پاکستان کا قیادت بحران: لاہور اور کراچی کا مقابلہ اک نئے محاذ پر

5 1,121

پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہیڈکوارٹر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہے جہاں سے ملک کی کرکٹ کے تمام بڑے اور اہم فیصلے ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر 1992ء تک اکا دکا واقعات کے علاوہ کبھی "کراچی بمقابلہ لاہور" کے افسوسناک تعصب نے سر نہیں اٹھایا۔ لیکن 90ء کی دہائی سے چھوٹے موٹے واقعات نے سر اٹھانا شروع کردیا یہاں تک کہ گزشتہ پانچ سالوں سے تو کراچی اور لاہور کے کھلاڑی اور بورڈ حکام باہم گریزاں ہیں ہی، بلکہ دونوں شہروں کے صحافی تک اسی تفریق کی بنیاد پر رپورٹنگ کررہے ہیں۔

نجم سیٹھی اور ان کے ادارے جیو سے وابستہ ایک صحافی کی سفارش پر معین خان کو کرکٹ بورڈ میں داخل کیا گیا۔ اس کی وجہ ادارے سے منسلک صحافیوں کی خبر تک باآسانی رسائی اور گھر بیٹھے بریکنگ نیوز کی سہولت کو یقینی بنانا تھا۔ معین خان مکمل قوت اور اختیارات ملنے کےباوجود کوچ، چیف سلیکٹر اور ٹیم مینیجر کی حیثیت سے اب تک کامیاب تو نہیں ہو سکے لیکن کراچی سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کی ٹیم میں جگہ بنانے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں۔ اب کپتانی جیسے حساس معاملے پر بھی وہ اپنی خواہشات کو نہ دبا سکے اور ٹیم کے سب سے غیر مستقل کھلاڑی، لیکن قوم کے ہیرو، شاہد آفریدی کو کپتان بنانے کے لیے انہوں نے ایسے اقدامات اٹھائے گویا وہ پاکستان کی نہیں بلکہ کسی کلب ٹیم کو چلا رہے ہوں۔

آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میں مصباح الحق کو ان کی خواہش برعکس نہ کھلانا اور 'بوم بوم' کو قیادت دینا بھی اسی منصوبے کا حصہ تھا لیکن قومی کرکٹ ٹیم کی ایک رن سے ناکامی کے ساتھ یہ منصوبہ اپنے انجام کو پہنچا۔ اس طرح معینخان نے سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف "کراچی بمقابلہ لاہور" مقابلے کو ہوا دی لیکن اس منفی اور بھونڈے انداز میں کہ نہ تو کراچی کے کھلاڑی ٹیم میں اپنی جگہ مضبوط کر سکے اور نہ ہی کراچی سے باہر کا کوئی کھلاڑی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرسکا۔

مصباح الحق معین خان کی ٹیم سے وابستگی کے پہلے ہی دن سے دباؤ کا شکار نظر آ رہے ہیں اپنی سنجیدگی اور پیشہ ورانہ انداز کی وجہ سے انہوں نے چپ سادھے رکھی۔ اب حد تو یہ ہے کہ کوچ وقار یونس بھی معین خان کی مٹھی میں ہیں کیونکہ ان کا معاہدہ ہی معین کی سفارش پر ہوا تھا۔ لہٰذا پرانی دوستی اور احسان کے باعث وقار بھی معین کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔

شاہد آفریدی کا تیسرے ون ڈے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں سے خطاب کی یاد دلا گیا جس میں انہوں نے ببانگ دہل قیادت کی خواہش ظاہر کی۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یقیناً اس کے پیچھے ضرور کوئی ہاتھ ہے ورنہ وہ کبھی ایسی جرات نہ کرتے۔

ایک ہی سیریز میں محمد حفیظ اور سعید اجمل دونوں کی عدم موجودگی سے مصباح کو تنہا کردیا جس کا فائدہ اٹھا کر معین خان اور شاہد آفریدی نے کاری وار لگانے کی کوشش کی لیکن شومئی قسمت کہ نہ تو معین کا دماغ چل سکا اور نہ ہی آفریدی ایسی کارکردگی دکھا سکے کہ اس کو بنیاد بنا کر "مسٹر ٹک ٹک" کی چھٹی کی جاتی۔

اس ساری صورتحال میں شاہد آفریدی کو نہ صرف سخت سبکی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پنجاب کے ذرائع ابلاغ کی پہلے سے زیادہ مخالفت مول لے لی۔ سابق چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ کے بیانات اس صورتحال کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ اب آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں ٹیم مصباح اچھی کارکردگی دکھا کر ون ڈے سیریز کی شکست کا داغ دھونے میں کامیاب ہوپاتی ہے یا نہیں۔

اب نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے قبل یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر سر اٹھائے گا اور ورلڈ کپ میں پاکستان کا کپتان کون ہوگا کا سوال جنم لے گا اور متعدد کھلاڑیوں کی جانب سے کپتان بننے کی خواہشات سامنے آئیں گی۔ بھولیے گا نہیں کہ شہریار خان خود مصباح الحق کو کپتان نامزد کرکے انہیں عالمی کپ تک ضمانت دینے کے بجائے فیصلہ 'مسٹر ٹک ٹک' کے گلے میں ڈال کر جان چھڑا چکے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو آفریدی کا کہ جو وقت سے پہلے بیان دے کر معین خان کے بنے بنائے منصوبے پر پانی پھیر گئے۔