پاکستان سیریز ہارا ضرور، لیکن انگلستان جیتا نہیں تھا: محسن خان

1 1,033

پاکستان نے سری لنکا کے بعد بنگلہ دیش اور پھر انگلستان کے خلاف پے درپے فتوحات حاصل کیں تو پوری قوم سمیت بین الاقوامی کرکٹرز نے جہاں اسے ٹیم کی کامیابی قرار دیا، وہیں اس کا سہرا اُس وقت کے کوچ محسن حسن خان کے سر بھی باندھا، جنہوں نے عبوری حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو بہ احسن وخوبی انجام دیا۔ اب جبکہ ان کی جگہ غیر ملکی کوچ ڈیو واٹمور کا تقرر کیا جا چکا ہے تو کرک نامہ نے مختصر سے دور میں عظیم کارنامے انجام دینے والے محسن حسن خان نے خصوصی گفتگو کی ہے۔ جس کے دوران کافی اتار چڑھاؤ آئے، کبھی وہ پاکستان کی فتوحات ذکر کرتے پھولے نہیں سمارہے تھے تو کبھی محدود اوورز کی سیريز میں انگلستان کی فتح پر دلبرداشتہ بھی نظر آئے۔ بہرحال، اس تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے مختلف موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی، جو نذر قارئین ہے۔

محسن خان نے بطور کوچ انگلستان کے خلاف کلین سویپ کو کیریئر کے یادگار لمحات میں سے ایک قرار دیا (تصویر: Getty Images)
محسن خان نے بطور کوچ انگلستان کے خلاف کلین سویپ کو کیریئر کے یادگار لمحات میں سے ایک قرار دیا (تصویر: Getty Images)

اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل اور اس کے بعد بطور چیف سلیکٹر گزارے گئے اپنے ایام کے بارے میں سابق اوپنر نے کہا کہ میں جب سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین بنا تو پاکستانی ٹیم انتہائی برے دور سے گزر رہی تھی انگلستان میں پیش آنے والے میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کے تنازعے سمیت کھلاڑیوں کو جیل بھیجے جانے جیسے واقعات نے پاکستان کرکٹ کو بری طرح مجروح کردیا تھا۔ جبکہ شائقین کرکٹ بھی ان شرمناک واقعات سے کافی افسردہ تھے ایسے وقت میں بطور چیف سلیکٹر میں نے کرکٹ بورڈ کے ساتھ منسلک ہوکر یہ عزم کیا کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ کو بلندیوں پر لے جاؤں گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہمارے کھلاڑیوں نے بھارت میں ہونے والے عالمی کپ میں تمام ٹیموں کے خلاف شاندار کارکردگی دکھائی البتہ بھارت کے خلاف سیمی فائنل میں ہمیں ضرور شکست ہوئی لیکن خوش آئند امر یہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال ہونے لگا تھا، جس پر مجھے بے حد خوشی تھی۔ اس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ نے مجھے اور پاکستان کرکٹ کو اس سارے عرصے میں بہت زیادہ سپورٹ کیا۔

محسن خان نے کہا کہ جب میں چیف سلیکٹر تھا تو مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر ہم جو ٹیم کمبی نیشن بناکر بھیجتے ہیں، اسے میدان میں اس طرح کیوں نہیں اتارا جاتا جس وجہ سے ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مجھے پاکستان کے ساتھ شکست کا لفظ برداشت نہیں ہوتا تھا۔ جس پر دلبرداشتہ ہوکر میں چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنا چاہتا تھا تاہم اس وقت کے چیئرمین کرکٹ بورڈ اعجاز بٹ نے مجھے کہا کہ آپ کی پاکستان کرکٹ کو بہت ضرورت ہے اور مجھے ہیڈ کوچ عہدہ عبوری طور پر دے دیا۔ جسے میں نے اپنے لیے ایک اور چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ اتنی اہم ذمہ داری ملنے کے بعد میں نے ٹیم کو اس کمبی نیشن کے ساتھ میدان میں اتارا جس کمبی نیشن کے تحت اسے تشکیل دیا جاتا تھا اور اس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح ہم نے سری لنکا ، بنگلہ دیش اور پھر ٹیسٹ میں انگلستان کے خلاف شاندار کارکردگی دکھائی۔

انگلستان کے خلاف تاریخی سیریز میں فتوحات کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف سیریز جیتنے کے بعد جب میں انگلستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں سیریز کے لیے جانے لگا تو کافی لوگوں نے مشورہ دیا کہ جب تک تمہیں طویل المیعاد معاہدے کے تحت ٹیم کا کوچ نہیں بنایا جاتا، تم ٹیم کے ساتھ نہ جاؤ لیکن میں نے کہا کہ مجھے معاہدے سے زیادہ پاکستان ٹیم کی فتح سے مطلب ہے اور میری توجہ معاہدے کے بجائے ٹیم کو تاریخی فتح دلوانے پر مرکوز ہے۔ ٹیم میٹنگ میں کھلاڑیوں کا ہمیشہ حوصلہ بڑھاتا تھا کہ تم سب کرسکتے ہو اور اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ ہماری ٹیم متحد ہوکر کھیلی اور اس نے شاندار انداز میں گوروں کے خلاف ’گرین واش‘ کیا۔ اس تاریخی فتح پر جہاں پاکستانی قوم اور شائقین کرکٹ خوش تھے وہیں انگلش میڈیا ، سابق انگلش کپتان اور انگریز تبصرہ نگار بھی بہت حیران تھے اور وہ سب یہی کہتے تھے کہ ہم نے کبھی بھی پاکستان کو اس طرح میدان میں جان مارتے ہوئے نہیں دیکھا ،آخر آپ نے ٹیم کے ساتھ ایسا کیا کیا ہے۔ میں ان کو ہمیشہ کہتا تھا کہ میں نے ان کھلاڑیوں کو دماغی طور پر مضبوط بنایا ہے، ہرچند کہ آج میڈیا پر بیٹھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ دماغی مضبوطی کیا چیز ہوتی ہے شاید ناقدین کو وہ دماغی مضبوطی نظر نہیں آئی جب پاکستان نے دنیا کی بہترین ٹیسٹ ٹیم کو تین تین دن میں ٹیسٹ میچز ہرایا۔ اگر ہماری ٹیم 144 کے مجموعے پر آؤٹ ہوئی تو ہم نے انہیں 72 پر پویلین واپس بھیج دیا اور یہ سب اللہ کے کرم کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی دماغی مضبوطی کے مرہون منت تھا۔

ٹیسٹ سیریز میں ایک یادگار فتح کے حصول کے بعد محدود اوورز کے مرحلے میں بدترین شکست پر محسن حسن خان نے کہا کہ یہ سوال مجھے بہت زیادہ کیا جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ انگلستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے کے بعد پاکستان ایک روزہ کرکٹ سیریز ہار گیا؟ حقیقت ہے کہ میں اس نتیجے سے بہت زیادہ دلبرداشتہ ہوا۔ جب پاکستان پہلا میچ ہارا تو میں نے کہا کہ چلو کوئی بات نہیں اگلا میچ جیت جائیں گے لیکن ہر میچ میں کھلاڑیوں کا مورال مجھے نیچے گرتا ہوا دکھائی دیا۔ مجھے نہیں سمجھ آتا کہ آخر ٹیسٹ سیریز کے بعد جب ایک روزہ سیریز کا آغاز ہوا تو اس دوران محض چار دن کا وقفہ آیا آخر ان چار دن میں ایسا کیا ہوا کہ کھلاڑیوں کا مورال اتنا نیچے گر گیا؟ ان کے حوصلے پستی کی طرف جانے لگے، آخر ان کی باڈی لینگویج کو کیا ہوگیا؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اللہ جانتا ہے کہ کیا ہوا میں اس پر زیادہ بات کرنا نہیں چاہوں گا البتہ شائقین کرکٹ سے اتنا ضرور درخواست کروں گا کہ وہ مجھ سے اس بارے میں سوال نہ کریں۔ ایسا میں راہ فرار اختیار کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ وہ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز پاکستان ہارا ضرور تھا، لیکن انگلستان جیتا نہیں تھا۔ ایک مرتبہ پھر کہوں گا کہ اللہ سب جانتا ہے کہ کیا ہوا ، وہ سیریز ہارنے کے بعد میں دو دن تک سخت ذہنی تناؤ کا شکار رہا۔

محسن خان غیر ملکی کوچ کی تقرری کے خلاف نہیں دکھائی دیے اور ان کا کہنا تھا کہ میں غیر ملکی کوچ کی تقرری کے خلاف نہیں ہوں جس طرح پوری قوم پاکستانی ٹیم کو صرف جیتتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے اسی طرح میں بھی یہی چاہتا ہوں اور میں نے اپنی کوچنگ کے دوران کھلاڑیوں کو باور کروایا تھا کہ تم سب کرسکتے ہو۔ دعاگو ہوں کہ واٹمور کی کوچنگ میں بھی پاکستانی ٹیم فتوحات سمیٹے۔

انہوں نے کہا کہ آج محسن حسن خان جو بھی ہے محض پاکستان اور پاکستانی کرکٹ کی وجہ سے ہے اس لیے میں عزت اور وقار کے ساتھ پاکستان کرکٹ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا آج بھی مجھ میں اتنی جان ہے کہ میدان میں جاکر اپنا آؤٹ پٹ دے سکوں۔ جتنا عرصہ ٹیم کے ساتھ رہا ہوں کھلاڑیوں کو سمجھ کر ان کی فطرت کے مطابق انہیں کنٹرول کرتا تھا، بعض اوقات غصہ کرتا تھا تو بعض اوقات انہیں پیار سے گلے لگاتا تھا اور اسی طرح میں نے انہیں فائٹ بیک کرنا سکھایا اور پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ہم نے ہاتھ سے نکلے ہوئے میچز میں بھی فتح حاصل کی۔ ہمیشہ کھلاڑیوں سے اپنی قومی زبان میں بات کی، یقینی طور پر جو بھی پاکستان ٹیم کو کوچنگ کرے اس میں پاکستانیت کا جذبہ ضرور ہونا چاہیے اور یہی جذبہ فتح کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ کھلاڑیوں کو ٹیم میٹنگ میں کہا کرتا تھا کہ آپ لوگ دنیا کی بہترین ٹیم ہو، بس اسے دنیا کے سامنے ثابت کرکے دکھاؤ اور انہوں نے اس بات کو سمجھا اور دنیا کو یہ باور کروادیا کہ پاکستانی ٹیم خطرناک ٹیم ہے۔ میرا ہدف تھا کہ پاکستانی ٹیم کو جلد دنیا کی نمبر ون ٹیم بنادوں۔

پاکستان کے کپتان کے حوالے سے جاری بحث پر گفتگو کرتے ہوئے محسن خان نے کہا کہ میں مصباح الحق کا دفاع نہیں کروں گا لیکن پاکستان کو ایسے بلے باز کی ضرورت ہے جو وکٹ پر رک کر تمام اوورز کا سامنا کرسکے جو میچ کو لے کر آگے بڑھ سکے۔ جہاں تک بات رہی کہ اگر مصباح الحق پر سلو اوور ریٹ کی وجہ سے پابندی لگ جاتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، تاہم اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو فکر والی کوئی بات نہیں۔ اسی ٹیم میں یونس خان جیسا نہایت سینئر اور تجربہ کار کھلاڑی موجود ہے جو یہ ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔ ہاں مستقبل کے نائب کپتان کے لیے بھی پاکستان کے پاس کافی آپشن موجود ہیں۔ اظہر علی اور اسد شفیق بھی ایسے نام ہیں جن پر غور کیا جاسکتا ہے ہرچند کہ انہیں ابھی زیادہ تجربہ نہیں ہوا بین الاقوامی کرکٹ کا تاہم ان کا نام بھی زیر غور لایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ سے کہا ہے کہ ٹیم سلیکشن میں کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر کی رائے ضرور ہونی چاہیے تاکہ سلیکٹرز کو بتاسکیں کہ آخر انہیں کس کمبی نیشن کے ساتھ ٹیم کو منتخب کرنا ہے۔ ایشیا کپ کا جس طرح پاکستان نے فاتحانہ آغاز کیا ہے امید ہے کہ سری لنکا اور بھارت کے خلاف پاکستان کامیابیاں سمیٹتے ہوئے ایشین چیمپئن ضرور بنے گا۔

پاکستان کی ٹیم میں وکٹ کیپر بیٹسمین کی موجودگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں محسن خان کا کہنا تھا کہ بالکل پاکستان کو بیٹسمین وکٹ کیپر کی ضرورت طویل عرصے سے ہے امید ہے کہ پاکستان کو جلد راشد لطیف اور معین خان جیسے مکمل بیٹسمین وکٹ کیپرز میسر آجائیں گے۔

اختتامی کلمات میں انہوں نے کہا کہ لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کے لیے 200 رنز کی فتح گر اننگز اور اس کے بعد انگلستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں بطور کوچ پاکستانی ٹیم کا کلین سویپ مکمل کرنا میری زندگی کی ایسی کامیابیاں ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے تمام عمر فخر محسوس کرتا رہوں گا۔ شوبز کو بس ایک بار چھوڑ دیا اب اس کی جانب دوبارہ جانے کی نہیں سوچوں گا۔