پاکستان اور معمولی ہدف کا دفاع، ہملٹن سے ابوظہبی تک

3 1,079

پاکستان کے شائقین دنیائے کرکٹ کی قابلِ رحم ترین 'مخلوق' ہیں۔ یہ ایک دن پاکستان کو زمبابوے سے شکست کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر اگلے ہی ٹیسٹ میں انہی کھلاڑیوں کو عالمی نمبر جنوبی افریقہ کو چاروں خانے چت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ توقعات پھر بلند ہوجاتی ہیں، لیکن ٹیم کئی مقابلے ہارنے کے بعد ہی کسی ایک میچ میں تاریخی کامیابی سمیٹتی ہے۔ ابھی کچھ روز قبل ہم گال کے میدان پر پاکستان کو کھیل کا پانسہ پلٹتے اور 10 وکٹوں سے کامیابی حاصل کرتا دیکھ رہے تھے اور اب اگلے ٹیسٹ میں ہی یہ حال ہےکہ پاکستان حریف کو صرف 153 رنز کا ہدف دے پایا ہے۔ کہاں گال میں ہاتھ سے بازی کو ہاتھ نکلتے دیکھ کر شاندار واپسی اور کہاں کولمبو میں گرفت مضبوط ہوجانے کے بعد مقابلہ گنوانا؟ یہی ہے پاکستان کرکٹ!

گال میں تین دن کے کھیل کے بعد یہ عالم تھا کہ پاکستان سری لنکا سے 182 رنز پیچھے تھا اور اس کی صرف 5 وکٹیں باقی بچی تھیں، لیکن ان پانچ وکٹوں نے ہی کمال دکھا دیا۔ اسکور میں 321 رنز کا بھاری بھرکم اضافہ کیا، وہ بھی انتہائی دباؤ کے عالم میں، لیکن ایک ہفتے بعد ہی یہ حال ہے کہ ایسے موقع پر حالات قابو میں تھے، پاکستان نے صرف 28 رنز پر اپنی آخری پانچ وکٹیں گنوائیں اور سری لنکا پر محض 152 رنز کی برتری حاصل کرسکا۔ اسے پاکستان کی خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ چوتھے روز چائے کے وقفے کے بعد کا کھیل بارش کی نذر ہوگیا۔ خوش قسمتی اس لیے کہ اس کی وجہ سے سری لنکا کے اچھے خاصے اوورز ضائع ہوئے اور وہ ہدف کی جانب ایک رن کی بھی پیشقدمی نہ کرسکا اور بدقسمتی اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو مقابلہ جیتنے کے لیے درکار 10 وکٹیں حاصل کرنے کے لیے آخری روز کم اوورز ملیں۔ بہرحال، ابھی تک تو سوائے بارش کے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ سری لنکا کے لیے معمولی ہدف کا تعاقب آسان دکھائی دیتا ہے اور پاکستان کے لیے حریف کی تمام وکٹیں سمیٹنا مشکل۔

wahab-riaz

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ پاکستان 153 رنز یا اس سے بھی کم ہدف کا دفاع کیا ہو؟ تاریخ کے بہترین گیندباز اس سرزمین پر پیدا ہوئے، اس لیے جی ہاں! ایسا ایک نہیں بلکہ دو بار ہوا ہے کہ پاکستان نے حریف بلے بازوں کو 150 سے بھی کم رنز کا ہدف حاصل نہ کرنے دیا۔

پاکستان نے کامیابی کے ساتھ جس معمولی ترین ہدف کا دفاع کیا ہے، وہ صرف 127 رنز ہے۔ 1993ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہملٹن میں کھیلے گئے سیریز کے واحد ٹیسٹ میں پاکستان نے 'دو ڈبلیوز' کے ذریعے نیوزی لینڈ کو محض 93 رنزپر ڈھیر کیا۔ سیڈن پارک میں ہونے والے اس مقابلے میں پاکستان کا آغاز بدترین تھا۔ پاکستان صرف 12 رنز پر اپنے دونوں اوپنرز اور ون ڈاؤن بلے باز سے محروم ہوچکا تھا اور 87 رنز تک پہنچتے پہنچتے آدھی ٹیم واپس ڈریسنگ روم میں بیٹھی تھی۔ یہاں جاوید میانداد کے قائدانہ 92 رنز اور لوئر-مڈل آرڈر کے ساتھ نے کسی نہ کسی طرح مجموعے کو 216 رنز تک پہنچا دیا۔ نیوزی لینڈ پہلی اننگز کا آغاز تو 108 رنز کی شراکت داری کے ذریعے کیا لیکن اس کے بعد آنے والے بلے باز وسیم اکرم، وقار یونس اور مشتاق احمد کی مثلث کے ہتھے چڑھ گئے۔ پھر بھی نیوزی لینڈ نے 264 رنز بنائے اور 48 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ پاکستان کی بیٹنگ دوسری باری میں بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ سوائے انضمام الحق کے کوئی بلے باز نیوزی لینڈ کے باؤلرز کے سامنے ٹک نہ پایا۔ انضمام کے 75 رنز پاکستان کو بمشکل 174 رنز تک پہنچا سکے یعنی نیوزی لینڈ کے لیے ہدف صرف 127 رنز قرار پایا۔

یہاں وسیم اکرم اور وقار یونس نے میچ کا پانسہ پلٹا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ دونوں گیندباز ساتھ شکار کھیلنے نکلے ہیں۔دونوں اوپنر اور نائٹ واچ مین وسیم اکرم کے ہتھے چڑھے، پھر چوتھے روز صبح کا پہلا شکار وقار یونس کے ہاتھ لگا۔ پھر کچھ ہی دیر میں پوری بیٹنگ لائن زمین بوس ہوچکی تھی۔ صرف دو بلے باز اینڈریو جونز اور ایڈم پرورے دہرے ہندسے میں پہنچے، وہ بھی 19 رنز سے آگے نہ بڑھے، تین بلے باز صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے اور 44 ویں اوور میں اننگز صرف 93 رنز پر تمام ہوئی یعنی فتح 33 رنز سے پاکستان کے نام رہی۔ وسیم اور وقار دونوں نے پانچ، پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

پھر آج سے کوئی ساڑھے تین برس پہلے، متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں بھی پاکستان نے ایک مرتبہ پھر ایک معمولی ہدف کا کامیابی سے دفاع کیا۔ کمال تو اس بار بھی گیندبازی کا تھا، لیکن ماضی کے مقابلے میں اس بار اسپن باؤلرز نے بازی لوٹی۔ پاکستان اُس وقت کے عالمی نمبر ایک انگلستان سے مدمقابل تھا اور سیریز میں ایک –صفر کی برتری بھی رکھتا تھا لیکن دوسرے مقابلے میں آغاز اچھا نہ تھا۔ پہلی اننگز میں 70 رنز کے خسارے میں جانے کے بعد دوسری باری میں بھی بمشکل 214 رنز بنائے یعنی انگلستان کے لیے صرف 145 رنز کا ہدف۔ یہاں سعید اجمل اور عبد الرحمٰن کی جوڑی نے انگلش بلے بازوں کو دن میں تارے دکھا دیے۔ صرف 36 اوورز انگلستان کی مایہ ناز بیٹنگ لائن کے لیے کافی ثابت ہوئے۔ مہمان بلے بازوں کی تمام تر سعی و کوششیں انہیں صرف 72 رنز تک پہنچا سکیں۔ آخری پانچ وکٹیں تو صرف 4 رنز کے اضافے سے گریں۔ عبد الرحمٰن نے 25 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں اور وسیم اکرم کی یاد تازہ کی۔ پاکستان نے اس شاندار کامیابی کے ساتھ سیریز بھی جیتی اور اگلے مقابلے میں فتح کے ذریعے تاریخی وائٹ واش بھی کیا۔

لیکن اب 'ملین ڈالر کا سوال'، کیا پاکستان 153 رنز کے ہدف کا بھی دفاع کر پائے گا؟ امید تو کم ہے، اور مذکورہ بالا تاریخی مقابلوں میں بھی کم ہی تھی، لیکن توقعات یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر سے ہیں، اور ساتھ ساتھ بارش سے بھی کہ یا تو دونوں گیندباز پاکستان کو سیریز میں کامیابی دلائیں یا پھر 'بارانِ رحمت' اسے ناقابل شکست برتری دلائی۔ بصورت دیگر سیریز برابر ہونے کے امکانات صاف دکھائی دیتے ہیں۔