ایک روزہ کرکٹ اور 400 رنز کی تاریخ

2 1,130

کرکٹ ریکارڈز کا کھیل ہے، ہر روز نت نئے ریکارڈ بنتے اور پرانے ٹوٹتے رہتے ہیں لیکن کچھ ریکارڈز ایسے ہوتے ہیں جو بار بار بننے کے باوجود بہت دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔ جس طرح ایتھیلٹکس میں 100 میٹرز کی دوڑ کو ایک خاص مقام حاصل ہے بالکل اس طرح کرکٹ میں سب سے بڑے مجموعے، تیز ترین نصف سنچریوں اور سنچریوں کے ریکارڈ کی حیثیت نمایاں ہے۔ عالمی کپ 2015ء میں ویسٹ انڈیز سڈنی میں کھیلے گئے مقابلے میں ایسا ہی ایک ریکارڈ سامنے آیا، جب جنوبی افریقہ کے کپتان ابراہم ڈی ولیئرز نے صرف 66 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 17 چوکوں اور 8 چھکوں کی مدد سے 162 رنز بنائے۔ 'اندھادھند فائرنگ' جیسی اس اننگز نے جنوبی افریقہ کو مقررہ 50 اوورز میں 408 رنز تک پہنچایا۔

ڈی ولیئرز کی یہ اننگز ویسے تو کئی ریکارڈز کی حامل تھی، جن کا ذکر ہم الگ تحریر میں کر چکے ہیں لیکن یہ باری جنوبی افریقہ کو 400 رنز سے بھی آگے لے گئی۔ یہ ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں 13 واں موقع تھا کہ کسی ٹیم نے 400 یا اس سے زیادہ رنز بنائے ہوں۔ اپنی بلے بازی کی قوت کی وجہ سے معروف بھارت سب سے آگے ہے جس نے 13 میں سے پانچ بار یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ جنوبی افریقہ نے چار مرتبہ، سری لنکا نے دو اور نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے ایک، ایک بار یہ منزل پائی ہے۔

ان 13 میں سے 11 مواقع پر 400 رنز کا مجموعہ مقابلے کی پہلی اننگز میں بنایا گیا جبکہ ہدف کے تعاقب میں یہ نادر سنگ میل صرف جنوبی افریقہ اور سری لنکا نے پایا ہے۔ جنوبی افریقہ نے تو دوسری اننگز میں 400 سے زیادہ کا ہدف کامیابی سے حاصل کرکے مقابلہ بھی جیت رکھا ہے۔ اس ریکارڈ سے وابستہ ایک دلچسپ بات یہ ہے بھی کہ سری لنکا اور آسٹریلیا وہ بدقسمت ٹیمیں ہیں جو 400 رنز بنانے کے باوجود مقابلہ ہار گئیں۔

آئیے اس تاریخی موقع پر ان 13 اننگز پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پہلی بار:

ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ جادوئی ہندسہ عبور کیا آسٹریلیا نے، جب 12 مارچ 2006ء کو جوہانسبرگ میں کپتان رکی پونٹنگ کے 105 گیندوں پر 164 رنز اور ایڈم گلکرسٹ، سائمن کیٹچ اور مائیکل ہسی کی نصف سنچریوں کی بدولت صرف چار وکٹوں کے نقصان پر 434 رنز کا پہاڑ کھڑا کیا۔ جب جنوبی افریقہ کی ہار یقینی تھی تو انہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ کیسے؟ ذیل میں دیکھیں۔

دوسری بار:

اتنے بڑے ہدف کے تعاقب میں میزبان جنوبی افریقہ کو تین رنز کے معمولی اسکور پر پہلا دھچکا بھی لگا۔ جس کے بعد کپتان گریم اسمتھ کا ساتھ دینے کے لیے ہرشل گبز آئے اور 111 گیندوں پر 21 چوکوں اور 7 فلک شگاف چھکوں کی مدد سے 175 رنز بنا کر میچ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔ گریم اسمتھ نے بھی 55 گیندوں پر 90 رنز بنائے۔ وکٹیں ضرور گرتی رہیں لیکن جنوبی افریقہ ہدف کے تعاقب میں اسی رفتار کے ساتھ محو سفر رہا، جو اسے درکار تھی۔ یہاں تک کہ وکٹ کیپر مارک باؤچر کی نصف سنچری کی بدولت ہدف 9 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ صرف ایک وکٹ سے ملنے والی جیت کی بدولت سیریز بھی جنوبی افریقہ نے جیتی اور یوں 'ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کے یادگار ترین مقابلے' نے جنم لیا۔

تیسری بار:

ایک ہی مقابلے میں دو بار 400رنز کا سنگ میل عبور ہوا تو دیگر ٹیموں نے بھی حوصلہ پکڑا۔ اسی سال نیدرلینڈز کے خلاف سری لنکا نے 443 رنز بنا کر سب سے بڑے مجموعے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جو آج بھی قائم و دائم ہے۔

4 جولائی 2006ء کو ایمسٹلوین میں سری لنکا نے سنتھ جے سوریا کے 104 گیندوں پر 157 اور تلکارتنے دلشان کے 78 گیندوں پر ناقابل شکست 117 رنز کی بدولت 9 وکٹوں کے نقصان پر اتنا بڑا مجموعہ اکٹھا کیا۔ جواب میں میزبان 248 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔

چوتھی بار:

2006ء میں 400 کا ہندسہ اتنی بار عبور ہوا کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ 'قدر کھودے گا یوں روز کا آنا جانا'۔ جنوبی افریقہ نے 20 ستمبر کو زمبابوے کے خلاف اپنے ہی میدان پر 418 رنز بنائے۔

وکٹ کیپر بلے باز مارک باؤچر کی طوفانی بلے بازی سب سے نمایاں رہی جنہوں نے 68 گیندوں پر 10 چھکے اور 8 چوکے مارے اور کُل 147 رنز بنا کر آخر تک ناقابلِ شکست رہے۔ باؤچر کے علاوہ اننگز کو 400 کے پار لے جانے میں لوٹس بوسمین، الویرو پیٹرسن اور کپتان ژاک کیلس کی نصف سنچریوں کا بھی حصہ تھا۔

جواب میں زمبابوے کی ٹیم مقررہ 50 اوورز میں چار وکٹ کے نقصان پر کل 247 رنز ہی بنا پائی، اور انجامِ کار 171 رنز سے مقابلہ ہار گئی۔

پانچویں بار:

عالمی کپ کی تاریخ میں پہلی بار 400 رنز کا ہندسہ بھارت نے پار کیا۔ ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے 2007ء کے عالمی کپ میں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ہاتھوں ہونے والی شکست کے بعد بھارت نے 19 مارچ کو پورٹ آف اسپین میں کمزور ترین حریف برمودا کا مقابلہ کیا اور ساری کسریں اس کے گیندبازوں سے نکالیں۔ بنائے گئے 413 رنز میں اہم کردار وریندر سہواگ کے 87 گیندوں پر 114، سارو گانگلی کے 114 گيندوں پر 89، یووراج سنگھ کے 46 گیندوں پر 83 اور سچن تنڈولکر کے 29 گیندوں پر 57 رنز کا رہا۔

بیچارہ، برمودا جواب میں کیا کرتا؟ 44 ویں اوور کی پہلی گیند پر کُل 154 کے اسکور پر ڈھیر ہوگیا اور یوں بھارت نے یہ میچ ریکارڈ 257 رنز کے فرق سے جیت لیا۔

چھٹی بار:

یکم جولائی 2008ء، اسکاٹ لینڈ کا شہر ایبرڈین، جہاں نیوزی لینڈ نے آئرلینڈ کے خلاف صرف دو وکٹوں پر 402 رنز بنا کر اننگز کو 'چار چاند' لگائے۔ جیمز مارشل اور برینڈن میک کولم کی شاندار سنچریاں سب سے نمایاں رہیں۔ مارشل نے 141 گیندوں پر چار چھکے اور 11 چوکے لگائے اور 161 رنز بنائے جبکہ میک کولم نے 135 گیندوں پر 10 چھکوں اور 12 چوکوں کی مدد سے 166 رنز کی اننگز کھیلی۔

جواب میں آئرلینڈ 28.4 اوورز میں محض 112 رنز آل آؤٹ ہوگیا اور یوں نیوزی لینڈ نے یہ مقابلہ 290 رنز کے بڑے فرق سے جیت گیا۔

ساتویں بار:

اگر 2006ء کا جنوبی افریقہ-آسٹریلیا مقابلہ شاہکار تھا تو 2009ء میں بھارت-سری لنکا کا راجکوٹ میں کھیلا گیا مقابلہ بھی کم نہیں تھا۔ اس مقابلے میں بھی ایک ہی اننگز میں دونوں ٹیموں نے 400 کی سرحد پار کی۔ 15 دسمبر کو کھیلے گئے اس مقابلے میں وریندر سہواگ کے 102 گیندوں پر 146 اور سچن تنڈولکر اور مہندر سنگھ دھونی کی نصف سنچریوں کی مدد سے 7 وکٹوں پر 414 رنز جوڑے۔ یعنی اپنے پسندیدہ 'طریقۂ واردات' کو استعمال کیا اور اتنے رنز بنا ڈالے کہ حریف خود ہی ہتھیار ڈالے۔

آٹھویں بار:

لیکن سری لنکا نے ایسا نہیں کیا۔ اوپل تھارنگا اور تلکارتنے دلشان نے بہت ہی غیر معمولی آغاز کیا۔ پہلی ہی وکٹ پر ان کی 188 رنز کی شراکت داری نے سری لنکا کو بالکل درست راہ پر ڈالا۔ دلشان نے 124 گیندوں پر 160 رنز کی اننگز کھیلی اور تھارنگا اور کپتان کمار سنگاکارا نے بالترتیب 67 اور 90 رنز کی اننگز کھیلی۔

مقابلہ آخری گیند تک گیا، انتہائی سنسنی خیز اور اعصاب شکن لیکن انجام کار یہ کہ سری لنکا جیت نہ سکا۔ مقررہ 50 اوورز کے اختتام پر وہ 8 وکٹوں کے نقصان پر 411 رنز ہی بنا سکا، یعنی صرف اور صرف 3 رنز سے ہار گیا۔

راجکوٹ کے لوگ اس مقابلے کو شاید کبھی نہ بھولیں!

نویں بار:

اب بھارت نے 'عادت ہی بنالی'۔ لیکن سال 2010ء کے آغاز میں اس نے کسی معمولی حریف کو نہیں بلکہ جنوبی افریقہ کو تختۂ مشق بنایا۔ 24 فروری کو گوالیار میں کھیلے گئے مقابلے میں سچن تنڈولکر نے اپنے کیریئر کی یادگار ترین اننگز کھیلی اور ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈبل سنچری بنائی۔ سچن کے ناقابل شکست 200 رنز اور دنیش کارتھک کے 79 اور کپتان مہندر سنگھ دھونی کے 35 گیندوں پر 68 رنز نے بھارت کو صرف 3 وکٹوں کے نقصان پر 401 رنز تک پہنچایا۔

جنوبی افریقہ ابراہم ڈی ولیئرز کی 113 رنز کی دلکش اننگز کے باوجود 248 رنز سے زیادہ نہ بنا سکا۔ بھارت 153 رنز سے مقابلہ جیت گیا اور گوالیار نے سچن کو امر کردیا۔

دسویں بار:

بھارت نے دسمبر 2011ء میں ایک مرتبہ پھر اپنے ہی میدان پر مہمان کا بھرپور 'سواگت' کیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک روزہ سیریز کے چوتھے مقابلے میں وریندر سہواگ نے 149 گیندوں پر 219 رنز بنائے اور یوں ایک روزہ کرکٹ کی سب سے بڑی اننگز کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی دھواں دار اننگز میں 25 چوکے اور 7 چھکے شامل تھے جن کی بدولت بھارت نے 418 رنز بنائے۔ سہواگ کے علاوہ اس اننگز میں گوتم گمبھیر نے 67 اور سریش رینا نے بھی 55 رنز کی اہم اننگز کھیلیں۔

سہواگ کی اس اننگز نے نہ صرف تندولکر کو پیچھے چھوڑا، بلکہ یہ باری تقریباً تین سال تک ایک روزہ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز بھی بنی رہی۔

بہرحال، جواب میں ویسٹ انڈیز کی جانب سے وکٹ کیپر دنیش رامدین کے 96 رنز کے علاوہ کوئی دوسرا کھلاڑی قابلِ ذکر کارکردگی نہ دکھا پایا اور پوری ٹیم 49.2 اوورز میں 265 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ بھارت نے مقابلہ 153 رنز سے جیت لیا۔

گیارہویں بار:

ایک مرتبہ پھر بھارت کا میدان، حریف بھی سری لنکا، لیکن سال مختلف۔ 13 نومبر 2014ء کو کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں بھارت کے روہیت شرما کی ریکارڈ ساز 264 رنز کی اننگز نے بھارت کو پانچویں بار 400 رنز کے پار پہنچایا۔ روہیت کی اننگز میں 33 چوکے اور 9 چھکے شامل تھے، جو آج بھی ایک روزہ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز ہے۔

سری لنکا نے 405 رنز کے تعاقب میں صرف 251 رنز بنائے جس میں اینجلو میتھیوز اور لاہیرو تھریمانے کے 75 اور 59 رنز شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ بھارت نے یہ مقابلہ بھی 153 رنز سے جیتا۔

بارہویں بار:

بھارت نے بہت باریاں لے لیں، اب جنوبی افریقہ نے اپنے 'میٹر' کو بڑھانے کا فیصلہ کیا اور 18 جنوری 2015ء کو اپنے 'گڑھ' جوہانسبرگ میں ویسٹ انڈیز کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کپتان ابراہم ڈی ولیئرز کی ریکارڈ شکن اور ریکارڈ ساز 149 رنز کی اننگز اور ساتھ ہی ہاشم آملہ اور ریلی روسو کی سنچریوں کی بدولت جنوبی افریقہ نے 439 رنز کا ہمالیہ کھڑا کیا۔ ڈی ولیئرز نے صرف 44 گیندیں کھیلیں اور 9 چوکوں اور 16 چھکوں کی مدد سے 149 رنز بنائے، یعنی 338.63 کا دیومالائی اسٹرائیک ریٹ! لیکن اس اننگز کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انہوں نے تیز ترین نصف سنچری اور تیز ترین سنچری کے ریکارڈز قائم کیے۔ صرف 16 گیندوں پر اپنی نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد ڈی ولیئرز نے محض 31 ویں گیند پر تہرے ہندسے کو جا لیا۔

دوسری جانب ہاشم آملہ نے 142 گیندوں پر 14 چوکوں کی مدد سے ناقابلِ شکست 153 رنز بنائے جبکہ ریلی روسو نے 115 گیندوں پر 128 رنز کی اننگز کھیلی۔

مقابلے کی دوسری اننگز میں ویسٹ انڈیز کی جانب سے ڈیوین اسمتھ اور دنیش رامدین کی نصف سنچریاں ہی سامنے آ سکیں، جن کی اتنے بڑے ہدف کے جواب میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر صرف 291 رنز ہی جمع ہوسکے اور یوں جنوبی افریقہ نے مقابلہ 148 رنز سے جیت لیا۔

تیرہویں بار:

ویسٹ انڈیز پر جنوبی افریقہ کی 'نظرِ کرم' محض چند ہفتوں بعد عالمی کپ 2015ء کے دوران پڑی۔ جب سڈنی میں ہونے والے مقابلے میں ابراہم ڈی ولیئرز نے ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈین گیندبازوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس بار انہوں نے 52 گیندوں پر سنچری بنائی اور 66 گیندوں پر 162 ناقابل شکست رنز اسکور کیے۔ یہ عالمی کپ تاریخ کی دوسری تیز ترین سنچری اور ایک روزہ کرکٹ کی تیز ترین 150 رنز کی اننگز تھی۔

17 چوکوں اور آٹھ چھکوں سے آراستہ ناقابلِ شکست اور قابل دید اننگز ڈی ویلیرز کی بہترین ایک روزہ اننگز بھی بنی۔ ان کا گزشتہ بہترین انفرادی اسکور 149 تھا۔

ڈی ولیئرز کے علاوہ ہاشم آملہ کے 88 گیندوں میں 65، فف دو پلیسی کے 70 گیندوں پر 62 اور ریلی روسو کے صرف 39 گیندوں پر 61 رنز جنوبی افریقہ کو 408 رنز تک پہنچا گئے۔ اتنے بڑے ہدف کا بوجھ اتنا تھا کہ ویسٹ انڈیز نے ابتداء ہی میں ہتھیار ڈال دیے۔ کپتان جیسن ہولڈر کی معمولی مزاحمت کے ختم ہوتے ہی ٹیم 151 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ یعنی جنوبی افریقہ نے 257 رنز سے مقابلہ جیت لیا۔