حقیقی رفتار کا حامل محمد طلحہ واپسی کا منتظر!

2 1,032

ہرارے ٹیسٹ میں راحت علی نے اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ ضرور انجام دیا مگر مجموعی طور پر پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ ان دنوں کافی کمزور ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم سینئر ترین باؤلر عمر گل اپنے زخموں کی نگہداشت کررہا ہے تو طویل قامت پیسر محمد عرفان کو انجری کے خوف سے ٹیسٹ میچز میں نہیں اتارا جارہا۔جنید خان ایک دن بہت اچھی کارکردگی دکھاتا ہے تو اگلے دن وہ اوسط درجے کے باؤلرز سے بھی کمتر دکھائی دیتا ہے۔ان حالات میں راحت علی نے مختصر سے کیرئیر میں دو مرتبہ اننگز میں پانچ وکٹیں تو حاصل کی ہیں لیکن اس کے لیے بائیں ہاتھ سے گیند کرانے والے اس باؤلر کو بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی ہے۔ احسان عادل کو ابھی انٹرنیشنل کرکٹ سے ہم آہنگ ہونے کے لیے کافی وقت درکار ہے ۔وہاب ریاض کب اپنی باؤلنگ میں بہتری لائے گا، بلکہ دماغ کا بھی استعمال کرے گا، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔اسد علی نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا کر قومی ٹیم میں جگہ تو حاصل کرلی مگر دائیں ہاتھ کا یہ میڈیم فاسٹ باؤلر انٹرنیشنل سرکٹ میں متاثر نہیں کرسکا۔ ڈومیسٹک کرکٹ کی بات کریں تو یہاں بھی کوئی ایسا نام دکھائی نہیں دیتا جسے پاکستانی فاسٹ باؤلنگ کا مستقبل قرار دیا جائے۔ یوں بلے بازی کے حوالے سے لاحق تشویش تو ایک طرف لیکن باؤلنگ میں بھی پاکستان کو کم خطرات لاحق نہیں ہیں۔

طلحہ کی باؤلنگ میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ماضی کے پاکستانی فاسٹ باؤلرز کا خاصہ ہوا کرتا تھا (تصویر: Getty Images)
طلحہ کی باؤلنگ میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ماضی کے پاکستانی فاسٹ باؤلرز کا خاصہ ہوا کرتا تھا (تصویر: Getty Images)

پاکستان میں فاسٹ باؤلنگ کے مخدوش ہوتے ہوئے مستقبل میں امید کی ایک کرن محمد طلحہ کی صورت میں دکھائی دیتی ہے جس کے پاس حقیقی رفتار بھی ہے اور سوئنگ پر کنٹرول بھی مگر چار برس قبل سری لنکا کے خلاف لاہور کا ’’آدھا‘‘ ٹیسٹ کھلا کر محمد طلحہ کو بھلا دیا گیا۔ انہوں نے قذافی اسٹیڈیم کی مردہ وکٹ پر 17اوورز میں صرف صرف ایک ہی وکٹ حاصل کی تھی۔سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد یہ ٹیسٹ دو دن بعد ہی ختم ہوگیا اور اس میچ میں بنائی گئی وکٹ بیٹنگ کے لیے اتنی سازگار تھی کہ سری لنکا کے تین بیٹسمینوں نے سنچریاں اسکور کرتے ہوئے 600 سے زائد کا مجموعہ کھڑا کردیا تھا لیکن اس کی سزا محمد طلحہ کو دینا مناسب نہ تھا جسے نہ صرف اس کے بعد اگلے بین الاقوامی دورے سے باہر کردیا گیا بلکہ فیصل آباد کے اس گیندباز کے لیے قومی ٹیم کو شجر ممنوعہ بھی بنا دیا گیا۔

طلحہ نے 2010-11ء کے سیزن میں 56وکٹیں لے کر خود کو قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے اہل ثابت کیا تھا اور ون ڈے فارمیٹ میں بھی 14.42کی اوسط اور 6/38کی شاندار کارکردگی کے ساتھ 21 وکٹیں لے کر ملک کے سرفہرست باؤلر بنے۔ پھر اگلے سیزن میں بھی کیرئیر بیسٹ 7/77کی کارکردگی سمیت 30وکٹیں اپنے نام کیں مگر اس کے باوجود محمد طلحہ پر قسمت اور کرکٹ بورڈ مہربان نہ ہو سکے اور جو دوسرے باؤلرز کو قومی ٹیم میں کھیلتے ہوئے دیکھتا رہا۔

پھر جنوری 2012ء میں متحدہ عرب امارات میں پاک-انگلستان سیریز سے قبل کھیلے گئے ٹور مقابلے میں انہوں نے پہلی اننگز میں انگلستان کے چار مایہ ناز بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔ اینڈریو اسٹراس، ایلسٹر کک، جوناتھن ٹراٹ اور میٹ پرائیر ان کی خوبصورت گیندوں کا نشانہ بنے۔

گزشتہ رمضان المبارک میں کراچی میں ہونے والے دو ٹی20 ٹورنامنٹس میں بھی محمد طلحہ کی کارکردگی غیر معمولی تھی اور براہ راست نشر ہونے والے مقابلوں میں شائقین کرکٹ نے محمد طلحہ کی رفتار، باؤنس اور گیند کو دونوں جانب سوئنگ کرنے کا ہنر اپنی ٹی وی اسکرینوں پر دیکھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ 24 سالہ گیند باز قومی ٹیم سے باہر ہے۔

پاکستان میں باؤلنگ کے شعبے کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ حقیقی فاسٹ باؤلرز کا فقدان ہے جو اچھی رفتار کے ساتھ بلے بازوں کے لیے مشکلات پیدا کرسکے مگر حقیقت یہ ہے کہ قومی ٹیم میں صحیح معنوں میں ’’فاسٹ باؤلر‘‘کی کمی ہے بلکہ اکثریت میڈیم پیسرز ہیں جس کی وجہ سے نہ وہ نئے گیند کے ساتھ مخالف بیٹسمینوں پر اپنی ہیبت طاری کرسکتے ہیں اور نہ ہی اننگز کے آغاز پر اپنی ٹیم کو وکٹیں دلوا سکتے ہیں ۔

محمد طلحہ کی باؤلنگ میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ماضی کے پاکستانی فاسٹ باؤلرز کا خاصہ ہوا کرتا تھا اور دراز قد کا یہ باؤلر اپنی بھرپور رفتار اور سوئنگ پر عبور کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے لیے نہایت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے جسے بغیر کسی وجہ کے قومی ٹیم سے دور رکھا جارہا ہے ۔

جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف سیریزوں میں سلیکشن کمیٹی محمد طلحہ کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرے گی یا نہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن پاکستانی ٹیم میں فاسٹ باؤلنگ کی بگڑتی حالت کو سنبھالا دینے کے لیے محمد طلحہ کو ٹیم میں شامل کرنا پڑے گا۔ یہ اب سلیکشن کمیٹی کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کب اس نوجوان اور باصلاحیت فاسٹ باؤلر کو دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔