گال ٹیسٹ، حفیظ الیون کو بدترین شکست

0 1,020

اور مصباح الحق کے باہر بیٹھتے ہیں پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی اور وہ ٹیم جو گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے فتوحات کی راہ پر گامزن تھی، ایک ہی مقابلے میں عرش سے فرش پر آ گری۔ سری لنکا جو ڈیڑھ سال سے ٹیسٹ کرکٹ میں جدوجہد کر رہا تھا اور مسائل سے دوچار تھا، یہاں تک کہ جیفری بائیکاٹ نے یہ تک کہا کہ سری لنکا کے باؤلنگ اٹیک میں حریف کو دو مرتبہ آؤٹ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، پاکستان کو پہلی اننگز میں محض 100 رنز پر ڈھیر کر دیا۔ یوں پاکستانی بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کا سلسلہ محدود اوورز کی طرز سے نکل کر ٹیسٹ کرکٹ میں بھی برقرار رہا اور سری لنکا نے پہلا ٹیسٹ ریکارڈ 209 رنز کے مارجن سے جیت لیا۔

کمار سنگاکارا محض ایک رن کی کمی سے اپنی نویں ڈبل سنچری سے محروم ہو گئے (تصویر: AFP)
کمار سنگاکارا محض ایک رن کی کمی سے اپنی نویں ڈبل سنچری سے محروم ہو گئے (تصویر: AFP)

میچ کے امپائروں این گولڈ اور اسٹیو ڈیویس کے پاکستان کے خلاف درجن بھر ناقص فیصلوں نے بھی ’سونے پہ سہاگہ‘ کا کام کیا اور سری لنکا کے کام کو مزید آسان بنایا۔

دراصل میچ کا فیصلہ تو دونوں ٹیموں کی پہلی اننگز ہی میں ہو گیا تھا جب سری لنکا نے امپائروں کے فیصلوں کی مدد سے 472 رنز کا ہمالیہ جیسا مجموعہ اکٹھا کیا اور جواب میں پاکستان کو محض 100 رنز پر ڈھیر کر دیا۔ سری لنکا کی پہلی اننگز کی خاص، بلکہ افسوسناک، بات یہ تھی کہ کمار سنگاکارا محض ایک رن کے فرق سے اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر پائے کیونکہ آخری بلے بازی نووان پردیپ دوسرے اینڈ سے اپنی وکٹ نہ بچا پائے اور یوں کمار کو 199 رنز ناٹ آؤٹ کے ساتھ پویلین لوٹنا پڑا۔ وہ کرکٹ تاریخ کے محض دوسرے بلے باز ہیں جنہیں 199 ناقابل شکست رنزکے ساتھ بوجھل دل کے ساتھ میدان سے واپس آنا پڑا۔ (سنگاکارا کی ڈبل سنچریوں کی مکمل داستان)

سری لنکا کی اننگز کو استحکام دراصل پہلے کمار سنگاکارا اور تلکارتنے دلشان کے درمیان دوسری وکٹ پر 124 اور پھر کمار اور کپتان مہیلا جے وردھنے کے درمیان تیسری وکٹ پر 128 رنز کی شراکت نے بخشا۔ دلشان، جو عرصے سے آؤٹ آف فارم تھے، ایک روزہ کی کارکردگی کے تسلسل کو جاری رکھا اور کیریئر کی 13 ویں سنچری اسکور کرنے کے بعد 101 رنز پر سعید اجمل کی وکٹ بنے۔

مہیلا جے وردھنے نے 62 رنز بنائے اور سعید اجمل کے خلاف جارحانہ انداز اپنانا انہیں مہنگا پڑ گیا۔ سعید کو ریورس سویپ پر ایک چوکا رسید کرنے کے بعد وہ ایک اٹھا ہوا شاٹ کھیلنا چاہ رہے تھے لیکن اندر آتی ہوئی گیند ان کی آف اسٹمپ اڑا گئی۔ یہاں سے سری لنکا کو کچھ دیر کے لیے دھچکا پہنچا جسے سعید اجمل ہی کے ہاتھوں تھیلان سماراویرا اور اینجلو میتھیوز کی وکٹیں بھی یکے بعد دیگرے گنوانا پڑیں لیکن وکٹ کیپر پرسنا جے وردھنے نے کمار سنگاکارا کا بھرپور ساتھ دیا اور چھٹی وکٹ پر 80 رنز کا اضافہ کیا۔ جس میں پرسنا کا حصہ 48 رنز کا تھا۔

438 کے مجموعے پر پرسنا کے پویلین لوٹتے ہی کمار سنگاکارا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب انہیں تن تنہا کچھ کرنا ہوگا۔ جب وہ 193 کے انفرادی اسکور پر پہنچے تو میدان میں نصب اسکور کارڈ غلطی سے 194 دکھا رہا تھا اور سنگا نے جب خود کو ڈبل سنچری سے ایک اسٹروک کے فاصلے پر دیکھا تو سعید اجمل کو ایک خوبصورت چھکا رسید کر کے ڈبل سنچری کا جشن منانا شروع کر دیا لیکن جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ ان کا اسکور اب بھی 199 ہے اور انہیں ایک مزید رن درکار ہے۔ بدقسمتی سے وہ آخری گیند پر رن نہ دوڑ پائے اور اگلے اوور کی دوسری گیند پر محمد حفیظ نے نووان پردیپ کو بولڈ کر کے سنگاکارا کو ڈبل سنچری سےمحروم کر دیا۔

بہرحال، اس کے باوجود سری لنکا اسکور بورڈ پر 472 رنز بنا کر پاکستان کے لیے بڑی مصیبت کھڑی چکا تھا۔ سعید اجمل پاکستان کی جانب سے سب سے کامیاب گیند باز رہے جنہوں نے 146 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ 3 وکٹیں محمد حفیظ اور ایک وکٹ عبد الرحمن نے لی۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے تیز باؤلر عمر گل اور جنید خان مکمل طور پر ناکام رہے۔

پاکستان نے پہلی اننگز کا آغاز کیا تو گویا بیٹسمین بلے بازی کے فن سے بالکل ناآشنا نظر آئے۔ دو مستقل گیندوں پر توفیق عمر اور اظہر علی پویلین لوٹ گئے جن میں سے توفیق عمر کا ایل بی ڈبلیو کسی حد تک متنازع کہا جا سکتا تھا۔ بدقسمتی سے دوسرے روز کا کھیل ختم ہونے سے پہلے پاکستان مزید تین وکٹیں گنوا بیٹھا جن میں محمد حفیظ، نائٹ واچ مین سعید اجمل اور اسد شفیق شامل تھے۔ ان میں سے سعید اجمل ناقص امپائرنگ کا نشانہ بنے۔

48 رنز پر 5 وکٹیں گرنے کے بعد پاکستان نے تیسرے دن کا آغاز کیا تو کچھ ہی دیر میں امپائر ایکشن میں نظر آ گئے جنہوں نے رنگانا ہیراتھ کی ایک گیند پر یونس خان (29 رنز) کو ایل بی ڈبلیو قرار دیا جبکہ گیند بلے کا اندرونی کنارہ لے کر گئی تھی۔ اب پاکستان کے پاس سوائے پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے محمد ایوب کے کوئی باقاعدہ بلے باز نہیں بچا تھا۔ ایوب نے 103 گیندوں پر 25 رنز بنائے اور پاکستان کی اننگز کے تیسرے بلے باز بنے جو دہرے ہندسے میں داخل ہوئے۔

سری لنکن اسپنر رنگانا ہیراتھ اور سورج رندیو کی تباہ کن باؤلنگ نے پاکستان اننگز کو 100 رنز پر تمام کر دیا۔ ہیراتھ نے 3 اور سورج نے 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں نووان کولاسیکرا کو ملیں۔

372 رنز کی فتح گر برتری حاصل کرنے کے بعد سری لنکا کے حوصلے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے تھے ۔ حیران کن طور پر مہیلا جے وردھنے نے اپنے گیند بازوں کو دوبارہ زحمت نہ دی اور بجائے فالو آن لاگو کرنے کے خود بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ جس پر انہیں کافی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ پاکستانی باؤلرز نے دوسری اننگز میں نسبتاً اچھی گیند بازی کا مظاہرہ کیا لیکن بعد ازاں مہیلا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے باؤلرز کو مزید تھکانا نہیں چاہتے تھے اور کیونکہ میچ ختم ہونے میں ابھی کافی وقت پڑا تھا اس لیے مناسب سمجھا کہ بلے بازی کی مزید مشق کر لی جائے۔

سری لنکا کی دوسری اننگز میں بھی امپائروں کے ناقص فیصلے جاری رہے۔ انہوں نے تلکارتنے دلشان اور پرسنا جے وردھنے نے کے واضح آؤٹ دینے سے انکار کیا اور پاکستان کو مزید گمبھیر صورتحال میں دھکیل دیا۔ اس اننگز میں سری لنکا کے بہترین اسکورر دلشان رہے جنہوں نے 58 گیندوں پر 56 رنز بنائے اور سری لنکا نے 137 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا اور پاکستان کو فتح کے لیے 510 رنز کا ہدف دیا۔

پہلی اننگز کی کارکردگی کو دیکھ کر یہ امید رکھنا کہ پاکستان کے بلے باز ہدف حاصل کر پائیں یا نہ کر پائیں لیکن دو دن سے زیادہ کے وقت میں کریز پر رکے رہیں گے، عبث تھا۔ وکٹ اب اسپنرز کے لیے بہت زیادہ مددگار ہو گئی تھی اور اس صورتحال میں سورج رندیو اور رنگانا ہیراتھ کے سامنے بند باندھنا پاکستان کے دل شکستہ بلے بازوں کے لیے ممکن نہ تھا۔

اور وہی ہوا جس کی توقع تھی۔ سری لنکن باؤلرز نے پاکستان کے ابتدائی تین بلے بازوں کو فوراً ہی ٹھکانے لگا دیا۔ نووان کولاسیکرا حفیظ اور توفیق عمر جبکہ رنگانا ہیراتھ توفیق عمر کی وکٹ لے اڑے۔ تیسرے روز کا اختتام بھی مایوس کن انداز میں 36 رنز 3 کھلاڑی آؤٹ کے مجموعے کے ساتھ ہوا۔

چوتھے روز پاکستان نے دن کا آغاز نائٹ واچ مین سعید اجمل کے رن آؤٹ کے ساتھ کیا جس کے بعد پورے میچ میں ہوا کا واحد تازہ جھونکا آیا یعنی یونس خان اور اسد شفیق کے درمیان 151 رنز کی رفاقت۔ یونس خان کو تجربہ کار کھلاڑی ہیں، لیکن اسد شفیق نے بھی کمال جرات مندی کے ساتھ سری لنکن باؤلرز کا سامنا کیا۔ اسد شفیق نے 165 گیندوں پر 13 چوکوں کی مدد سے 80 رنز بنائے جبکہ یونس خان 87 رنز بنا کر کولاسیکرا کی تیسری وکٹ بنے۔ انہوں نے 213 گیندیں کھیلیں اور 7 چوکے رسید کیے۔

یونس خان پہلی اننگز میں امپائر کے ناقص فیصلے کا نشانہ بنے البتہ دوسری اننگز میں 87 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے (تصویر: AFP)
یونس خان پہلی اننگز میں امپائر کے ناقص فیصلے کا نشانہ بنے البتہ دوسری اننگز میں 87 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے (تصویر: AFP)

212 رنز پر جب یونس کی صورت میں پاکستان کی چھٹی وکٹ گری تو صرف اس بات کا انتظار رہ گیا تھا کہ میچ کا خاتمہ کس وقت ہوگا۔ دن کے لیے مختص اوور مکمل ہوئے تو پاکستان کی صرف دو وکٹیں باقی تھیں اور امپائروں نے جلد نتیجہ آنے کے پیش نظر وقت میں آدھے گھنٹے کی توسیع کر دی اور انہیں زیادہ دیر انتظار بھی نہیں کرنا پڑا اور 300 کے مجموعے پر جنید خان سورج رندیو کی تیسری وکٹ بنے اور سری لنکا نے 209 رنز سے میچ جیت کر سیریز میں 1-0 کی برتری حاصل کر لی۔یہ مارجن کے لحاظ سے پاکستان پر سری لنکا کی تاریخ کی سب سے بڑی فتح ہے۔

نووان کولاسیکرا اور سورج رندیو نے 3،3 اور رنگانا ہیراتھ نے 2 اور نووان پردیپ کیریئر نے کیریئر کی واحد وکٹ حاصل کی۔

کمار سنگاکارا کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

پاکستان کے لیے مایوس کن پہلو تو بہت سارے ہیں جیسا کہ کپتان محمد حفیظ، جو مصباح الحق کی عدم موجودگی میں قیادت کے فرائض انجام دے رہے تھے، پہلی اننگز میں 20 اور دوسری میں صرف 4 رنز بنا سکے جبکہ ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے اظہر علی دونوں اننگز میں دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہو پائے۔لیکن وکٹوں کے پیچھے اور آگے بھی عدنان اکمل کی عمدہ کارکردگی، سعید اجمل کی بہترین باؤلنگ اور پھر یونس خان اور اسد شفیق کی بہترین رفاقت نے راکھ تلے چنگاریاں ظاہر کی ہیں البتہ دیکھنا اب یہ ہے کہ مصباح کی واپسی کے بعد ٹیم میں کیا فرق آتا ہے۔ اگلا ٹیسٹ میچ نہ صرف ٹیم کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا بلکہ کوچ ڈیو واٹمور کی اہمیت کو بھی ظاہر کرے گا۔

ویسے پاکستان کو اس شکست سے جو بڑا نقصان پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ شکست کے ساتھ ہی اس کے ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔ اگر پاکستان یہ سیریز 2-0 سے جیتتا تو وہ اگلے ماہ عالمی درجہ بندی میں ہونے والے سالانہ اپ ڈیٹ کے نتیجے میں انگلستان کے پیچھے دوسری پوزیشن حاصل کرتا جو بذات خود بہت بڑی کامیابی ہوتی لیکن پہلے ٹیسٹ میں شکست کے ساتھ اب 2-0 یا 3-0 سے جیتنے کا خواب ہی ٹوٹ گیا تو اب پاکستان کو اگلی ٹیسٹ سیریز تک کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ پاکستان نے عرب امارات میں سری لنکا کے خلاف کھیلی گئی گزشتہ سیریز میں بھی درجہ بندی میں ترقی کا ایسا ہی سنہرا موقع گنوایا تھا اور اب ایک مرتبہ پھر ہاتھوں سے ضایع کر بیٹھا ہے۔

دونوں ٹیموں کے درمیان دوسرا ٹیسٹ 30 جون سے کولمبو کے سنہالیز اسپورٹس کلب میں شروع ہوگا۔