[ریکارڈز] پاکستان کی تاریخ کا کمترین ٹیسٹ اسکور

3 1,050

پاکستان جنوبی افریقہ پہنچا تو تقریباً تمام ہی ماہرین اس امر پر متفق تھے کہ سیریز کا نتیجہ دراصل پاکستان کی بلے بازی طے کرے گی، اگر وہ دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے سامنے ٹک پائی تو پاکستانی باؤلرز میں اتنا دم خم ہے کہ وہ جنوبی افریقہ کو جھکا سکیں ورنہ سیریز بالکل یکطرفہ ہوگی۔ جوہانسبرگ کے نیو وینڈررز اسٹیڈیم میں پہلے ٹیسٹ کے اولین روز پاکستانی گیند بازوں نے تو اپنی اہلیت منوالی لیکن جو دوسرے روز ہوا وہ پاکستان کرکٹ کا ایک شرمناک باب تھا۔

ڈیل اسٹین اینڈ کمپنی کے ہاتھوں پوری پاکستانی ٹیم صرف 29 اوورز میں 49 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ یعنی پاکستان کی ٹیسٹ تاریخ کا کمترین اسکور!صرف دو کھلاڑیوں کی اننگز دہرے ہندسے میں داخل ہو پائی، اظہر علی 13 اور کپتان مصباح الحق 12، باقی تو اس شرف سے بھی محروم رہے۔ یونس خان، عمر گل اور ڈیبوٹنٹ راحت علی نے تو صفر کا مزا چکھا۔

اس سے قبل پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ تاریخ کا بدترین اسکور 53 رنز تھا۔ اکتوبر 2002ء میں وقار یونس کی زیر قیادت آسٹریلیا کے خلاف شارجہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے پہلی اننگز میں 59 رنز پر ڈھیر ہوا تو یہ ایک نیا ریکارڈ تھا، لیکن پاکستان نے صرف ایک دن بعد دوبارہ 53 رنز پر آل آؤٹ ہو کر اپنا "نیا ریکارڈ" توڑ ڈالا۔ آسٹریلیا نے درمیانی اننگز میں 310 رنز بنا کر ثابت کیا تھا کہ یہ وکٹ بلے بازی کے لیے موزوں ہے لیکن پاکستان گویا ہتھیار پھینکنے کے لیے متحدہ عرب امارات پہنچا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ کپتان مصباح الحق اس مقابلے میں بھی موجود تھے، جس میں انہوں نے پہلی اننگز میں 2 اور دوسری میں 12 رنز بنائے تھے۔

جنوبی افریقہ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں اپنے ہی میدانوں میں دو ٹیموں کو شرمناک انداز سے چت کر چکا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پہلے آسٹریلیا اور پھر نیوزی لینڈ کو 50 سے کم رنز پر ڈھیر ہوئے۔ اب گو کہ میدان وینڈررز تھا لیکن باری پاکستان کی رہی، جو اپنی تاریخ میں پہلی بار کسی اننگز میں 50 رنز بھی نہ بنا پایا۔

بہرحال، اس "ڈراؤنے خواب" سے قبل پاکستان کا بدترین اسکور 62 رنز تھا، جو اس نے نومبر 1981ء میں دورۂ آسٹریلیا کے پرتھ ٹیسٹ میں بنایا تھا۔ یہی وہ مقابلہ تھا جس میں جاوید میانداد اور ڈینس للی کے درمیان مشہور زمانہ جھگڑا ہوا تھا، جس میں لاتیں اور بلے تک چل گئے تھے (اس واقعے کی کچھ تفصیل یہاں ملاحظہ کریں)۔ جاوید میانداد کی زیر قیادت پاکستان آسٹریلیا کے 180 کے جواب میں لڑھکتا چلا گیا۔ محض 26 رنز پر اس کی 8 وکٹیں گر گئیں۔ سرفراز نواز کے 26 رنز سب سے نمایاں تھے اور اننگز محض 22 ویں اوور میں تمام ہوئی۔ اس ٹیسٹ میچ میں بھی آسٹریلیا نے بھاری فتح اپنے نام کی، 286 رنز سے۔

اسی فہرست میں 2010ء کے بدنام زمانہ دورۂ انگلستان کا ایجبسٹن ٹیسٹ بھی شامل ہے جہاں قومی کرکٹ ٹیم انگلستان کے تیز گیند بازوں کی شاندار باؤلنگ کے سامنے خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ محض 72 رنز پر آؤٹ ہو جانے کے بعد پاکستان کو کوئی چیز شکست سے نہ بچا سکتی تھی اور انگلستان کو 251 رنزپر آؤٹ کرنا اور دوسری اننگز کے 296 رنز پر کافی نہ ٹھہرے اور پاکستان 9 وکٹوں سے شکست کھا گیا۔

ہم ذیل میں کچھ ایسے ہی مقابلوں کے اعدادوشمار پیش کر رہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

بمقابلہاسکوراوورزبمقامبتاریخ
جنوبی افریقہ 4929.1جوہانسبرگفروری 2013ء
آسٹریلیا 5324.5شارجہاکتوبر 2002ء
آسٹریلیا 5931.5شارجہاکتوبر 2002ء
آسٹریلیا 6221.2پرتھنومبر 1981ء
انگلینڈ 7239.3برمنگھماگست 2010ء
آسٹریلیا 7231.3پرتھدسمبر 2004ء
انگلینڈ 7433.0لارڈزاگست 2010ء
ویسٹ انڈیز7744.5لاہورنومبر 1986ء
انگلینڈ8029.0ناٹنگھمجولائی 2010ء
انگلینڈ8783.5لارڈزجون 1954ء