پاکستان، آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات: بھیانک یادیں، ڈراؤنے خواب

4 1,028

آج صبح جب پاکستان اور آسٹریلیا کے دستے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پہلا ٹیسٹ کھیلنے کے لیے اتریں گے تو کپتان مصباح الحق اور یونس خان سمیت متعدد کھلاڑیوں کے ذہنوں پر 12 سال پہلے کی بھیانک یادیں گردش کریں گی جب دونوں ٹیمیں پہلی اور آخری بار متحدہ عرب امارات میں ٹیسٹ میں مدمقابل آئی تھیں۔ جب 2002ء میں آسٹریلیا نے حالات کی خرابی کا بہانہ بنا کر پاکستان آنے سے انکار کیا تو سری لنکا اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کے لیے میزبان کے فرائض انجام دیے لیکن یہ سیریز ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔

پاکستان آسٹریلیا کے خلاف ایک اننگز میں 59 اور دوسری میں 53 رنز پر ڈھیر ہوا اور کپتان وقار یونس کا سر شرم سے جھک گیا (تصویر:Reuters)
پاکستان آسٹریلیا کے خلاف ایک اننگز میں 59 اور دوسری میں 53 رنز پر ڈھیر ہوا اور کپتان وقار یونس کا سر شرم سے جھک گیا (تصویر:Reuters)

پہلی بار اپنی 'ہوم سیریز' بیرون ملک کھیلنے کے لیے پاکستان نے کولمبو کو پہلا میدان منتخب کیا جہاں اکتوبر 2002ء کے اوائل میں سیریز کا پہلا ٹیسٹ کھیلا گیا جو پاکستان کے بلے بازوں کی نااہلی کی وجہ سے آسٹریلیا 41 رنز سے جیت گیا۔ اس کے بعد باقی دو ٹیسٹ کے لیے پاکستان نے شارجہ کے میدان کا انتخاب کیا۔ لیکن یہ یادگار مقام اس سیریز میں پاکستان کے کھلاڑیوں کے لیے مقتل گاہ ثابت ہوا اور شاید ہی قومی کرکٹ ٹیم نے کبھی تاریخ میں اتنی بری کارکردگی دکھائی ہو۔

ہیڈ کوچ وقاریونس اس وقت ٹیم کے کپتان تھے اور کپتان مصباح الحق اپنے ٹیسٹ کیریئر کے ابتدائی ایام گزار رہے تھے، جب شارجہ میں 11 اکتوبر 2002ء کو سیریز کا دوسرا ٹیسٹ شروع ہوا۔ ٹاس جیتنے کے بعد قومی بلے بازوں کی "تو چل میں آیا" کی ایسی مثال شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملی ہو۔ سوائے عبد الرزاق کے کوئی بلے باز دہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچ سکا اور پوری ٹیم صرف 59 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ یہ ٹیسٹ تاریخ میں پاکستان کا بدترین مجموعہ تھا۔ پھر آسٹریلیا نے میتھیو ہیڈن کی سنچری کی بدولت 310 رنز بنا کر ثابت کردیا کہ وکٹ بلے بازی کے لیے بہترین تھی لیکن پاکستان کے بیٹسمینوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ پچ میں بارودی سرنگیں نصب ہیں۔ دوسری اننگز ایک مرتبہ پھر بلے باز شین وارن اینڈ کمپنی کے ہتھے چڑھ گئے اور اس مرتبہ تو محض ایک ہی دن بعد اپنا بدترین ریکارڈ توڑ ڈالا اور صرف 53 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔ کپتان وقار یونس اور اوپنر توفیق عمر پیئر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے یعنی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔ یوں شارجہ میں پاکستان کا پہلا ٹیسٹ صرف دو روز میں اختتام کو پہنچا۔

ایک اننگز اور 198 رنز کی بدترین شکست کا طوق لٹکائے پاکستان ایک ہفتے بعد دوبارہ اسی میدان پر سیریز کا آخری ٹیسٹ کھیلنے کے لیے موجود تھا۔ جہاں آسٹریلیا نے ٹاس جیتا، پہلے بلے بازی سنبھالی اور پھر رکی پونٹنگ اور اسٹیو واہ نے پاکستانی باؤلرز کے چھکے چھڑا دیے۔ 444 رنز کے بعد پاکستان کے عدم اعتماد کا شکار بلے باز کیا کرسکتے تھے؟ صرف 100 رنز پر چھ وکٹیں گنوانے کے بعد حسن رضا اور ثقلین مشتاق نے ساتویں وکٹ پر 91 رنز جوڑکر حالات کو کچھ بہتر بنایا لیکن پھر بھی اننگز 221 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی۔ فالو آن کے بعد ایک مرتبہ پھر سوائے حسن رضا کے کوئی بلے باز شین وارن اور گلین میک گرا کے سامنے نہ ٹک سکا۔ حسن رضا نے دوسری اننگز میں بھی نصف سنچری بنائی اور پاکستان 203 رنز پر آل آؤٹ ہونے کے بعد یہ میچ بھی اننگز کے مارجن سے ہار گیا۔

اس کے بعد سے آج تک پاکستان نے آسٹریلیا کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا۔ پاک-آسٹریلیا گزشتہ سیریز کی میزبانی بھی انگلستان میں کی گئی جہاں مقابلہ ایک-ایک سے برابر ٹھیرا تھا۔

بلامبالغہ شارجہ میں کھیلے گئے یہ دونوں مقابلے پاکستان کی ٹیسٹ تاریخ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ قدرت نے وقار یونس اور مصباح الحق کو موقع عطاء کیا ہے کہ وہ اس داغ کو دھوئیں۔ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز کے تمام مقابلے ہارنے کے بعد ایک نوجوان ٹیم کے ساتھ اتنا بڑا کارنامہ انجام دینا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ آج سے شروع ہونے والا دبئی ٹیسٹ کس کے نام رہتا ہے؟