پاکستان میں کرکٹ کی واپسی: بنگلہ دیش راضی، گیند آئی سی سی کے کورٹ میں

0 1,052

بنگلہ دیش کے مجوزہ دورۂ پاکستان کے حوالے سے پاکستان میں حفاظتی انتظامات کا جائزہ لینے کے دورے پر موجود بنگلہ دیشی وفد نے تمام انتظامات پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا ہے اور یوں پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لیے پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے لیکن اب یہ معاملہ سب سے اہم و مشکل ترین دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں دونوں ممالک کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی منظوری درکار ہوگی کہ وہ اگلے ماہ پاک-بنگلہ دیش سیریز کی اجازت دے جو ممکنہ طور پر لاہور و کراچی میں کھیلی جائے گی۔

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے صدر مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ ”وہ بنگلہ دیشی ٹیم کو پاکستان کے دورے پر بھیجنے کے خواہاں ہیں۔“ لیکن اس باہمی رضامندی کے باوجود معاملہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل میں جا کر پھنس سکتا ہے جیسا کہ کرک نامہ نے گزشتہ سال ستمبر میں کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے مجوزہ دورۂ پاکستان کا تمام تر انحصار بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی منظوری پر ہے۔

اس موقع پر ہنگامی صورتحال میں کھلاڑیوں کے انخلاء کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا (تصویر: AFP)
اس موقع پر ہنگامی صورتحال میں کھلاڑیوں کے انخلاء کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا (تصویر: AFP)

لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ”حفاظتی انتظامات ملاحظہ کرنے کے ہمارے وفد کے تمام اراکین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اب یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں دورے کی اجازت کے حوالے سے حکومت بنگلہ دیش کو راضی کروں اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل سے بھی درخواست کروں کہ وہ اس دورے کی منظوری دے۔“

مصطفیٰ کمال کی زیر نگرانی 9 رکنی وفد نے مجوزہ سیریز کے لیے ’حفاظتی منصوبے‘ کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ سنیچر کو پہلے روز انہیں پورے ’حفاظتی منصوبے‘ پر بریفنگ دی گئی جبکہ اتوار کو لاہور میں اس کا عملی مظاہرہ بھی دکھایا گیا جس میں کھلاڑیوں کی رہائش گاہ یعنی پرل کانٹی نینٹل ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم لاہور تک 500 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ اس دوران دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈ کے سربراہان سمیت تمام عہدیداروں کو بذریعہ بس ہوٹل سے اسٹیڈیم تک لایا گیا۔ اس دوران دو ہیلی کاپٹرز بھی موجود رہے اور بعد ازاں کسی ہنگامی صورتحال کے نتیجے میں کھلاڑیوں کے بذریعہ ہیلی کاپٹر انخلا کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ”ہمارے تین مقاصد تھے، ایک تو بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لینا، دوسرا حفاظتی منصوبے کے بارے میں آگہی اور تیسرا اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت کا اندازہ لگانا اور ہمارے وفد کے تمام اراکین نے تینوں مقاصد کو پورا ہوتے دیکھا۔“ انہوں نے کہا کہ ”ماضی میں کبھی کوئی ملک اس طرح آئی سی سی کے پاس نہیں گیا کہ وہ ان سے کسی ملک کا دورہ کرنے کا مطالبہ کرے لیکن ہم مثبت ذہن کے ساتھ آئی سی سی سے مطالبہ کریں گے کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے کی خواہاں ہے۔“

دوسری جانب ذکا اشرف نے بھی اس توقع کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل اس دورے کی اجازت دے گی کیونکہ دونوں ملک اس حوالے سے رضامند ہیں۔

مجوزہ طور پر اس دورے کے لیے دو تجاویز رکھی گئی ہیں ایک تو تین ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیلے جائیں یا پھر دو ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی مقابلہ، جو ایک ہی ہفتے میں مکمل ہو جائیں گے۔ ممکنہ طور پر لاہور کا قذافی اسٹیڈیم اور کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم ان مقابلوں کی میزبانی کریں گے۔

مارچ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سے پاکستان میں کوئی بین الاقوامی مقابلہ منعقد نہیں ہوا اور بعد ازاں بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے پاکستان کو عالمی کپ 2011ء کی میزبانی سے بھی محروم کر دیا۔