دبئی ٹیسٹ، پاکستان حوصلہ مند بھی و فکر مند بھی

1 1,039

متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف مسلسل جدوجہد کرنے والی بیٹنگ لائن بالآخر پہلے ہی ٹیسٹ میں چل گئی اور پاکستان نے یونس خان اور سرفراز احمد کی شاندار سنچریوں اور مصباح الحق، اظہر علی اور اسد شفیق کی عمدہ اننگز کی بدولت 454 رنز کا بڑا مجموعہ اکٹھا کرلیا ہے۔ دوسرے دن کے ابتدائی دو سیشنز تک آسٹریلیا کے باؤلرز کو تگنی کا ناچ نچانے کے بعد پاکستانی اننگز کا اختتام ہوا تو ڈریسنگ روم میں موجود کھلاڑیوں اور تربیتی عملے سے لے کر وطن میں ٹیلی وژن سیٹ کے سامنے جمے تماشائیوں تک، سب اس کارکردگی پر خوش تھے لیکن آسٹریلیا کے اوپنرز کی عمدہ کارکردگی نے رنگ میں کچھ بھنگ ضرور ملا دی ہے۔ دوسرے دن کے اختتام تک ڈیوڈ وارنر اور کرس راجرز ڈٹے ہوئے ہیں اور آسٹریلیا بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 113 رنز تک پہنچ چکا ہے۔ ڈیوڈ وارنر 77 گیندوں پر 75 رنز کی برق رفتار اننگز کے ساتھ موجود ہیں جبکہ دوسرے اینڈ پر راجرز 110 گیندوں پر 31 رنز کے ساتھ جمے ہوئے ہیں۔

باؤلنگ لائن کمزور سہی لیکن اسے خود پر یقین رکھنا ہوگا کہ انہوں نے ہی پریکٹس میچ میں آسٹریلیا کو شکست دی تھی (تصویر: Getty Images)
باؤلنگ لائن کمزور سہی لیکن اسے خود پر یقین رکھنا ہوگا کہ انہوں نے ہی پریکٹس میچ میں آسٹریلیا کو شکست دی تھی (تصویر: Getty Images)

یوں دو دن کا کھیل مکمل تک مقابلہ برابری کی سطح پر چل رہا ہے۔ پاکستان کی برتری اب بھی 341 رنز کی ضرور ہے لیکن آسٹریلیا کی تمام وکٹیں بھی باقی ہیں، جس میں کپتان مائیکل کلارک اور ان فارم اسٹیون اسمتھ بھی شامل ہیں، اس لیے پاکستان بالکل اسی مقام پر کھڑا دکھائی دیتا ہے جہاں وہ 7 اگست 2014ء کوگال میں کھڑا تھا۔ یہ دورۂ سری لنکا کا پہلا ٹیسٹ تھا جہاں پاکستان نے دبئی ہی کی طرح ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور پھر یونس خان کے 177 رنز اور اسد شفیق، سرفراز احمد اور عبد الرحمٰن کی نصف سنچریوں کی بدولت 451 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا۔ یعنی وہی 450 سے زیادہ رنز۔ لیکن اینٹ کا جواب پتھر کی صورت میں، سری لنکا نے کمار سنگاکارا کی ڈبل سنچری اور اینجلو میتھیوز، کوشال سلوا اور مہیلا جے وردھنے کی ففٹی پلس اننگز کے بل بوتے پر 533 رنز جڑ ڈالے۔ گو کہ سری لنکا کو برتری محض 82 رنز کی ملی لیکن پاکستان کی 'پل میں تولہ، پل میں ماشہ' بیٹنگ لائن اس دباؤ کو بھی برداشت نہ کرسکی اور دوسری اننگز میں رنگانا ہیراتھ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ سوائے سرفراز احمد کے 52 اور اظہر علی کے 41 رنز کے کوئی بلے باز قابل ذکر حصہ نہ ڈال سکا اور پاکستان دوسری اننگز میں صرف 180 رنز پر ڈھیر ہوگیا۔ سری لنکا کو جیتنے کے لیے 99 رنز کا ہدف ملا اور اس نے کم ہوتی روشنی، امنڈتے ہوئے بادلوں اور امیدوں کے دوران 17 ویں اوور میں ہدف کو جا لیا اور ایک تاریخی فتح حاصل کی۔

اب دبئی میں پہلے دو دن کی کارروائی دیکھنے کے بعد نجانے کیوں گال کا یہ ٹیسٹ یاد آ رہا ہے ۔ خاص طور پر جب پاکستان کی باؤلنگ لائن کو دیکھتے ہیں تو اندیشہ گھیر لیتا ہے کہ آخر آسٹریلیا کیسے چت ہوگا؟ تیز باؤلرز میں راحت علی اور عمران خان اور اسپنرز میں محمد حفیظ، زخمی ذوالفقار بابر اور پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے یاسر شاہ۔ لیکن انہیں خود پر یقین رکھنا ہوگا کہ پریکٹس میچ میں بھی انہی نوجوانوں نے آسٹریلیا کو شکست دی تھی، اور اب پہلے ٹیسٹ میں بھی اسی لائن اپ نے ہی دوسرے روز کے آخری سیشن میں کئی مواقع پیدا کیے۔ سرفراز احمد کے اصرار کے باوجود راجرز کے خلاف ایل بی ڈبلیو کے فیصلے پر ریویو نہ لینا اور پھر ڈیوڈ وارنر کا سلپ میں آسان کیچ چھوڑنا، پاکستان کے لیے خاصا مہنگا ہوسکتا ہے۔

دبئی کی وکٹ گال جیسی بالکل نہیں، کیونکہ یہ دوسرے روز ہی اسپنرز کے لیے بہت مدد دے رہی ہے جبکہ گال میں آخری روز رنگانا ہیراتھ نے پاکستانی بلے بازوں پر ہاتھ صاف کیے تھے۔ اس لیے پاکستان کے باؤلرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ لائن اور لینتھ پر قابو رکھیں اور اگر فیلڈرز ساتھ دینے میں کامیاب رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پہلی اننگز میں برتری حاصل نہ کی جا سکے۔ لیکن اگر غلطیوں کو دہرایا تو نتیجہ وہی نکلے گا جو دو ماہ قبل گال میں نکلا تھا۔