نیوزی لینڈ چھا گیا، پاکستان کو مسلسل تیسری ون ڈے سیریز شکست

0 1,033

حالات تبدیل ہوئے، کپتان بدل گئے، کوچ ہٹا کر نئے لگا دیے گئے لیکن پاکستان کی ایک روزہ کارکردگی میں کوئی فرق نہیں آیا اور عالمی کپ سے عین پہلے اسے مسلسل تیسری ایک روزہ سیریز میں شکست ہوئی ہے، وہ بھی ایسی ٹیم کے ہاتھوں جو نہ صرف اپنے کپتان اور تمام اہم کھلاڑیوں کے بغیر کھیلی، بلکہ نامانوس حالات میں سیریز میں خسارے میں جانے کے باوجود جیت گئی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف آخری ایک روزہ میں پاکستان 68 رنز سے شکست کھانے کے بعد نہ صرف سیریز ہار گیا بلکہ عالمی درجہ بندی میں اپنی بدترین حالت یعنی ساتویں مقام پر چلا گیا ہے۔

نیوزی لینڈ نے دوسرے درجے کی ٹیم کے ساتھ، خسارے میں جانے کے باوجود پاکستان کو جس طرح شکست دی ہے، وہ ایک بڑا کارنامہ ہے (تصویر: AFP)
نیوزی لینڈ نے دوسرے درجے کی ٹیم کے ساتھ، خسارے میں جانے کے باوجود پاکستان کو جس طرح شکست دی ہے، وہ ایک بڑا کارنامہ ہے (تصویر: AFP)

پاکستان کو چند ماہ قبل دورۂ سری لنکا میں برتری حاصل کرنے کے باوجود دو-ایک سے شکست ہوئی تھی، اس کے بعد آسٹریلیا کے خلاف تینوں ایک روزہ مقابلوں میں چت ہوا اور اب نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں دو-ایک کی برتری حاصل کرنے کے باوجود آخری دونوں مقابلوں میں شکست کھائی اور یوں سیریز بھی ہار گیا۔

نیوزی لینڈ کے لیے یہ فتح بہت معنی رکھتی ہے۔ وہ اپنے کپتان برینڈن میک کولم اور دونوں اہم ترین گیندبازوں ٹرینٹ بولٹ اور ٹم ساؤتھی کے بغیر سیریز کھیلا تھا، جنہیں نیوزی لینڈ کرکٹ نے آئندہ سیریز کے لیے آرام کا موقع دیا تھا۔ یوں قیادت نوجوان کین ولیم سن کے سپرد کی گئی جنہوں نے اپنی شاندار بلے بازی کے ذریعے خود کو حقیقی رہنما ثابت کیا اور سیریز کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے۔

ابوظہبی میں ہونے والے آخری ایک روزہ میں بھی نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بلےبازی کا فیصلہ کیا اور مارٹن گپٹل کی ناکامی کے بعد ولیم سن نے میدان میں آتے ہی کھیل کا نقشہ پلٹ دیا۔ انہوں نے دوسری وکٹ ڈین براؤنلی کے ساتھ 66 رنز کا اضافہ کیا اور پھر تجربہ کار روس ٹیلر کے ساتھ مل کر پاکستان کے لیے ایک بڑے ہدف کی راہ ہموار کی۔ دونوں کھلاڑیوں نے تیسری وکٹ پر116 رنز جوڑے۔ بدقسمتی سے ولیم سن اپنی مسلسل دوسری سنچری مکمل نہ کرسکے اور 97 رنز بنانے کے بعد اپنے پاکستانی ہم منصب کی دن کی واحد وکٹ بن گئے۔ ولیم سن نے 119 گیندوں پر 8 چوکوں کا سہارا لیا اور نیوزی لینڈ کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ وہ بقیہ 8 اوورز میں بھرپور بلے بازی کے ذریعے ہدف پاکستان کے گمان سے بھی آگے لے جا سکتاتھا۔ آخری اوورز میں یہ فریضہ روس ٹیلر کے ساتھ لیوک رونکی اور ٹام لیتھم نے انجام دیا۔ ان تینوں بلے بازوں نے آخری 8 اوورز میں 73 رںز کا اضافہ کرکے مجموعے کو 275 رنز تک پہنچا دیا۔ ٹیلر 95 گیندوں پر 88 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے جبکہ لیتھم 14 گیندوں پر 22 رنز بنانے کے بعد ان کے ساتھ شاداں میدان سے لوٹے۔

سوائے شاہد آفریدی اور حارث سہیل کے پاکستان کے تمام ہی گیندباز نے خاصے رنز کھائے۔ محمد عرفان نے گو کہ دو وکٹیں حاصل کیں لیکن ان کے 10 اوورز میں 62 رنز لوٹے گئے جبکہ ذوالفقاربابر نے بھی ایک وکٹ کے بدلے 61 رںز کھائے۔ انور علی نے 10 اوورز میں 62 رنز دیے اور ایک مرتبہ پھر بغیر وکٹ کی مایوس کن کارکردگی دکھائی۔ شاہد آفریدی نے البتہ 10 اوورز میں 33 رنز دیے اور ولیم سن کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کی جبکہ حارث سہیل نے 8 اوورز میں 38 رنز دیے۔ درمیانے اوورز میں ان دونوں کھلاڑیوں نے رنز کو خوب روکا لیکن اس کےبعد پاکستانی گیندباز رنز کے بہاؤ کو روکنے میں مکمل ناکام دکھائی دیے جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ صرف 4 وکٹوں کے نقصان پر اتنے بڑے مجموعے تک پہنچ گیا۔

اب پاکستان کی بیٹنگ لائن کا آخری اور سب سے بڑا امتحان تھا کہ وہ 276 رنز کے مجموعے تک پہنچے۔ چوتھے ایک روزہ میں 300 رنز کے ہدف کے بہت قریب پہنچانے کی وجہ سے امید تو ضرو تھی لیکن پہلے ہی اوور میں ناصر جمشید کی ایک اور ناکامی اور کچھ دیر بعد یونس خان اور اسد شفیق کی وکٹ گرنے سے ساری خوش فہمی ہوا ہوگئی۔ ناصر پہلے ہی اوور میں میٹ ہنری کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوئے جبکہ یونس خان گزشتہ مقابلے کی سنچری کارکردگی کو نہ دہر اسکے اور 25 گیندوں پر 12 رنز کی مایوس کن اننگز کھیلنے کے بعد انہی کی گیند پر وکٹ کیپر لیوک رونکی کو کیچ تھما گئے۔ 13 ویں اوور میں جب اسکور بورڈ پر صرف 38 رنز موجود تھے تو اسد شفیق صرف 7 رنز بناکر انتون ڈیوکچ کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوگئے اور یوں اپنے ایک روزہ کیریئر پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی چھوڑ گئے۔

احمد شہزاد کو متعدد بار زندگی ملی، پہلے وہ ایل بی ڈبلیو سے بچے اور ان کی خوش قسمتی کہیے کہ واضح آؤٹ ہونے کے باوجود نیوزی لینڈ نے ریویو نہیں لیا۔ کچھ دیر بعد وکٹ کیپر نے بھی کیچ چھوڑ کر انہیں ایک زندگی دی لیکن اس کے باوجود ان کی اننگز 54 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی۔ انہوں نے حارث سہیل کے ساتھ مل کر چوتھی وکٹ پر 69 رنز کا اضافہ کیا لیکن اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ شہزاد ہنری کی گیند کو چوکے کے لیے روانہ کرنے کی کوشش میں مڈ آن پر کھڑے ولیم سن کے ہاتھوں دھر لیے گئے۔ 81 گیندوں پر 54 رنز کی مایوس کن اننگز اپنے اختتام کو پہنچی اور کچھ ہی دیر بعد عمر اکمل کی روانگی کے ساتھ ہی جیت کے امکانات آدھے رہ گئے۔ پاکستان صرف 117 رنز پر اپنے پانچ بلے بازوں سے محروم ہوچکا تھا۔

سیریز میں پاکستان کی کارکردگی کا واحد روشن پہلو حارث سہیل رہے، جنہوں نے آخری ایک روزہ میں بھی 65 رنز بنائے (تصویر: AFP)
سیریز میں پاکستان کی کارکردگی کا واحد روشن پہلو حارث سہیل رہے، جنہوں نے آخری ایک روزہ میں بھی 65 رنز بنائے (تصویر: AFP)

حارث سہیل، جو سیریز میں پاکستان کی کارکردگی کا واحد روشن پہلو تھے، نے 74 گیندوں پر 65 رنز کی بہت عمدہ اننگز کھیلی لیکن بڑھتے ہوئے درکار رن اوسط کا دباؤ قبول کرنا ان کے لیے خاصا مشکل ہوتاجا رہا تھا۔ یہاں تک کہ مچل میک کلیناگھن کی گیند ان کی وکٹ کو چھیڑ گئی۔ اس کے بعد "تو چل میں آیا" کا آغاز ہوا۔ سرفراز احمد، جنہوں نے حارث کے ساتھ مل کر 55 رنز کا اضافہ کیا تھا، زیادہ دیر کریز پر نہیں ٹھہرے اور اگلے ہی اوور میں میٹ ہنری کی چوتھی وکٹ بن گئے۔ انہوں نے 24 گیندوں پر 26 رنز بنائے۔ انور علی باؤلنگ کے ساتھ بیٹنگ میں بھی کچھ نمایاں کارکردگی نہ دکھا پائے اور 14 گیندوں پر 18 رںز بنانے کے بعد گرنے والی آٹھویں وکٹ بنے۔ کپتان شاہد آفریدی اب کیا کرتے؟ وہ میٹ ہنری کو مختصر کیریئر میں پہلی بار پانچ وکٹوں کا تحفہ دے کر چلتے بنے اور پاکستان کی پوری اننگز محض 44 ویں اوور میں 207 رنز پر تمام ہوئی۔

ہنری نے 9 اوورز میں صرف 30 رنز دے کر 5 وکٹوں کی فاتحانہ کارکردگی دکھائی، جس پر وہ میچ کے بہترین کھلاڑی کے اعزاز کے حقدار تھے جبکہ دو وکٹیں ناتھن میک کولم نے اور ایک، ایک ایڈم ملنے، میک کلیناگھن اور ڈیوکچ نے حاصل کیں۔

نیوزی لینڈ نے ٹیسٹ سیریز میں ایک-صفر سے خسارے میں جانے کے بعد آخری ٹیسٹ برابر کرکے پاکستان کو جیت سے روک دیا تھا اور یہی صورتحال ٹی ٹوئںٹی میں بھی دکھائی دی جہاں نیوزی لینڈ نے پیچھے سے واپس آتے ہوئے سیریز برابر کی اور ایک روزہ میں بھی تعاقب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو پچھاڑا ہے اور کمال کی بات یہ کہ عالمی کپ سے عین پہلے حوصلوں کو بلند کرنے والی ایک شاندار جیت حاصل کی۔ اب جب فروری میں اپنے ہی میدانوں پر نیوزی لینڈ عالمی کپ شروع کرے گا تو بلاشبہ وہ خطرناک ترین ٹیموں میں شمار ہوگا۔

دوسری طرف پاکستان کے سامنے اب کئی سوالات ہیں۔ سیریز میں شکست کے ساتھ ہی قیادت کی تبدیلی کا قضیہ تو نمٹ جائے گا کیونکہ پاکستان شاہد آفریدی کی قیادت میں بھی سیریز نہ جیت سکا۔ ساتھ ہی کئی کھلاڑیوں کے ایک روزہ کیریئر تھم جائیں جیسا کہ اسد شفیق، انور علی اور ناصر جمشید، اور شاید یونس خان بھی۔ اب قومی سلیکشن کمیٹی کی ذمہ داری میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے کہ وہ اگلے ماہ عالمی کپ کے لیے ایک بہترین دستہ منتخب کرے اور یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ بہرحال، پاکستان کے پاس اب اگلے ماہ نیوزی لینڈ روانگی اور وہاں دو ایک روزہ مقابلے کھیلنے تک آرام کا اور سوچ بچار کا پورا موقع موجود ہے۔