آخری میچ میں نیوزی لینڈ فاتح؛ سیریز ٹرافی پاکستان کے نام

0 1,043

تنازعات اور ناقص فارم میں گھرے ہوئے جیسی رائیڈر نے تمام تر غصہ پاکستانی باؤلرز پر نکالتے ہوئے یادگار سنچری اسکور کی اور نیوزی لینڈ کو عالمی کپ سے قبل ایک حوصلہ افزاء فتح دلا دی۔

جیسی رائڈر کا سنچری اننگ کے دوران ایک دلکش اسٹروک (© اے ایف پی)
ایڈن پارک، آکلینڈ میں کھیلے گئے سیریز کے چھٹے اور آخری ایک روزہ میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا جو درست ثابت نہ ہوا اور ابتداء ہی میں وکٹ گرنے کے باوجود بلیک کیپس جیسی رائیڈر کی شعلہ فشاں اننگ کی بدولت اسکور بورڈ پر 311 رنز کا شاندار مجموعہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 93 گیندوں پر 6 چھکوں اور 7 چوکوں سے مزین اس اننگ میں جیسی رائیڈر نے 107 رنز بنائے۔ ابتداء میں اوپنر مارٹن گپٹل نے 44 رنز بنا کر ان کا بھرپور ساتھ دیا اور دونوں کھلاڑیوں نے 123 رنز کی نمایاں شراکت داری کی۔ اس کے بعد پاکستانی باؤلرز نے کم بیک کیا اور 190 تک پہنچتے پہنچتے نیوزی لینڈ کے اہم مڈل آرڈر بیٹسمینوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ جن میں کپتان روس ٹیلر (5 رنز)، جیمز فرینکلن (8 رنز) اور خود رائیڈر کی وکٹ شامل تھی۔ 190 پر پانچ وکٹیں گر جانے کے بعد امکان تھا کہ نیوزی لینڈ زیادہ بڑا مجموعہ اکٹھا نہیں کر پائے گا تاہم اسکاٹ اسٹائرس اور ناتھن میک کولم کے درمیان 120 رنز کی تیز رفتار شراکت نے نیوزی لینڈ کے لیے میدان ہموار کر دیا۔ اسٹائرس نے 44 گیندوں پر ایک چھکے اور 6 چوکوں کی مدد سے 58 رنز بنائے اور ناقابل شکست رہے۔ ناتھن میک کولم نے 3 چھکوں اور 7 چوکوں کی مدد سے 50 گیندوں پر 65 رنز کی زبردست اننگ کھیلی۔ دونوں کے درمیان سنچری شراکت آخری اوور میں میک کولم کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ختم ہوئی۔

پاکستان کی جانب سے سہیل تنویر ایک مرتبہ پھر بہت زیادہ مہنگے باؤلر ثابت ہوئے۔ ان کے 8 اوورز میں بلیک کیپس نے78 رنز لوٹے۔ تاہم وہ برینڈن میک کولم کی ایک وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ عبد الرزاق نے گزشتہ میچ کی طرح بہت شاندار باؤلنگ کی اور پاکستان کے واحد باؤلر رہے جو بہت کفایتی ثابت ہوئے۔ انہوں نے 7 اوورز میں محض 23 رنز دے کر مارٹن گپٹل اور روس ٹیلر کی اہم ترین وکٹیں شکار کیں۔ دو وکٹیں محمد حفیظ کے ہاتھ لگیں جبکہ ایک حریف بلے باز کو شعیب اختر نے نشانہ بنایا۔

312 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کو اچھا اوپننگ اسٹینڈ نہ ملا اور محض 14 کے مجموعی اسکور پر پچھلے میچ کے سنچورین احمد شہزاد ایک غیر ذمہ دارانہ شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہو گئے۔ اس موقع پر ضرورت تھی کہ محمد حفیظ اور کامران اکمل ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے اور آنے والے بلے بازوں کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتے لیکن محمد حفیظ کے ایک غیر ضروری شاٹ نے پاکستان کو محض 31 پر دو اہم کھلاڑیوں سے محروم کر دیا۔ آؤٹ آف فارم یونس خان، جن کی کریز پر موجودگی پاکستان کے لیے امید کی کرن تھی، ایک مرتبہ پھر طویل اننگ کھیلنے میں ناکام رہے اور 16 رنز بنا کر ہمیش بینیٹ کا دوسرا شکار بن گئے۔ 58 پر تین وکٹیں گرنے کے بعد وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل اور نوجوان بلے باز اسد شفیق نے اننگ کو سنبھالا دیا اور دونوں نے شاٹس کھیلنے کے لیے موزوں گیندوں کا انتظار کرتے ہوئے ایک مستحکم شراکت داری قائم کی لیکن بدقسمتی سے اسد شفیق ایک ناممکن رن لینے کی کوشش میں رن آؤٹ ہو گئے۔ انہوں نے 26 رنز بنائے اور کامران اکمل کے ساتھ 74 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ عمر اکمل اپنے بھائی کا ساتھ دینے آئے جو ایک اینڈ سے نیوزی لینڈ کی باؤلنگ لائن اپ کو تہس نہس کر رہے تھے۔ تاہم وہ بھی زیادہ دیر تک ان کا ساتھ نہ دے سکے اور محض 8 رنز بنا کر ثابت کر دیا کہ اب ان میں وہ دم خم نہیں ہے۔

پاکستان کی امیدیں اس وقت نصف رہ گئیں جب کامران اکمل 180 کے مجموعی اسکور پر شارٹ ایکسٹرا کور پر کیچ تھما بیٹھے۔ ان کی 89 رنز کی اننگ 3 چھکوں اور 5 چوکوں سے سجی ہوئی تھی۔ فرینکلن نے اسی اوور میں عبدالرزاق کو بھی ٹھکانے لگا کر پاکستان کی رہی سہی امیدوں کو بھی ختم کر دیا۔ اب صرف ایک بلے باز کپتان شاہد آفریدی کی صورت میں کریز پر موجود تھا لیکن ان سے طویل اننگ کھیلنے کی توقع عبث تھی۔ گو کہ انہوں نے 35 گیندوں پر 2 چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے 44 رنز کی کارآمد اننگ کھیلی لیکن یہ پاکستان کی نیا پار لگانے کے لیے کافی نہیں تھی۔ سہیل تنویر نے 32 گیندوں پر 30 رنز بنا کر ناقص باؤلنگ کا کفارہ ادا کرنے اور کپتان کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔ 241 کے مجموعی اسکور پر سہیل تنویر کے رن آؤٹ اور 251 پر آفریدی کے آؤٹ ہونے نے پاکستان کو میچ سے باہر کر دیا۔ اب صرف ایک وکٹ رہتی تھی جو محض تین رن بنا سکی اور پاکستان کی پوری ٹیم 254 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

ہمیش بینیٹ نے محمد حفیظ، یونس خان اور شاہد آفریدی کی اہم وکٹوں سمیت چار وکٹیں حاصل کیں جبکہ جیمز فرینکلن نے کامران اکمل، عمر اکمل اور عبد الرزاق کو ٹھکانے لگایا۔ جیسی رائیڈر کو شاندار سنچری اسکور کرنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اس میچ میں 57 رنز کی فتح حاصل کرنے کے باوجود نیوزی لینڈ سیریز میں شکست کھا گیا کیونکہ پاکستان پہلے ہی سیریز میں 3-1 سے جیت چکا تھا اور آخری میچ محض عالمی کپ سے قبل نفسیاتی برتری حاصل کرنے کے لیے اہمیت رکھتا تھا۔ کم از کم نیوزی لینڈ کو حوصلوں کو کچھ جلا ضرور ملی ہوگی۔ پاکستان کو مصباح الحق کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوئی جن کی عدم موجودگی کے باعث پاکستانی مڈل آرڈر لڑ کھڑا گئی اور ایک بڑا ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ دوسری جانب اہم اوورز میں آؤٹ آف فارم باؤلرز کا استعمال بھی پاکستان کو مہنگا پڑا خصوصاً عبدالرزاق کا کم استعمال قائدانہ فیصلوں پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ گو کہ عبدالرزاق اور شعیب اختر کے تین تین اوورز باقی تھے لیکن ناقص باؤلنگ کے باوجود سہیل تنویر پر اعتماد اور پارٹ ٹائم باؤلر محمد حفیظ سے باؤلنگ کروانا سمجھ سے بالاتر تھا۔ تاہم اس میچ کی ایک حوصلہ افزاء بات کامران اکمل کا فارم میں واپس آنا ہے۔ آج کی اننگ میں پرانے کامران اکمل کی جھلک دکھائی دی۔

پاکستان نے ایک طویل عرصے کے بعد ٹیسٹ اور ایک روزہ سیریز جیتی اور بلند حوصلوں کے ساتھ اب عالمی کپ 2011ء میں شرکت کے لیے سری لنکا روانہ ہوگا۔
سیریز میں پاکستان کی جانب سے مصباح الحق نے 67.66 کی اوسط سے سب سے زیادہ 203 رنز بنائے جبکہ نوجوان اوپنر احمد شہزاد نے 47 کی اوسط سے 188 رنز بنائے۔ باؤلنگ میں وہاب ریاض نے سب سے زیادہ 8 وکٹیں حاصل کیں۔ البتہ سیریز میں سب سے زیادہ 11 وکٹیں نیوزی لینڈ کے گیند باز ہمیش بینیٹ کے نام رہیں جبکہ سب سے زیادہ رنز 209 مارٹن گپٹل نے بنائے۔ سیریز میں بننے والی دونوں سنچریاں پاکستانی کھلاڑیوں نے بنائی، جس کا اعزاز احمد شہزاد اور دوسری محمد حفیظ کے حصہ میں آیا۔