نیوزی لینڈ-پاکستان اولین ٹیسٹ 2011ء؛ گرین شرٹس کی یادگار فتح

0 1,041

نیوزی لینڈ 275 (ٹم ساؤتھی 56، برینڈن میک کولم 56، تنویر احمد 63-4)
پاکستان 367 (اسد شفیق 83، مصباح الحق 62، برینٹ آرنیل 95-4)
نیوزی لینڈ 110 (برینڈن میک کولم 35، عبد الرحمن 24-3، عمر گل 28-3)
پاکستان 21/0 (پاکستان نے میچ 10 وکٹوں سے جیت لیا)

90ء کی دہائی میں نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کے ٹیسٹ میچز دیکھنے والے بھلا وقار یونس اور وسیم اکرم کی میچ کا پانسہ پلٹ دینے والی بالنگ کیسے بھول سکتے ہیں؟ اب وہ سب بھولی بسری یادیں لگتی ہیں۔ لیکن ہملٹن کے سیڈن پارک میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلے ٹیسٹ کے تیسرے روز ان عظیم باؤلرز کی کچھ جھلک پاکستانی بالنگ لائن اپ میں دکھائی دی۔ اور ماضی ہی کی طرح پاکستان نے محض ایک سیشن میں بلیک کیپس کی بیٹنگ کا جنازہ نکال دیا اور میچ با آسانی 10 وکٹوں سے جیت لیا۔ بالنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ میں بھی پاکستان نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

میچ کے بہترین کھلاڑی عبد الرحمن، جنہوں نے اپنا انتخاب درست ثابت کر دکھایا

دوسرے روز کے اختتام پر کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ میچ کا نتیجہ محض تین روز میں نکل آئے گا اور پاکستان صرف ایک سیشن میں میچ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دے گا۔ عمر گل، وہاب ریاض اور عبد الرحمن کی تباہ کن بالنگ کے سامنے ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ لگتا تھا نیوزی لینڈ پہلی اننگ کا 92 رنز کا خسارہ بھی مکمل نہ کر پائے گا اور 6 سال کے بعد پاکستان کوئی میچ اننگ سے جیتنے میں کامیاب ہو جائے گا تاہم آخر کے بلے بازوں کی معمولی مزاحمت کے بعد پاکستان کے جیتنے کے لیے 18 رنز کا ہدف ملا جسے بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے پورا کر لیا گیا۔

پاکستان نے آخری مرتبہ 2005ء کے لاہور ٹیسٹ میں انگلستان کو ایک اننگ اور 100 رنز سے شکست دی تھی اور 6 سالوں سے پاکستان کسی ٹیم کو اننگ کے مارجن سے شکست نہیں دے پایا۔

پس منظر
پاکستان کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار ہے خصوصا سال 2010ء تو اس کے لیے بہت ہی برا ثابت ہوا۔ آسٹریلیا کے تباہ کن دورے، انگلستان میں شکست اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ رہی سہی کسر بار بار کپتانوں کی تبدیلی اور بورڈ انتظامیہ کے غیر پیشہ ورانہ رویے نے پوری کر دی۔ یوں 2010ء کا اختتام ایک مایوسی کے ساتھ ہوا۔ تاہم سینئر کھلاڑی مصباح الحق کو قیادت سونپنے کے بعد پاکستان نے عالمی نمبر دو جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز برابر کھیلی جو بلاشبہ مصباح کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ اس کارکردگی کی بنیاد پر توقع کی جا رہی تھی کہ اک ایسے وقت میں جب پاکستان کے تین مایہ ناز کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ الزامات تلے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر رہے ہیں، اس وقت ٹیم دباؤ میں آنے کے بجائے اچھی فارم کو جاری رکھے گی اور نیوزی لینڈ کو ایک مرتبہ پھر شکست دے گی۔

نیوزی لینڈ بنگلہ دیش کے مایوس کن دورے کے بعد بھارت میں ٹیسٹ سیریز ہار کر وطن واپس پہنچا ہے تاہم بھارت کے خلاف دو ٹیسٹ میچز میں اس کی کارکردگی بہت اچھی رہی اور اس نے عالمی نمبر ایک ٹیم کے خلاف اسی کی سرزمین پر دو ٹیسٹ میچز ڈرا کیے۔ اس طرح دونوں ٹیموں کے درمیان ایک اچھے مقابلے کی امید کی جا رہی تھی۔

نیوزی لینڈ پہلی اننگ
ہملٹن کی بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹ پر جب مصباح الحق نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا تو ناقدین نے اس فیصلے کو درست نہ سمجھا کیونکہ سیڈن پارک کی پچ نیوزی لینڈ میں بیٹنگ کے لیے سب سے موزوں سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جانب بلیک کیپس کے بلے باز بھارت کی بیٹنگ فرینڈلی پچوں پر رنز کے انبار لگانے کے بعد پاکستان کے خلاف ٹور میچ میں بھی بہت زیادہ رنز بنا چکے تھے۔ اس لیے نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کی جانب سے اچھی کارکردگی کی توقع تھی لیکن مصباح کو باؤلرز پر بھرپور اعتماد تھا جنہوں نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 177 کے ہندسے تک پہنچتے پہنچتے سات مخالف کھلاڑیوں کو میدان بدر کیا۔ لیکن آٹھویں وکٹ پر کین ولیم سن اور ٹم ساؤتھی کے درمیان 84 رنز کی شراکت داری نیوزی لینڈ کو میچ میں واپس لے آئی۔ یوں نیوزی لینڈ نے پہلی اننگ میں 275 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے چار کھلاڑیوں نے نصف سنچریاں بنائیں جن میں برینڈن میک کولم اور ٹم ساؤتھی کے 56،56 اور مارٹن گپٹل اور کین ولیم سن کے 50،50 رنز شامل تھے۔ پاکستان کی جانب سے تنویر احمد نے چار اور عبد الرحمن نے تین وکٹیں لیں جبکہ دو وکٹیں عمر گل کے ہاتھ لگیں۔

پاکستان پہلی اننگ
پاکستان کو اپنی پہلی اننگ کے ابتدائی اوور ہی میں محمد حفیظ کی وکٹ گرنے کی صورت میں زبردست گھاؤ لگا لیکن اظہر علی اور توفیق عمر نے اننگ کو سنبھالا دیا اور اسکور کو 72 تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ جہاں اظہر علی 24 رنز بنا کر مارٹن کا دوسرا شکار بن گئے۔ 104 کے مجموعی اسکور پر جب توفیق عمر 54 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے اور اگلے ہی اوور میں آرنیل کے ہاتھوں یونس خان کی پویلین واپسی نے گویا پاکستان کیمپ میں کھلبلی مچا دی۔ اس موقع پر مرد بحران مصباح الحق نے نوجوان اسد شفیق کے ساتھ اننگ کو سنبھالا دیا اور 149 رنز کی یادگار شراکت قائم کی۔ دونوں کھلاڑیوں نے دوسرے دن مزید کسی وکٹ کے نقصان سے پاکستان کو بچایا لیکن تیسرے روز کے آغاز کے ساتھ ہی دونوں دیگر پویلین لوٹ گئے۔ مصباح الحق نے 161 گیندوں پر 62 جبکہ اسد شفیق نے 202 گیندوں پر 83 رنز کی یادگار اننگز کھیلیں۔ 256 پر 6 وکٹیں گرنے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان حریف ٹیم کے خلاف زیادہ برتری حاصل نہیں کر پائے لیکن نیوزی لینڈ کی ناقص فیلڈنگ اور ٹیل اینڈرز کی زبردست مزاحمت نے پاکستان کو پہلی اننگ میں 92 رنز کی واضح برتری دلا دی۔ ٹیل اینڈرز کی مزاحمت کی قیادت نوجوان وکٹ کیپر عدنان اکمل نے کی جنہوں نے 44 قیمتی رنز بنائے جبکہ عبد الرحمن (28 رنز)، عمر گل (17 رنز) اور تنویر احمد (18 رنز) نے اس مشن میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ یوں پاکستان اسکور بورڈ پر 367 رنز کا شاندار مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

نیوزی لینڈ دوسری اننگ
نیوزی لینڈ نے دوسری اننگ کا آغاز کیا تو پاکستان کو پہلی کامیابی کے لیے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ٹم میک انٹوش 12 ویں اوور تک پاکستانی باؤلرز کا بمشکل مقابلہ کرنے کے بعد عدنان اکمل کی برق رفتاری کے باعث اسٹمپڈ ہو گئے اور یہ وکٹ آئی عبد الرحمن کے ہاتھ۔ دوسری کامیابی کے لیے پاکستان کے باؤلرز سے زیادہ امپائر کو کریڈٹ دینا چاہیے جن کے ایک ناقص فیصلے کی بدولت پاکستان خطرناک کھلاڑی برینڈن میک کولم کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوا۔ برینڈن نے ٹور میچ میں ڈبل سنچری بنائی تھی اور پاکستان کو بلیک کیپس کی بیٹنگ لائن اپ میں سب سے زیادہ خطرہ اسی بلے باز سے تھا۔ اسکور بمشکل 60 تک پہنچا تو گویا نیوزی لینڈ کی مزاحمت نے دم توڑ دیا اور اگلے 15 اوورز کے اندر اندر نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم محض 110 پر پویلین لوٹ چکی تھی۔ 60 کے مجموعی اسکور پر عبد الرحمن نے مارٹن گپٹل کی وکٹ لی اور اگلے ہی اوور میں وہاب ریاض نے ان سوئنگنگ یارکر پر جیسی رائیڈر کو ٹھکانے لگا دیا۔ اگلا اوور مصباح الحق کی براہ راست تھرو پر روس ٹیلر کی اننگ کے خاتمے کا اوور تھا جبکہ اس سے اگلے اوور میں وہاب ریاض نے کین ولیم سن کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ تین اوور بعد عبد الرحمن نے ڈینیل ویٹوری کو ایل بی ڈبلیو کیا تو گویا نیوزی لینڈ کی اننگ ختم کر کے رکھ دی۔ پھر بھی آخری تین وکٹوں نے 39 رنز کا اضافہ کر کے نیوزی لینڈ کو اننگ کی واضح شکست سے بچا لیا۔ تاہم پاکستان کو جیتنے کے لیے محض 19 رنز کا ہدف ملا جو اوپنر محمد حفیظ اور توفیق عمر نے چوتھے اوور ہی میں پورا کر لیا۔

دونوں اننگز میں تین، تین اہم حریف بلے بازوں کو ٹھکانے لگانے والے عبد الرحمن کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

یادگار فتح
یہ اسپاٹ فکسنگ تنازع میں ملوث ہونے کے بعد پاکستان کی پہلی فتح ہے۔ پاکستان نے آخری مقابلہ اسپاٹ فکسنگ تنازع سامنے آنے سے قبل اگست 2010ء میں انگلستان کے خلاف اوول میں جیتا تھا۔

کپتان مصباح الحق نے فتح کا سہرا باؤلرز کے سر باندھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہم آج ہی جیت جائیں گے کیونکہ پچ بالکل سیدھی اور سلو تھی اور اس وقت پر بیٹسمین کو آؤٹ کرنا مشکل تھا لیکن باؤلرز نے بہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہمیں فتح دلوآئی۔

امکان ہے کہ یہ فتح  پاکستان کے لیے ایک نیک شگون ثابت ہوگی جہاں پاکستان کچھ عرصے سے نہایت ناقص کارکردگی دکھاتا آ رہا ہے۔ ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی گزشتہ کئی سالوں کی مایوس کن کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2007ء میں پورٹ ایلزبتھ میں جنوبی افریقہ کو شکست دینے کے بعد پاکستان تقریبا دو سال تک کسی بھی فتح سے محروم رہا اور بالآخر 2009ء کے آخری ایام میں نیوزی لینڈ کے خلاف ویلنگٹن ٹیسٹ جیت کر اس روایت کو توڑا۔ اس کے بعد 2010ء میں پاکستان نے صرف 2 ٹیسٹ میچز جیتے۔ ایک آسٹریلیا کے خلاف ہیڈنگلے، لیڈز میں اور دوسرا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سے قبل انگلستان کے خلاف اوول میں۔ یوں تین سال سے پاکستان ٹیسٹ میں مایوس کن کارکردگی پیش کر رہا ہے لیکن 2011ء کا آغاز بہت اچھے انداز میں ہوا ہے اور امید ہے کہ ناتجربہ کھلاڑیوں کے باوجود پاکستان اس سال ٹیسٹ کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔