پاکستان کو دورۂ بھارت پر رضامند نہیں ہونا چاہیے تھا: احسان مانی

1 1,059

بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے سابق صدر احسان مانی نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی شرائط پر بھارت کا دورہ کرنا چاہیے تھا، اور جس طرح بھارت کے دورے رضامندی ظاہر کی گئی ہے، اس سے پاکستان کرکٹ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

جوابی دورے کی یقین دہانی کے بغیر بھارت جانے کا فیصلہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے: احسان مانی (تصویر: AFP)
جوابی دورے کی یقین دہانی کے بغیر بھارت جانے کا فیصلہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے: احسان مانی (تصویر: AFP)

معروف ویب سائٹ پاک پیشن ڈاٹ نیٹ کو دیے گئے انٹرویو میں احسان مانی نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھارت کے دورے پر رضامندی کا اظہار کر کے اک بڑی غلطی کی ہے۔ اگر بھارت کا دورہ کرنے کا فیصلہ سیاسی بنیادوں پر بھی کیا گیا تھا، تو یہ بورڈ کا کام تھا کہ وہ سیاسی قیادت کے ذریعے بھارت سے یقین دہانی حاصل کرے کہ وہ اس دورے کے جواب میں پاکستان کے خلاف جوابی سیریز کھیلے گا، چاہے ہو کسی تیسرے مقام پر ہی کیوں نہ منعقد کی جائے، لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

احسان مانی نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف دو مرتبہ سیریز کھیلنے سے انکار کر چکا ہے، جس کی پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ پھر ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے جس طرح پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ میں تنہا کرنے کی کوششیں کیں، اس کے بعد تو کوئی ایسا قدم اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی بورڈ پر یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کرے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کو 70 سے 80 ملین ڈالرز کا نقصان ہوگا، اس لیے انہوں نے نیوٹرل مقام پر کھیلنے سے بھی انکار کر دیا۔ لیکن یہ مختصر سیریز، جو اب پاکستان کھیلنے جا رہا ہے، اس سے بھارت کو 100 ملین ڈالرز سے زائدکی آمدنی ہوگی بلکہ ممکن ہے کہ 150 ملین ڈالرز کی بھی ہو جائے۔ اور ہم بھارت کو اتنی خطیر رقم کمانے کے لیے اپنی ٹیم بھیج رہے ہیں، اور وہ بھی بغیر کسی جوابی دورے کی یقین دہانی کے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی اور بورڈ کے خسارے کو کم کرنے کے لیے یہ سیریز ہر گز کارآمد نہیں ہوگی۔

پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے حوالے سے ایک سوال پر احسان مانی نے کہا کہ کسی حد تک ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہر قیمت پر ملک میں بین الاقوامی کرکٹ واپسی چاہتا ہے، اور اس کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹاتا پھر رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہےکہ اصل مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے، جو بورڈ کے دائرۂ اختیار میں بھی نہیں، اور وہ مسئلہ ہے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال،جو سازگار نہیں ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے دورے کی بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ حکومت پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کو طے کیا جائے اور ایسا ماحول بنایا جائے جس میں دوسرے ممالک دورہ کرنے کو آسان سمجھیں۔ پاکستان کا دورہ کرنے والے کھلاڑی یہاں آ کر قیدیوں کی طرح نہیں رہنا چاہتے، اس حال میں کہ وہ ہوٹل نہ جا پائیں، لوگوں سے نہ مل سکیں اور اسلحہ بردار کمانڈوز کے جلو میں میدان آئیں اور واپس جائیں، یہ ہر گز پاکستان میں کرکٹ واپس لانے کا درست طریقہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہمیں خود کو قائل کرنا ہوگا کہ یہاں مہمانوں کا آنا محفوظ ہے اور پھر اس کے بعد ہی دوسرے لوگ آنا پسند کریں گے۔ اگر صورتحال محفوظ نہیں تو پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کے لیے دیگر ممالک کو مدعو کرنا سراسر پاگل پن ہوا کیونکہ اگر دوسری مرتبہ کوئی حادثہ پیش آ گیا تو اس کے نتائج پاکستان اور پاکستان کرکٹ کے لیے بہت سنگین ہوں گے۔

2003ء میں آئی سی سی کے صد ربننے والے احسان مانی نے کہا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لیے ہمیں دوسری ٹیموں کا اعتماد جیتنا ہوگا۔ مثلاً آسٹریلیا کے خلاف تین ایک روزہ مقابلے کھیلنے کے لیے ہم ایک مقابلہ دبئی، دوسرا ابو ظہبی میں کھیلنے کے بعد انہیں کہہ سکتے ہیں کہ ایک مقابلہ لاہور یا کراچی میں ہو جائے۔ اس طرح آہستہ آہستہ دیگر ممالک کا اعتماد بحال ہوگا۔ بنگلہ دیش جیسے ممالک پر زور دینا کہ وہ آئیں اور کھیلیں، مجھے نہیں لگتا کہ وہ راضی ہوں گے۔ ہم نے دیکھا کہ بنگلہ دیش نے آخر میں انکار کر دیا اور معذرت کر لی کہ وہ اپنی ٹیم نہیں بھیج سکتے۔ ہم نے ناک بھوں چڑھائی اور انہیں دھمکایا تو وہ بولے اچھا ہم دورہ کريں گے لیکن کسی نے عدالت کا رخ کر لیا اور پاکستان ٹیم بھیجنے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان سیریز کا آغاز رواں ماہ 25 تاریخ کو ہوگا، جس کے دوران دو ٹی ٹوئنٹی اور تین ایک روزہ مقابلے کھیلے جائیں گے۔ بھارت کے لیے قومی کرکٹ ٹیم 22 دسمبر کو روانہ ہوگی۔