

سری لنکا پر اس برتری کا کتنا بڑا دباؤ تھا، اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چوتھے دن کا کھیل ختم ہونے سے پہلے ہی وہ کمار سنگاکارا سمیت اپنے دو اہم بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔ پہلی اننگز کے سنچورین کوشال سلوا صرف 5 رنز بنانے کے بعد وہاب ریاض کی پہلی وکٹ بنے جبکہ دن کے اختتام سے پہلے پہلے یاسر شاہ نےسنگاکارا کو 18 رنز پر محدود کردیا۔

اب پانچواں دن پاکستان کے لیے بہت اہم تھا۔ اسے جلد از جلد وکٹیں حاصل کرنی تھیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو پہلی اننگز کی برتری کی بدولت ایک معمولی ہدف ہی ملتا۔ یہاں یاسر شاہ نے کپتان کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا اور ریکارڈ توڑ باؤلنگ کرتے ہوئے سری لنکا کو محض 206 رنز پر محدود کردیا۔ یاسر نے صرف 76 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں جو سری لنکا کی سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی گیندباز کی بہترین باؤلنگ ہے اور یاسر شاہ نے یہ ریکارڈ اپنے ہیرو شین وارن سے حاصل کیا ہے۔ ان کے شکاروں میں سنگاکارا کے علاوہ حریف کپتان اینجلو میتھیوز بھی شامل تھے۔

پاکستان کو جیتنے کے لیے صرف 90 رنز کا ہدف ملا اور اعتماد کی بلندی کا اندازہ لگائیے کہ صرف 12 ویں اوور میں بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے اس کو حاصل بھی کرلیا۔ محمد حفیظ نے33 گیندوں پر 46 اور احمد شہزاد نے 35 گیندوں پرناقابل شکست 43 رنز بنائے اور یوں پاکستان نے ایک طویل عرصے کے بعدسر ی لنکا کی سرزمین پر کامیابی حاصل کر ہی لی۔

گزشتہ سال گال کے اسی میدان پر پاکستان رنگانا ہیراتھ کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے بدترین شکست سے دوچار ہوا تھا، اب کسی حد تک ان زخموں کو مرہم مل گیا ہوگا۔ بہرحال، سرفراز احمد اپنی واحد اننگز میں سنچری تو نہ بنا سکے، لیکن یہ ان کی باری ہی تھی جو پاکستان کو مقابلے میں واپس لائی تھی۔ وہ میچ کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز کے حقدار تھے، اور یہ ایوارڈ حاصل بھی کیا۔

اب 25 جون سے دوسرا ٹیسٹ کولمبو میں کھیلا جائے گا، جہاں کامیابی کی صورت میں پاکستان عرصہ بعد سری لنکا میں کوئی ٹیسٹ سیریز جیت سکتا ہے۔ یہ سری لنکا کے بعد اپنے امکانات زندہ رکھنے کا موقع بھی ہوگا، اس لیے ایک زبردست مقابلے کی توقع ہے۔