[سالنامہ 2013ء] ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے مایوس کن سال

1 1,066

سال 2013ء کا آغاز اور پھر اس کا اختتام پاکستان کے لیے دونوں بہت یادگار رہے، لیکن درمیان میں جو کچھ ہوا، وہ ایک طویل داستان ہے جس میں فتوحات کی شاندار یادیں بھی ہیں اور بدترین شکستوں کے کڑوے گھونٹ بھی۔ البتہ پاکستان نے سال کا اختتام جس طرح کیا ہے، اس سے نئی توقعات باندھی جا سکتی ہیں۔ کئی نوجوان کھلاڑیوں نے اس سال ملک کی نمائندگی کی اور صلاحیتوں او رکارکردگی کے ذریعے اپنی لوہا منوایا اور امید ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم ان جوان کاندھوں پر کافی آگے تک جائے گی۔

پاکستان رواں سال کوئی ٹیسٹ سیریز نہ جیت سکا، زمبابوے کے خلاف بھی نہیں (تصویر: AP)
پاکستان رواں سال کوئی ٹیسٹ سیریز نہ جیت سکا، زمبابوے کے خلاف بھی نہیں (تصویر: AP)

اگر ہم پاکستان کرکٹ اور سال 2013ء کا جائزہ فارمیٹ کے اعتبار سے لیں تو تینوں کی کہانیاں الگ الگ نظر آتی ہیں۔ ٹیسٹ کے لحاظ سے یہ ایک انتہائی مایوس کن سال رہا جس میں پاکستان کو ایک سیریز جیتنے کی بھی توفیق نہیں ملی حتیٰ کہ زمبابوے جیسے کمزور ترین حریف کے خلاف بھی نہیں۔ ایک روزہ میں انفرادی و اجتماعی سطح پر کارکردگی بہت نمایاں رہی، گو کہ پاکستان کو سال کے اہم ترین ایونٹ چیمپئنز ٹرافی میں بری طرح شکست ہوئی جبکہ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نے کافی اچھی کارکردگی دکھائی۔

ابتداء کرتے ہیں کرکٹ کی طویل ترین طرز سے۔ ٹیسٹ اکھاڑے میں پاکستان کے لیے بدترین سال کا آغاز دورۂ جنوبی افریقہ سے ہوا، جو قومی کرکٹ کی تاریخ کا ایسا باب بن چکا ہے، جسے ہر کھلاڑی بھلانا چاہے گا۔ یکم فروری کو جب پاکستان کا دستہ جوہانسبرگ کے تاریخی نیو وینڈررز اسٹیڈیم میں کھیلنے کے لیے اترا تو زوال کی اتھاہ گہرائی اس کی منتظر تھی۔ وینڈررز میں وہ پہلی اننگز میں صرف 49 رنز پر ڈھیر ہوا۔ قومی کرکٹ کی تاریخ کا شرمناک ترین باب، جب قومی ٹیم کسی ٹیسٹ کی اننگز میں 50 رنز بھی نہ اکٹھے کرسکی۔ ایسی کارکردگی کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ جی ہاں، 211 رنز کی بدترین شکست۔

کیپ ٹاؤن میں ہونے والے اگلے مقابلے میں پاکستان نے کافی بہتر کارکردگی دکھائی بلکہ اسے میچ پر گرفت مضبوط کرکے اسے جیتنا چاہیے تھا۔ پاکستان مقابلے میں دو دن تک مکمل طور پر حاوی رہا لیکن رابن پیٹرسن کی شاندار بیٹنگ اور پھر اپنے بلے بازوں کی ناقص کارکردگی نے اسے مقابلے سےایسا باہر کیا کہ آخر میں اسے 4 وکٹوں کی شکست ہی ملی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان سیریز بھی گنوا بیٹھا۔

دونوں مقابلوں میں شکست کھانے والے پاکستان کے تابوت میں آخری کیل جنوبی افریقہ نے سنچورین میں ٹھونکی جہاں پاکستان دو اننگز میں ملا کر بھی جنوبی افریقہ کے پہلی اننگز کے اسکور 409 رنز تک نہ پہنچ پایا اور اننگز اور 18 رنز کی بدترین شکست کے ساتھ سیریز میں کلین سویپ سے دوچار ہوا۔

خاطر جمع رکھیے، مزید بری کارکردگی ابھی آگے ہے۔ جب قومی ٹیم 6 ماہ کے وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر افریقہ کی سرزمین پر پہنچی تو یہاں گو کہ حریف عالمی نمبر ایک نہیں بلکہ عالمی نمبر 'آخری' یعنی زمبابوے تھا لیکن اس کے خلاف بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کیے جا سکے۔ اولین ٹیسٹ میں یونس خان کی ڈبل سنچری نے پاکستان کو مشکل صورتحال سے دوچار ہونے بچا لیا اور مقابلہ بھی جتوا دیا لیکن ہرارے ہی میں پاکستان کی بیٹنگ صلاحیت کی قلعی کھل گئی اور زمبابوے نے 24 رنز کی تاریخی فتح حاصل کرکے سیریز 1-1 سے برابر کردی۔

سال کا سب سے مایوس کن لمحہ، جب پاکستان زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ میچ ہار گیا (تصویر: AFP)
سال کا سب سے مایوس کن لمحہ، جب پاکستان زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ میچ ہار گیا (تصویر: AFP)

بزعم خود 'دنیا کی بہترین باؤلنگ لائن اپ' کو ہرارے کے دوسرے ٹیسٹ میں پہلی اننگز میں 294 رنز پڑے گو کہ یہ اتنا بڑا مجموعہ نہ تھا لیکن یونس خان اور مصباح الحق جیسے تجربہ کار بلے بازوں کی موجودگی میں پاکستان پہلی باری میں 230 رنز ہی بنا پایا یعنی کہ 64 رنز کا خسارہ اور غالباً یہی بعد ازاں فیصلہ کن ثابت ہوا۔ زمبابوے کی دوسری اننگز میں گو کہ صرف 199 رنز تک محدود رہی لیکن پہلی اننگز کی برتری کی بدولت پاکستان کو فتح کے لیے 264 رنز ملے۔ یہیں پاکستانی بیٹنگ نے اپنے ناقابل یقین ہونے کا اعلیٰ ترین ثبوت دیا۔ کپتان مصباح 79 رنز کے ساتھ ایک اینڈ سے تکتے ہی رہ گئے اور دوسرے اینڈ سے بلے باز وکٹیں دیتے چلے گئے۔ پوری ٹیم 239 رنز پر ڈھیر ہوکر زمبابوے کو 24رنز کی تاریخی فتح سے نواز گئی۔ ٹینڈائی چتارا دوسری اننگز میں حاصل کردہ 5 وکٹیں ساری زندگی نہیں بھولیں گے۔

سال کی تین میں سے ابتدائی دونوں سیریز میں بدترین ناکامی کے بعد اب پاکستان کا آخری بڑا امتحان شروع ہوا۔ ماہ اکتوبر میں متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں ایک مرتبہ پھر عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ سے ٹکراؤ۔ ابوظہبی میں پہلے ٹیسٹ سے قبل ماہرین و ناقدین تو کجا، خوش فہم پاکستانی شائقین کو بھی توقع نہیں تھی کہ پاکستان دنیا کی بہترین ٹیم کے سامنے ڈٹ پائے گا لیکن کیونکہ پاکستان 'ناقابل یقین' ہے، اس لیے کچھ بھی توقع کی جا سکتی تھی اور حیران کن طور پر پاکستان نے جنوبی افریقہ کو 7 وکٹوں سے ہرا دیا۔

شیخ زاید اسٹیڈیم میں جنوبی افریقہ کو 249 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد پاکستان نے خرم منظور کے 146 اور کپتان مصباح الحق کی سنچری کی بدولت 442 رنز بنا ڈالے اور پھر جنید خان اور سعید اجمل کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے دوسری اننگز میں بھی جنوبی افریقہ کو 232 کے معمولی اسکور پر محدود کردیا۔ 40 رنز کا ہدف پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا اور سال کی پہلی قابل ذکر ٹیسٹ فتح حاصل کی۔

لیکن جیت کا یہ نشہ محض چند دنوں میں ہرن ہوگیا جب دبئی میں کھیلا گیا دوسرا و آخری ٹیسٹ پاکستان بہت ہی بری طرح سے ہار گیا۔ چند روز قبل 442 رنز بنانے والی پاکستانی بیٹنگ لائن اپ یہاں پہلی اننگز میں 100 رنز بھی نہ جوڑ پائی اور محض 99 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ اس کے بعد تو کوئی معجزہ ہی پاکستان کو شکست سے بچا سکتا تھا، جو رونما نہ ہوا اور پاکستان دوسری اننگز میں 326 رنز بنانے کے باوجود مقابلہ ایک اننگز اور 92 رنز کے بڑے مارجن سے ہار گیا۔

گو کہ اس مقابلے میں اٹھنے والے بال ٹمپرنگ تنازع نے ناقدین کی توجہ پاکستان کی بدترین کارکردگی سے ہٹا دی۔ دوسری اننگزمیں جنوبی افریقی کھلاڑی فف دو پلیسی اپنے ٹراؤزر کی زپ پر گیند کو رگڑتے پائے گئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کارکردگی کے عدم تسلسل نے پاکستان کو ایک تاریخی سیریز جیت سے محروم کردیا اور یہ سیریز ایک-ایک سے برابر ٹھہری۔ اگر پاکستان ابوظہبی کی کارکردگی کو دبئی میں دہراتا تو متحدہ عرب امارات کے میدان ایک ایسی شکارگاہ بن جاتے جہاں پاکستان دنیا کی نمبرایک ٹیموں کو بلا کر انہیں شکست سے دوچار کرتا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے لیے ٹیسٹ سیریز کا ایک ناکام سال بھی مکمل ہوا جس میں پاکستان کوئی سیریز نہ جیت پایا۔

سال 2013ء میں کھیلے گئے 7 میں سے 5 مقابلوں میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور صرف دو میچز میں ہی وہ فتحیاب ٹھیرا، جن میں سے ایک زمبابوے کے خلاف تھا۔

مقابلے جیتے ہارے برابر بے نتیجہ بہترین اسکور کمترین اسکور
پاکستان 7 2 5 0 0 442 49

اگر مایوس کن ٹیم کارکردگی کے بعد انفرادی سطح پر کھلاڑیوں کا جائزہ لیا جائے تو معدوے چند روشن پہلو ہی نظر آتے ہیں۔ یونس خان کی زمبابوے کے خلاف ڈبل سنچری اور خرم منظور کی جنوبی افریقہ کے خلاف ابوظہبی میں 146 رنز کی کارکردگی ہی ایسی رہی، جو فتح گر بھی ثابت ہوئی اور قابل ذکر بھی ہے، باقی اگر کسی نے بلّے اور گیند سے کمال دکھایا بھی تو وہ ضایع ہی ہوا۔

مجموعی طور پر مصباح الحق 7 مقابلوں میں 570 رنز بنا کر سب سے نمایاں رہے۔ انہوں نے 47.50 کے اوسط اور 5 نصف سنچریوں اور ایک سنچری کی مدد سے یہ رنز بنائے۔

بلے باز مقابلے رنز بہترین اسکور اوسط سنچریاں نصف سنچریاں چوکے چھکے
مصباح الحق 7 570 100 47.50 1 5 61 6
یونس خان 7 549 200* 45.75 2 1 48 6
اسد شفیق 7 436 130 33.53 2 2 57 2
خرم منظور 4 271 146 33.87 1 2 38 0
اظہر علی 7 270 78 19.28 0 2 28 0

گیندبازوں میں ایک مرتبہ پھر سعید اجمل سب سے آگے رہے بلکہ کوئی بھی دوسرا پاکستانی باؤلر ان کی کارکردگی کے قریب بھی نہیں پھٹک سکا۔ سعید نے7 ٹیسٹ مقابلوں میں 24.72 کے اوسط کے ساتھ 37 وکٹیں حاصل کیں۔ جن میں ان کی بہترین کارکردگی 95 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کرنا تھی جبکہ انہوں نے میچ میں 118رنز دے کر 11 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ مجموعی طور پر انہوں نے دو مرتبہ میچ میں 10 اور 3 مرتبہ اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ باقی گیندبازوں کی تفصیل یہ ہے:

گیندباز مقابلے اوورز میڈنز رنز وکٹیں بہترین باؤلنگ/اننگز بہترین باؤلنگ/میچ اوسط
سعید اجمل 7 346.0 65 915 37 7/95 11/118 24.72
جنید خان 5 186.1 42 505 15 4/67 5/104 33.66
راحت علی 4 126.1 18 432 14 6/127 7/100 30.85
محمد عرفان 4 118.4 15 389 10 3/44 4/86 38.90
عبد الرحمن 2 79.5 21 179 9 4/36 5/87 19.88

اب پاکستان سال کے اختتام کے ساتھ ہی، یعنی 31 دسمبر سے سری لنکا کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کا آغاز کرے گا۔ نیا سال طویل طرز کی کرکٹ میں پاکستان کے لیے کیا لاتا ہے؟ یہ جنوری ہی کے مہینے میں معلوم ہوجائے گا۔ امید ہے کہ جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف حالیہ ایک روزہ سیریز میں فتوحات سے بلند ہونے والے حوصلوں کا فائدہ ٹیسٹ طرز میں بھی اٹھائے گا۔

جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف حالیہ ون ڈے فتوحات طویل طرز کی کرکٹ میں بھی پاکستان کو کامیابیاں دے سکیں گی؟ یہ وقت بتائے گا (تصویر: AFP)
جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف حالیہ ون ڈے فتوحات طویل طرز کی کرکٹ میں بھی پاکستان کو کامیابیاں دے سکیں گی؟ یہ وقت بتائے گا (تصویر: AFP)