سری لنکا کی شکستوں کا سلسلہ دراز، سنچورین میں اننگز کی ہزیمت

1 1,020

کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم سری لنکن کرکٹ ٹیم کی کارکردگی 'مفت میں کام کرنے والے ملازمین' جیسی ہی ہو گئی ہے جو اپنی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں یعنی دل چاہا تو کر لیا۔ اور یہی کچھ سنچورین میں دکھائی دیا جہاں جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں سری لنکن شیروں کو اننگز اور 81 رنز کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوں عالمی کپ 2011ء میں فائنل میں شکست کے بعد سے اس کی ہاروں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

سری لنکا نے آخری مرتبہ جولائی 2010ء میں فتح کا مزا چکھا تھا جب انہوں نے گال میں بھارت کو دس وکٹوں سے زیر کیا تھا لیکن اس کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں فتح کی دیوی اس سے ایسی ناراض ہوئی کہ اب تک ہونے والے 14 مقابلوں میں سے ایک میں بھی وہ جیت سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔ یہ جنوبی افریقہ کے خلاف سری لنکا کی تاریخ کی دوسری بدترین فتح ہے۔ 2001ء کے دورۂ جنوبی افریقہ میں میزبان ٹیسٹ نے کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں اننگز اور 229 رنز کی زبردست فتح سمیٹی تھی۔

مہیلا جے وردھنے محض ایک رن کی کمی سے اپنے 10 ہزار ٹیسٹ رنز مکمل نہ کر پائے (تصویر: Getty Images)
مہیلا جے وردھنے محض ایک رن کی کمی سے اپنے 10 ہزار ٹیسٹ رنز مکمل نہ کر پائے (تصویر: Getty Images)

تیز گیند بازوں کے لیے مددگار سبز پچ پر جنوبی افریقی کپتان گریم اسمتھ نے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا اور میچ کے محض تین روز میں اختتام میں 'گرین ٹاپ' وکٹ سے کہیں زیادہ کردار سری لنکن بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کا تھا جو دونوں اننگز میں مجموعی طور پر 86.5 اوورز کھیل سکے یعنی مکمل طور پر ایک دن کا کھیل بھی نہیں۔ اور میچ کے آخری روز بھی جنوبی افریقی گیند بازوں کو مہمان ٹیم کو ٹھکانے لگانے کے لیے محض 39 اوورز کی ضرورت پڑی۔

اسپنر مرلی دھرن کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے نہ صرف سری لنکا کی گیند بازی بلکہ ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے جس میں خاص طور پر بلے بازی شامل ہے۔ دورۂ انگلستان میں کارڈف ٹیسٹ، آسٹریلیا کے خلاف گال ٹیسٹ اور پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں تین ٹیسٹ مقابلوں کی پوری سیریز میں سری لنکا نے جس طرح کی بلے بازی کا مظاہرہ کیا، وہ اس شعبے میں ٹیم کی زبردست مشکلات کی عکاس ہے۔ اور یہاں جنوبی افریقہ میں بھی ابتداء ہی سے اسے کھیل کے تمام شعبوں میں مشکلات کا سامنا رہا۔ پہلی اننگز 180 اور دوسری اننگز محض 150 رنز پر تمام ہونے علاوہ گیند بازی اور فیلڈنگ میں بھی وہ کوئی کمال دکھانے میں ناکام رہا۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے اعلیٰ ترین کارکردگی اپنے ٹیسٹ کیریئر کے ابتدائی ایام میں موجود گیند باز ویرنن فلینڈر نے دکھائی جنہوں نے کیریئر کے تیسرے ہی ٹیسٹ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دے ڈالا۔ انہوں نے دونوں اننگز میں 5،5 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ محض 6 اننگز میں 4 مرتبہ 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔

جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا اور سپر اسپورٹ پارک کی 'گرین ٹاپ' وکٹ پر یہی سب سے موزوں فیصلہ تھا۔ اس وکٹ پر بھی سری لنکن کپتان تلکارتنے دلشان کی عقل ٹھکانے نہیں آئی اور وہ اسے سمجھے بغیر ایک ٹی ٹوئنٹی اسٹائل کا شاٹ کھیل کر محض 6 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے اور اپنی ٹیم کو پہلی مشکل سے دوچار کر گئے۔ اگلے ہی اوور میں ویرنن فلینڈر نے تجربہ کار اور ان فارم کمار سنگاکارا کو ٹھکانے لگایا تو اندازہ ہو چکا تھا کہ سری لنکا کی اننگز زیادہ طویل ثابت نہیں ہوگی اور ایسا ہی ہوگا۔صرف چار کھلاڑی 30 سے زائد رنز بنا پائے اور اینجلو میتھیوز 38 رنز کےساتھ ٹاپ اسکورر رہے اور سری لنکا کی پہلی اننگز کا خاتمہ محض 180 رنز پر ہوا۔

جنوبی افریقہ کے اسٹرائیک گیند باز ڈیل اسٹین اور ویرنن فلینڈر نے مجموعی طور پر 9 کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا جبکہ ایک وکٹ عمران طاہر کو ملی۔ ویرنن فلینڈر تیسرے ٹیسٹ میں بھی ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہوئے اور اگلی اننگز میں بھی یہی کارکردگی دہرا کر وہ یوں وہ تاریخ کے تیسرے گیند باز بن گئے جنہوں نے اپنے تین ٹیسٹ مقابلوں میں چار مرتبہ اننگز میں 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

فلینڈر اولین تین ٹیسٹ مقابلوں میں 4 مرتبہ اننگز میں 5 کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگانے کا کارنامہ انجام دینے والے تاریخ کے تیسرے گیند باز بن گئے ہیں (تصویر: Getty Images)
فلینڈر اولین تین ٹیسٹ مقابلوں میں 4 مرتبہ اننگز میں 5 کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگانے کا کارنامہ انجام دینے والے تاریخ کے تیسرے گیند باز بن گئے ہیں (تصویر: Getty Images)

بہرحال، بلے سے انتہائی ناقص کارکردگی دکھانے کے بعد اب سری لنکن گیند بازوں کی باری تھی کہ وہ سری لنکا کو میچ میں واپس لانے کی کوشش کرتے لیکن ان کے اندر وہ جذبہ، سرگرمی اور جوش و خروش ہی نظر نہ آیا جس کی ٹیم کو ضرورت تھی۔ پہلی ہی وکٹ پر جنوبی افریقہ نے سری لنکن اسکور کا نصف تو مکمل کر لیا جبکہ 180 رنز کے قریب پہنچنے تک وہ 5 وکٹیں گنوا چکا تھا۔ اہم بلے باز گریم اسمتھ رہے جنہوں نے 61 رنز بنائے۔ اب سری لنکا کے پاس موقع تھا کہ وہ جلد از جلد نچلے آرڈر کے کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگائے اور برتری کو کم سے کم رکھے لیکن ابراہم ڈی ولیئرز، ایشویل پرنس اور مارک باؤچر نے ان کے تمام ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ پہلے ڈی ولیئرز نے ایشویل پرنس کے ساتھ 97 رنز جوڑے پھر اگلی تین وکٹوں نے مزید 80 رنز کا اضافہ کیا۔ 350 رنز پر 9 وکٹیں کھونے کے بعد بھی جنوبی افریقہ نے سری لنکا کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دیا یعنی کہ آخری وکٹ پر مارک باؤچر اور عمران طاہر کے درمیان 61 رنز کی شراکت۔ ڈی ولیئرز بدقسمتی سے کیریئر کی 13 ویں سنچری نہ بنا پائے اور 99 رنز بنا کر پویلین سدھارے جبکہ آخری بلے بازوں میں مارک باؤچر کے 65 رنز سے ایک بڑی برتری قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ باؤچر کے لیے اس لحاظ سے یہ ایک اچھا ٹیسٹ ثابت ہوا کہ عرصے کے بعد انہوں نے دستانوں اور بلے دونوں کے ذریعے اچھی کارکردگی دکھائی۔ سری لنکا کے خلاف وکٹوں کے پیچھے پہلی اننگز میں 2 اور دوسری اننگز میں 6 شکار کرنے کے علاوہ بلے بازی کا واحد موقع ملنے پر بھی انہوں نے اپنی اہمیت ثابت کی۔

231 کے ہمالیہ جیسے عظیم خسارے تلے سری لنکا ابتدا ہی سے دباؤ میں نظر آیا اور محض 19 رنز پر اپنے ابتدائی تینوں بلے بازوں سے محروم ہو گیا۔ دلشان ایک مرتبہ پھر گرنے والی پہلی وکٹ تھے جبکہ پرناوتنا 4 اور سنگاکارا 2 رنز کے ساتھ ٹیسٹ میں بری طرح ناکام رہے۔ بعد میں آنے والے بلے باز بھی قابل ذکر مزاحمت کرنے میں ناکام رہے بلکہ دوسری اننگز میں تو سری لنکا کا حال پہلی اننگز سے بھی برا تھا۔ تھیلان سماراویرا 32 رنز کے ساتھ سرفہرست بلے باز رہے اور پوری ٹیم محض 39.1 اوورز میں 150 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئی۔

ایک مرتبہ پھر جنوبی افریقہ کے اٹیک کی رہنمائی ویرنن فلینڈر نے کی جنہوں نے 49 رنز دے کر مقابل کے 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ڈیل اسٹین کو 2 وکٹیں ملیں۔ ایک، ایک وکٹ مورنے مورکل اور عمران طاہر نے حاصل کی۔

اس فتح کے ساتھ تین ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز میں جنوبی افریقہ کو 1-0 کی برتری حاصل ہو چکی ہے۔ سیریز کا دوسرا مقابلہ 26 دسمبر سے کنگزمیڈ، ڈربن میں شروع ہوگا۔

ورنین فلینڈر کو زبردست باؤلنگ کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

ویسے تو یہ مقابلہ مکمل طور پر یکطرفہ ثابت ہوا لیکن دو باتیں انوکھی ثابت ہوئیں، ایک تو جنوبی افریقی بلے باز ابراہم ڈی ولیئرز 99 پر آؤٹ ہوئے جبکہ سری لنکا کے بلے باز مہیلا جے وردھنے اسے وقت رن آؤٹ ہو گئے جب وہ اپنے 10 ہزار ویں ٹیسٹ رنز سے محض ایک رن کے فاصلے پر تھے۔ یعنی کہ اب بھی ان کے ٹیسٹ رنز 9999 ہیں۔ ایک اور قابل ذکر واقعہ دوسرے روز پیش آیا جب جنوبی افریقی بلے باز ژاک کیلس دلہارا فرنانڈو کے ایک باؤنسر کی براہ راست زد میں آ گئے جو ان کے ہیلمٹ پر لگا اور وہ چند قدم سنبھلنے کے بعد گر پڑے۔ جب ہیلمٹ اتارا گیا تو ان کے کان سے خون نکلنے لگا۔ کچھ دیر ابتدائی طبی امداد ملنے کے بعد جب دوبارہ کھڑے ہوئے توکیلس گرنے لگے جس پر سری لنکا کے مہیلا جے وردھنے نے ان کو سنبھالا دیا اور ایسا لگتا تھا کہ انہیں ہسپتال لے جانا پڑے گا لیکن چند لمحوں کے بعد کیلس نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلے بازی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور میدان میں موجود ہزاروں تماشائیوں نے بہادری پر انہیں داد سے نوازا۔

اسکور کارڈ کچھ دیر میں ملاحظہ کریں