شعیب اختر عالمی کپ کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے

2 1,050

پاکستان کے برق رفتار گیند باز شعیب اختر عالمی کپ 2011ء کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے کا اعلان جمعرات کی صبح کولمبو کے پریماداسا اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

شعیب اختر پریس کانفرنس کے دوران آبدیدہ ہو گئے

شعیب اختر پریس کانفرنس کے دوران آبدیدہ بھی ہوئے لیکن بحیثیت مجموعی ان کی پریس کانفرنس پراعتماد اور شگفتہ رہی۔ جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

35 سالہ شعیب اختر اپنی بڑھتی ہوئی عمر اور وزن کے باعث پیش آنے والے مسائل اور انجریز کے باعث عالمی کرکٹ کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔

شعیب اختر نے دسمبر 1997ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا۔ 1999ء میں ایشین ٹیسٹ چیمپین شپ کے دوران دو مسلسل گیندوں پر راہول ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو بولڈ کر کے انہوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ اسی شاندار فارم کا سلسلہ انہوں نے 1999ء کے عالمی کپ میں بھی جاری رکھا اور ان کی برق رفتار باؤلنگ ہی کی بدولت پاکستان سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو زیر کرکے فائنل تک پہنچا۔

لیکن بعد ازاں ان کا کیریئر مختلف نشیب و فراز کا حامل رہا۔ مشکوک باؤلنگ ایکشن، نظم و ضبط کی خلاف ورزی اور یکے بعد دیگرے کئی انجریز کے باعث ان کی بین الاقوامی کرکٹ میں آمدورفت ہوتی رہی۔

13 سال کے بین الاقوامی کیریئر میں شعیب اختر نے محض 46 ٹیسٹ میچز کھیلے لیکن بہت اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 25.69 کی اوسط سے 178 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں انہوں نے 24.97 کی اوسط سے 247 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بنایا۔

شعیب اختر کرکٹ کی تاریخ کے تیز ترین گیند باز تھے جنہوں نے 2003ء کے عالمی کپ کے دوران 100 میل فی گھنٹے سے تیز گیند پھینک کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ عام طور پر بھی ان کی گیندیں 90 میل فی گھنٹہ سے اوپر کی ہوتی ہیں۔ 35 سال کی عمر میں بھی وہ مستقل 90 سے 94 میل فی گھنٹے کی رفتار سے گیندیں کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ شعیب اختر کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ نشیب و فراز دیکھنے والے کھلاڑی ہیں۔ ایک جانب جہاں انہیں نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی پابندیوں کا بھی نشانہ بننا پڑا تو دوسری جانب یادگار باؤلنگ کارکردگی پر قوم نے انہیں آنکھوں پر بھی بٹھایا۔ اسی طرح ایک طرف انہیں طویل پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تو دوسری طرف اک ایسے وقت میں حیران کن طور پر ٹیم میں واپس بھی بلائے گئے، جب ماہرین کی نظر میں ان کا کیریئر ختم ہو چکا تھا۔

شعیب اختر، ایک نظر میں

بشکریہ سی این بی سی پاکستان