پی سی بی نے پی ٹی ٹی رپورٹ کو جانبدارانہ اور حقائق کے منافی قرار دے دیا

1 1,047

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی پاکستان ٹاسک ٹیم (پی ٹی ٹی) کی تیار کردہ رپورٹ کا جواب بھیج دیا ہے جس میں رپورٹ کو جانبدارانہ اور حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی بیشتر سفارشات کو مسترد کردیا ہے۔ پی سی بی کے بقول پاکستان ٹاسک ٹیم کی سلیکشن کمیٹی سے متعلق سفارشات حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ پی سی بی نے انتظامی امور میں سیاسی و حکومتی سرپرستی کو پاکستان کرکٹ کے لیے انتہائی ضروری قرار دیا ہے اور ساتھ ہی آئی سی سی پر پاک بھارت کرکٹ مقابلوں کی بحالی کے لئے کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔

چیئرمین پی سی بی اعجازبٹ نے امید ظاہر کی کہ کہ آئی سی سی پی سی بی کے جواب کو مثبت انداز میں لے گا

گزشتہ ہفتے ہانگ کانگ میں آئی سی سی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پی ٹی ٹی کی جانب سے پیش کردہ 38 صفحات پر مشتمل اور 63 سفارشات کی حامل رپورٹ کا تفصیلی جواب آئی سی سی کو بھجوا دیا ہے جس کی چند تفصیلات ذرائع ابلاغ کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔ جواب میں پی سی بی نے سفارشات سے متعلق کئی سوالات اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پاکستان ٹاسک ٹیم نے اپنی سفارشات پاکستان کے زمینی حقائق کا جائزہ لیے بغیر مرتب کی ہیں۔ پی سی بی نے معترضانہ انداز میں کہا کہ ٹاسک ٹیم کے ممبر ڈیوڈ رچرڈسن رواں سال جنوری میں صرف ایک ہی بار پاکستان آئے اور انہوں نے کراچی میں چند گھنٹے قیام کے دوران چند سابق کرکٹرز سے ملاقات کی اور میدانوں کا معائنہ کیا۔ اس واحد دورے کے دوران پی ٹی ٹی کا کسی اہلکار نے بورڈ کا موقف جاننے کی کوشش نہیں کی۔

پی سی بی کا کہنا ہے کہ ٹاسک ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کے بااختیار ہونے کے متعلق پی ٹی ٹی کی تنقید اور سفارش بھی حقیقت کے منافی ہے کیوں کہ سلیکشن کمیٹی کسی بھی مداخلت کے بغیر بالکل آزادانہ طور پر کام انجام دیتی ہے، سلیکشن کمیٹی کی جانب سے ٹیم تیار کرکے منظوری کیلئے چیئرمین کو بھجوائی جاتی ہے جس میں اگر چیئرمین تبدیلی محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنی تجاویز دوبارہ سلیکشن کمیٹی کو بھیجتے ہیں اور یہ سلیکشن کمیٹی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ چیئرمین کی تجویز پر عمل کریں یا نہ کریں۔ پی سی بی نے سلیکٹرز سے متعلق پی ٹی ٹی کی سفارش کا جواب دیتے ہوئے اسے بھی حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ پی سی بی نے کہا ہے کہ موجودہ تمام سلیکٹرز سابق انٹرنیشنل اور فرسٹ کلاس کرکٹرز ہیں، سلیکشن کمیٹی کے سربراہ خود ماضی کے بہترین اور قدآور کرکٹر رہے ہیں۔

پی سی بی نے بورڈ سے سیاسی و حکومتی سرپرستی کے متعلق سفارش کو زمینی حقائق سے متصادم قرار دیا اور کہا ہے کہ ناگفتہ بہ ملکی حالات کے پیش نظر بورڈ کے معاملات میں حکومتی مداخلت اور سرپرستی ضروری ہے۔ پی سی بی نے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ چیئرمین پی سی بی کے اختیارات کے متعلق بھی ٹاسک ٹیم کی سفارش حقائق کے برعکس ہے پاکستان کے حالات کے مطابق چیئرمین بااختیار ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریاں بحسن خوبی میں ادا کر رہے ہیں۔

ٹاسک ٹیم کی جانب سے پاکستان کرکٹ کے ڈھانچے کو کمزور قرار دینے کے جواب میں پی سی بی نے کہا کہ پاکستان گزشتہ 60 برس میں پاکستان عالمی کرکٹ پر نمایاں رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ملک میں کرکٹ کا مضبوط ڈھانچہ ہے لہٰذا ٹاسک ٹیم کی جانب سے پاکستان کرکٹ کے ڈھانچے کو کمزور قرار دینا حقیقت کے منافی ہے۔

پی سی بی نے آئی سی سی کی توجہ پاک بھارت سیریز کی جانب مبذول کرواتے ہوئے دونوں روایتی حریفوں کے مابین مقابلوں کو آئی کونیک قرار دیا ہے۔ پی سی بی نے آئی سی سی سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ روابط کی بحالی انتہائی ضروری ہے جس کیلئے ٹاسک ٹیم کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

پی سی بی نے آزاد آڈٹ کمیٹی کے بارے میں تجویز کے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ٹاسک ٹیم نے پاکستان کو جس طرح کی آڈٹ کمیٹی کی تجویز دی ہے وہ نظام خود آئی سی سی میں نافذ بھی نہیں ہے۔ آئی سی سی کے بھجوائے گئے جواب میں چیئرمین پی سی بی اعجازبٹ نے کہاکہ کرکٹ بورڈ ٹاسک ٹیم کی بعض سفارشات سے اتفاق نہیں کرتا اور امید ہے کہ آئی سی سی پی سی بی کے جواب کو مثبت انداز میں لے گا۔

یاد رہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اپنی پاکستان ٹاسک ٹیم (پی ٹی ٹی) کی تیار کردہ رپورٹ 6 جولائی کو منظر عام لاتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو انتظامی معاملات، کھلاڑیوں اور انتظامیہ کے انتخاب کے طریق کار و دیگر امور کے حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس سے قبل یہ رپورٹ گزشتہ ماہ ہانگ کانگ میں آئی سی سی کے سالانہ اجلاس میں پاکستان ٹاسک ٹیم کی جانب سے ایگزیکٹو کونسل کے روبرو پیش کی گئی تھی۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد مبصرین کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا تھا۔ ایک جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو عارف عباسی نے پاکستان ٹاسک ٹیم رپورٹ کو ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا تو دوسری جانب عمران خان کی جانب سے ان سفارشات کو سراہا گیا تھا۔